... loading ...
نگہت ہاشمی
وہ بھی کیا دن تھے، تاریخ کے اوراق اْلٹ کر جب میں دیکھتی ہوں تو مجھے صحرا میں وہ عظیم عورت نظر آتی ہے جس کے پاس دودھ پیتا بچہ ہے، اْوپر نیلا آسمان ہے اور نیچے ریت ہے۔ سخت اور نوکیلے پتھر ہیں، پاس پانی کی مشک ہے اور کھجوروں کی پوٹلی ہی کل اثاثہ حیات ہے لیکن جو چیز اس عورت میں نظر آتی ہے وہ یقین، توکل اور عزم ہے۔ وہی عورت ہے جس ے مقدس شہر بلد امین کوآباد کیا، اس نے کیسے دن اور کیسی راتیں گزاری ہوں گی؟ ایک آزاد عورت نے…اپنی آزاد مرضی کے ساتھ…اپنی مرضی کو اپنے رب کے آگے بچھا کر کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا۔
مجھے وہ وقت بھی یاد آتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت زم زم کو اپنے لیے اور اپنے بچے کے لیے استعمال کر رہی تھیں۔ قبیلہ جرہم کے لوگوں کا گزر ہوا۔ اْنہوں نے اجازت چاہی کہ کیا ہم یہاں پر آباد ہو سکتے ہیں؟ ہاں! یقین کیجئے! تاریخ کا وہ دور ایسا تھا جہاں ایک عورت یہ کہتی ہے کہ آپ یہاں رہائش اختیار کرسکتے ہیں لیکن پانی پر میرا حق ہوگا۔
یہ بلد امین کی کہانی ہے۔ یوں دنیا کے اس عظیم شہر کی بنیاد رکھی گئی جہاں اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، جہاں لوگوں کے دل اٹکے رہتے ہیں، جہاں جانا لوگوں کے لیے زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے۔ جو وہاں جاتا ہے آنسو بہاتا ہے۔ جو وہاں سے لوٹ کر آتا ہے آنسو بہاتا ہے۔ محبتوں کی یہ کیسی عظیم داستان ہے۔ ایک آزادعورت نے اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا…زمین والوں کے لیے کتنی بڑی رحمت، کتنی بڑی نعمت ہے؟
ہاں وہی بچہ جب بھاگ دوڑ کی عمر کو پہنچا تواسی عورت نے کتنے بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا کہ اپنے بچے کو اپنے رب کے راستے میں قربان کرنے کے لیے اپنے شوہر کو سونپ دیا۔ ایک عورت کتنا بڑا ظرف رکھتی ہے۔میں جب پیچھے پلٹ کر دیکھتی ہوں تو مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب شوہر کو الوداع کرتے ہوئے سیدہ حاجرہ سوال کرتی ہیں کہ مجھے کس کے حکم سے یہاں چھوڑے جارہے ہیں، جہاں نہ چرند پرند ہیں، نہ کوئی ذی روح ہے، نہ حیات کے لیے کوئی سازوسامان ہے۔ جواباً سرجھکا لیا تو خود ہی سوال کرنے لگیں: کیا مجھے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھوڑے جا رہے ہیں؟ تو سیدنا ابراہیمؑ نے ہاں میں جواب دیا تو اس عظیم عورت نے کتنی بڑی بات کہی:’’اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا’۔ (بخاری:3364)
یہ یقین ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پرتوکل ہے جس نے بلد امین کو آباد کرنے کا کام کروایا۔
آزادی آبادی کے لیے ہونی چاہئے۔ ہاں وہ آزادی آبادی کے لیے تھی۔ صرف اپنے خاندان کی نہیں، دنیا بھر کے انسانوں کے لیے۔ ان کے دلوں میں رب کی یاد کی آباد کاری کے لیے اوران کی زندگیوں میں رب کی یاد کے لیے تھی۔ اس کے گھر کی آباد کاری کے لیے یہ کتنا بڑا قدم تھا۔
تاریخ کے اوراق اْلٹتے ہوئے جب میں اس دور میں پہنچتی ہوں جوعورت کو آزادی نہیں دیتا، جہاں کی بچیاں زندہ دفن ہو جاتی ہیں، جہاں عورت کو تعلیم کاحق نہیں ہے۔ جہاں اسے روزگار کا حق نہیں ہے، جہاں اسے ورثے میں بھی حق نہیں ملتا، جہاں مرد غلام بنتے ہیں توعورتیں بھی لونڈیاں بن جاتی ہیں۔ ان سے ان کی زندگی، ان کی رائے، ان کا سب کچھ ان سے چھین لیا جاتا تھا۔
اس دور میں ایک ایسی لڑکی تھی جواپنے شوہرکے ساتھ زندگی کے اچھے دن گزار رہی تھی۔ شوہر بھی غلام تھا اور بیوی بھی غلام تھی۔ وہی لونڈی جس وقت سیدہ عائشہ صدیقہؓکے پاس آئی توانہوں نے اس لونڈی کو آزاد کر دیا۔
آزاد ی کے بعد نئے چیلنجز تھے کیونکہ غلام اور لونڈی اگر رشتہ نکاح میں بندھے ہوئے ہوں تو آزادی کے بعد ایک کی دوسرے سے نسبت معلق ہو جاتی ہے۔ آزاد ہونے والا اگر نکاح کے رشتے میں بندھا رہنا چاہے تو وہ رشتہ برقرار رہتا ہے بصورت دیگر رشتہ برقرار نہیں رہتا۔ بریرہ تو آزادی کے نشے میں چور تھی۔ بریرہ کو نئے رنگ ملے تو بریرہ کے رنگ ڈھنگ بدل گئے۔
مغیث محبت کرنے والا شوہر تھا، وہ گلیوں، بازاروں میں روتا پھرتا تھا۔ جو اس کو ملتا اسے روکتا اور کہتا کہ ایک بار بریرہ کو منا دو، مجھ سے ایک بار بات تو کر لے۔ یوں ہی وہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ کے پاس جا پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! بریرہ سے کہیں کہ ایک بار میری بات سن لے۔ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کوبلایا۔
بریرہ ایمان والی تھی۔ وہ غلام عورت تھی لیکن وہ اپنے رب تعالی کو پہچانتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ مجھے اپنے ہر عمل کے لیے اپنے رب کو جواب دینا ہے۔ وہ اس بات کا یقین رکھتی تھی کہ زندگی صرف یہی زندگی نہیں بلکہ اس کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے اور اس زندگی کو میں نے اس زندگی کے اعمال کے مطابق حاصل کرنا ہے۔
بریرہ جانتی تھی…میرے حقوق کیا ہیں؟ میرے فرائض کیا ہیں؟ بریرہ کی شخصیت میں ایمان کا رنگ تھا۔ بریرہ پہلے غلام تھی پھرآزاد ہو گئی۔ بریرہ غلام ہونے کے باوجود بھی آزاد تھی۔ بریرہ کی سوچ آزاد تھی۔ اس نے اپنی سوچ کو، اپنے تخیل کو، اپنے عقیدے کو، اپنی ساری زندگی کو غیراللہ کے سامنے نہیں بچھایا تھا۔
بریرہ اگرچہ غلام تھی لیکن بریرہ دراصل اللہ تعالیٰ کی غلام تھی۔ اسے جو آزادی ملی وہ تو جسمانی طور پر کام کرنے اور زندگی گزارنے کا ایک معاہدہ تھا جس سے وہ آزاد ہوئی تھی۔ بریرہ اور مغیث کیسے کردار تھے؟ دونوں کی زندگی کتنی خوبصورت تھی؟ دونوں کتنی محبت کرتے تھے؟ لیکن آزادی تو انسانوں کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی ہے۔
بریرہ نے آزادی کا ذائقہ چکھ لیا تھا۔ اب وہ ایک غلام شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی مجلس میں بلا لیا۔ بریرہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کاش تم مغیث کے پاس لوٹ جاتیں۔ جانتے ہیں روشن دماغ بریرہ نے کیا کہا؟ بریرہ نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ! یہ آپ ﷺ کا حکم ہے یا سفارش؟ حکم ہے تو مان لوں گی، سفارش ہے تونہیں مانوں گی۔ حکم اس لیے مانوں گی کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، حکم اس لیے مانوں گی کہ میرا اپنے رب سے یہ معاہدہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو آپ ﷺ کے طریقوں کے مطابق ڈھالنا ہے لیکن سفارش کے لیے تو میرا اختیار ہے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ بریرہ نے کہا پھر مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔ (بخاری:5283،ابن ماجہ:2075
میں سوچتی ہوں کہ آج کے اس دورمیں ایک آزاد عورت شاید ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ آج کی عورت نہیں جانتی کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اس کے فرائض کیا ہیں؟ اس کوزندگی کیوں ملی؟ اس نے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ اس نے زندگی سے کیا کشید کرنا ہے؟ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اس کا کیا رول ہے؟ بریرہ کی آزادی کتنے دریچے کھولتی ہے۔ ایک غلام عورت کا قلب و ذہن کتنا روشن تھا۔
آخر اتنی تعلیم کے بعد…اتنی صدیاں بیتنے کے بعد…محمد رسول اللہ ﷺکی ذات پر، آپ ﷺ کی رسالت پر یقین کرنے والے آج بریرہ جیسے یقین سے، بریرہ جیسی سوچ سے محروم کیوں ہیں؟ آج کی عورت کی سوچ آزاد کیوں نہیں ہے؟ آج کی عورت اپنے حقوق کو کیوں نہیں پہچانتی؟ آج کی عورت کیوں نہیں پہچانتی کہ وہ کس لیے پیدا کی گئی ہے؟ آج کی عورت اپنے فرائض سے آگاہ کیوں نہیں ہے؟ ہمارا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے بارے میں ہی نہیں جانا۔
حقوق کے لیے آگاہی ہمیں کہیں اور سے مل رہی ہے۔ آگاہی کا یہ سفر ہماری اْمت توصدیوں سے طے کر رہی ہے پھر آگاہی کیوں نہ ملی؟ آج کتنی بریرائیں ہیں جوآزادی چاہتی ہیں۔ بریرہ آزاد ہوئی، اس دین کی وجہ سے جوانسانوں کو غلام بنانا نہیں چاہتا۔ بریرہ اس رحمت کی وجہ سے آزاد ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اصولوں کی وجہ سے۔ جو رسول اللہ ﷺ کے سکھائے ہوئے طریقوں کی وجہ سے بریرہ کی زندگی میں چھائوں بن گئی۔ بریرہ کی زندگی پر وہ بارش بن کرنازل ہوئے۔
آج ہمیں ضرور دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنا ہی ورثہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ کے توسط سے بھیجا ہم کیوں بھول گئے؟ آج ہم کہاں ہیں؟ جہاں ہم سے ہماری بیٹیاں سوال کرتی ہیں کہ اگرہم آج کے معاشرے میں ،آج کی سوسائٹی میں کل سے زیادہ محنت کر رہی ہیں تو ہمیں ہماراحق کیوں نہیں دیا جاتا؟ ہمیں اور ہماری سوچوں کو قید کر کے کیوں رکھا جاتا ہے؟
بیٹا! آپ قید میں نہیں ہو۔ آزادی آپ کا حق ہے۔ آپ کو آزادی آپ کے رب تعالی نے دی ہے۔ آپ ضرور جان لو کہ آزادی آبادی کے لیے ہے، آباد کاری کے لیے ہے۔ آزادی اس لیے نہیں کہ آپ ایک قید سے نکل کر کسی بڑی قید میں گرفتار ہو جائو۔ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں آزاد پیدا کیا، ہمیں جینے کا حق دیا، ہمیں ورثے کا حق دیا۔
مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں نے لیکچرر شپ شروع کی تو میری ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ اب آپ کی شناخت نہیں رہے گی۔ آپ کا نام آپ کے شوہر کے نام کے ساتھ آئے گا اور آپ کا نام لوگ بھول جائیں گے۔ شوہر کا نام باقی رہے گا۔ میں نے کہا: میں ایسا نہیں کر سکتی، میں اپنا تشخص نہیں کھونا چاہتی۔ انہوں نے کہا: یہ ملازمت کا تقاضا ہے، آپ کو کرنا ہو گا۔
میں پیچھے مڑ کر دیکھوں میرا رب کتنا کریم ہے، مجھے میرے نام کا حق دیتا ہے، وہ مجھے میری پہچان دیتا ہے۔ یہ پہچان رشتوں کے توسط سے ملے تو اس کے رنگ اور زیادہ گہرے ہو جاتے ہیں۔ ایک خاتون نے مجھ سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں پہلے شوہرکی بیوی تھی تومیں مسز فلاں تھی۔ میری ایک پہچان تھی۔ جب میری بیٹی چودہ سال کی تھی تومیرے اور شوہر کے درمیان کچھ معاملات ٹھیک نہ رہے، پھر ہماری علیحدگی ہو گئی، طلاق تک نوبت پہنچی۔
پھرجب میری دوسری شادی ہوئی تو میں پہلی پہچان کھو چکی تھی اور دوسری پہچان کے لیے کوشش کر رہی تھی۔ تو میرا نام میری زندگی میں تیسری مرتبہ تبدیل ہوا ہے۔ پہلے میرا نام تھا۔ پھر شوہر کا نام، پھر دوسرے شوہر کا نام۔ میں کہاں ہوں؟ مجھے لوگ مسز فلاں کے نام سے ہی کیوں پہچاننا چاہتے ہیں؟ مجھے میری پہچان کیوں نہیں دینا چاہتے؟ ہاں! نام پہچان کا ذریعہ ہوتا ہے، ہمارا رب ہمیں یہ حق دیتا ہے۔ مجھے اس قدر خوبصورت لگتا ہے اسلام کا یہ سلسلہ کہ عورت اپنے رب کے لیے مسجد جانا چاہتی ہے تواسے پورا حق دیا جاتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺکے سامنے صحابہ کرامؓ آتے ہیں اور با ادب درخواست کرتے ہیں کہ خواتین کومنہ اندھیرے اور رات کی تاریکی میں باہر نکلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ نبی پاک ﷺ نے مردوں کومنع فرمایا کہ وہ عورتوں کو مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے روکیں چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ جل جلالہ کی بندیوں کو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں سے نہ روکو’’۔(بخاری:900)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی سمجھ نصیب فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس علم کو حاصل کریں جو ہمارے حقوق اور ہمارے کردار سے متعلق ہو اور ہم وہی رنگ زمانے میں بکھیرنے کے قابل ہو جائیں جس کے بارے میں شاعرنے کیا خوب کہا: وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
نوٹ: ٹائٹل امیج انتہا پسند بھارتی ہندووں کے نرغے میں ‘‘اللہ اکبر’’ کا نعرہ بلند کرنیوالی حجاب کی محافظ بیٹی ‘‘مسکان’’ کے نام کیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔