وجود

... loading ...

وجود

بھارت کاگورباچوف

هفته 05 فروری 2022 بھارت کاگورباچوف

آج بھارت داخلی اور خارجی مسائل کی دلدل میں بری طرح پھنس چکاہے ۔ریاستی جبرو تشدد،مسلم کش فسادات ،سکھوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں،نچلی ذات کے ہندئوںپرمظالم کی بناء پر بھارتی حکومت کاچہرہ اور دامن دونوں سیاہ ہوتے جارہے ہیں ،یہی حالات رہے تو سیاسی مبصرین پرملا کہہ رہے ہیں مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہوگا۔ آپ نے یہ مشہور مقولہ کبھی نہ کبھی تو ضرورسنا ہوگا کہ” کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں”۔اس مقولے کے پیچھے ایک سچی داستان ہے پہلے وہ داستان سن لیں پھر آپ کو بتاؤں گا کہ یہ منقولہ آج کے دور میں کس طرح دوبارہ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔ سردارکھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے اور پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔ایک دن معمولات سے بیزار ہوکر سردارکھڑک سنگھ اپنے بھانجے کے پاس گئے اور کہا کہ” شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو(ان دنوں میں کسی بھی سیشن جج کے آرڈر انگریز وائسرائے کیا کرتے تھے)۔ یہ سن کر مہاراجہ پٹیالہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور کھلکھلا کر بولے ماموں آپ اور جج ۔۔ نہ بھئی نا یہ ناممکن ہے؟
سردار کھڑک سنگھ نے کہا دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں
مہاراجہ پٹیالہ نے کہا آپ تو پڑھے لکھے نہیں ہیں جج کیسے بن سکتے ہیں
سردار کھڑک سنگھ نے مونچھوںکو تائو دیتے ہوکہا اکبر بادشاہ کون سا ایم اے پاس تھا وہ میری طرح ان پڑھ تھا لیکن تاریخ کا سب سے کامیاب اور بارعب مغل بادشاہ تھا۔ ماموں کی بات سن کر مہاراجہ پٹیالہ لاجواب ہوگئے انہوں نے ناچار وائسرائے کے نام ایک چٹھی لکھ کر سفارش کی کہ ان کے ماموںکھڑک سنگھ کو سیشن جج لگا دیں۔بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ سیدھاوائسرائے کے پاس جاپہنچا اور اپنے بھانجے کی چٹھی پیش کی۔، وائسرائے نے خط پڑھا اور پھر کھڑک سنگھ سے کچھ سوالات پوچھنے لگا تاکہ یہ جان سکے کہ کھڑک سنگھ جج بننے کے اہل ہے یا نہیں۔
وائسرائے نے سردار کھڑک سنگھ سے پوچھا” ٹمہارا نام؟
سردارکھڑک سنگھ نے ترنت اپنا نام بتادیا
وائسرائے۔ تعلیم؟
سردارکھڑک سنگھ۔’ نے اک شان ِ بے نیازی سے کہا’تسی مینو جج لانا اے یاں سکول ماسٹر؟”
یہ بات سن کروائسرائے ہنستے ہوئے ”سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟
سردارکھڑک سنگھ نے موچھوں کو تائو دیا اور بولا ”بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ، میں کئی سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔
وائسرائے نے دل میںسوچا چلوآزمانے میں کیا ہرج ہے جج کا جج شغل کا شغل۔۔ جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کاماموں۔وائسرائے نے عرضی پر دستخط کردئیے اور کھڑک سنگھ کوجسٹس لگانے کا فرمان جاری ہوگیا۔وہ اپنے آرڈر لے کر پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں جا پہنچے ۔ اتفاق سے اسی روزپہلا کیس قتل کا تھا۔کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی خاتون کھڑی تھی تھی۔جسٹس کھڑک سنگھ اپنے سر پر سڑا سی پگ باندھے کرسی پر براجمان تھے کیس شروع ہونے سے پہلے اس نے چاروں جانب دیکھ کر حالات کا جائزہ لیا فریقین کو غور سے دیکھا اور پھر معاملہ سمجھ گئے۔ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا ”مائی لارڈ، یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔”جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔عورت بولی”سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے(پیچھے)سے نکلے اورمیرے کھسم(شوہر)کو جان سے مار دیا۔”جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا ”کیوں بدمعاشو، تم نے بندہ ہی مار دیا؟”دائیں طرف کھڑے ایک ملزم نے کہا”نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی” ،دوسرے نے کہا” میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ،ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد لڑائی نہیں صرف اسے سمجھانا تھا۔
” سردارکھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا” معاملہ جو بھی ہو، بندہ تو مرگیا نا؟” ملزمان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں کھڑک سنگھ اپنے سامنے پڑے کاغذات کو پکڑا ملزمان کے نام پوچھنا شروع کردئیے اچانک ایک کالا کوٹ پہنے ایک وکیل آ کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ، رکیے، یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے جناب قتل کا مقدمہ ہے ، یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا تھا؟
”جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا ”یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟”
پولیس والے نے جواب دیا”جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے۔
کھڑک سنگھ بولا” ایسے بتائو نا مطلب تو ہوا کہ ملزمان کا بندہ ہوا نا جو، ان کی طرف سے بات کررہا ہے۔”
سردارکھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں ملزمان کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیا اور پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیئے۔فیصلے میںلکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)۔کھڑک سنگھ کا فیصلہ سن کرپورے پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی، لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کے حمائتی وکیلوں کو بھی پھانسی دے دیتا ہے۔اس فیصلے کے بعد اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی بھی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا۔ جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا۔ آس پڑوس کی ریاست سے بھی لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔اس واقعہ کے بعدمشہور ہوا کہ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی کھڑک سنگھ کایہ منقولہ آج کے دور میں پوری دنیا کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔انڈین کسان سکھ جس طرح انڈیا میں کھڑک رہے ہیں اس سے انڈیا کے ایوانوں کی کھڑکیاں کھڑک کھڑک کر ٹوٹ رہی ہیں۔ مسلمان،سکھ ،عیسائیوں پر مشتمل اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے انڈیا نے جس ڈھٹائی کے ساتھ یوم جمہوریت منایا اور اس موقعہ پر جس اندازمیں خالصتان کا جھنڈا لہرایا گیاہے وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بھارتی حکمران تو سردارکھڑک سنگھ جتنے بھی انصاف پرورنہیں ہیں حالانکہ وہ اسی ملک کا شہری تھا۔ آج ایک طرف انڈیا میں یوم جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جمہوریت کا گلا گھوٹنے والا سلوک کیا جارہاہے نچلی ذات کے ہندئوں کا جینا عذاب بنادیا گیاہے ، سکھ اور تامل ناڈو میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں سکھ برادری کے ساتھ ان دنوں جو سلوک کیا جارہا ہے وہ سب کچھ دنیا دیکھ رہی ہے اور سوال پوچھ رہی ہے کہ کس منہ سے انڈیا یوم جمہوریت منا رہا ہے اسی لیے انڈیا کے یوم جمہوریت کو دنیا بھرمیں یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا جس کا مطلب ہے مودی مسائل کی دلدل میں پھنس چکاہے ۔ریاستی جبرو تشدد،مسلم کش فسادات ،سکھوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں،نچلی ذات کے ہندئوںپرمظالم کی بناء پر بھارتی حکومت کاچہرہ اور دامن دونوں سیاہ ہوتے جارہے ہیں ،یہی حالات رہے تو سیاسی مبصرین پرملا کہہ رہے ہیں مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر