وجود

... loading ...

وجود

بے سود روایتی احتجاج نہیں کچھ اور

هفته 05 فروری 2022 بے سود روایتی احتجاج نہیں کچھ اور

پانچ فروری کا دن ملک بھر میںکشمیریوں سے یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے آج پاکستان کے طول وعرض میں بھارتی ظلم و ستم کے خلاف احتجاج ہو گا جن میں مظلوم کشمیریوں کی مدد کا اعادہ کیا جائے گا لیکن کبھی آرام سے بیٹھ کر جائزہ لیں یہ جو ہم پانچ فروری کو مظاہر ے کرتے ہیں کیا کبھی دنیا نے اِن کا اثر لیا اورکشمیریوں کی جاری نسل کشی میں کمی آئی ہے؟ ہر سال سڑکوں پر چوہراہوں پر احتجاج کرتے ہیں اِن سے مظلوم کشمیریوں کے خلاف جاری سفاکانہ کاروائیوں کا خاتمہ ہوا ہے؟ یہ جوہرپانچ فروری کو ٹائر اور دیگر کاٹھ کباڑ کو آگ لگا کراپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں بھارت کی جنونی سرکار پر کبھی اِس کا کچھ اثرہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ غلطی کہاں ہے ؟ پھر غلطیاں دُہرانے کی بجائے ایسا طریقہ کار بنا کراُس پرصدقِ دل سے عمل کرنا ہوگا جو نتیجہ خیز ہو۔
ہم یومِ الحاق کشمیر مناتے ہیں کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں سارا سال بیان بازی بھی ہوتی ہے مگر کشمیر بھارت کے غیر قانونی قبضے سے آزاد نہیں ہوسکا مائوں بہنوں کی عصمت دری ہوتی ہے ہر روز بچے ،بوڑھے اور جوان بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں جن کی لواحقین کو لاشیں تک نہیں دی جاتیں بڑی تعداد میں کشمیری بھارت کی دور دراز جیلوں میں لغو الزامات کی بنا پر بند ہیں جنھیں قانونی امداد ملنا تو درکنا ر قیدیوں کو کولگائے الزامات کا بھی پتہ نہیں انسانیت سوز مظالم کے باوجودیو این او، انسانی حقوق کے اِدارے ،عالمی طاقتیں اور اسلامی ممالک تک چشم پوشی کرتے ہیں اِس لیے بے سود روایتی احتجاج کی بجائے غوروفکر سے کچھ اور طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا جس کا کچھ اثر ہو اور نہ صرف کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ ہو بلکہ انھیں حقِ خوداِرادیت ملنے کی راہ بھی ہموار ہو ۔
تلخ سچ یہ ہے کہ برسوں سے ہماری چیخ و پکار کوبھارت نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی بلکہ پانچ اگست 2019سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے متنازعہ علاقے کو ضم کر لیا ہے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکے اِس نا انصافی پر ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی چین دوستی بھی ہمارے کسی کام نہیں آئی کئی دہائیوں سے امریکہ کے آلہ کار کا کردارادا کرنے کے باوجود آج حالات اِ س نہج پر ہیں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے سفارتی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں انسانی حقوق کا دعویدارجو بائیڈن ہماری قیادت سے بات تک کرنے کا روادار نہیں طویل ترین حاشیہ برداری کے جواب میں روا سلوک کا پیغام ہے کہ جذبات سے نکل کر حقیقت پسند بنیں اور ملکی مفادکی نگہبانی کریںکشمیریوں کی حمایت کے لیے احتجاج ،مظاہروں اورنعروں کے علاوہ کچھ اورآپشن پر عمل کرنے کا بھی سوچا جائے۔
پاکستان اب ایک جوہری طاقت ہے اِس لیے بھارت جارحانہ عزائم کے باوجود 1965اور1971کی طرح حملہ کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا اسی لیے براہ راست ٹکرائو کی بجائے دیگر آپشنز پرکام کررہا ہے ایک تو کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے دوم پاکستان کو اندرونی طورپر عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے لیے تخریبی کاروائیوں کی سرپرستی کرنے لگا ہے سوم ہماراپُرامن عالمی تشخص خراب کرنے کے لیے زرائع ابلاغ کو بے دریغ استعمال کر رہا ہے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کانام شامل کرانے میں بھی اُس کا کلیدی کردار ہے لیکن ہم نے بھارتی منصوبوں کو سمجھنے اور توڑ کرنے کی بجائے اپنی توجہ وقتی احتجاج اور جذباتی نعروں تک محدود کر لی ہے جس سے کشمیریوں کی مدد کی بجائے قابض جنونی ملک کو مزموم سازشوں پر عملدرآمد کاوقت مل رہا ہے اگر جذباتی نعروں تک محدود رہنے کی بجائے امریکہ اور مغربی ممالک کو چھوڑکر صرف چین ،روس اور اسلامی ممالک کی قیادت کو ہم خیال بنانے پر ہی دھیان دیں تو بھارت کو چیرہ دستیوں سے روکناممکن ہے کیونکہ لاکھوں بھارتی روزگارکے لیے عرب ممالک میں مقیم ہیں جن کی بے روزگاری اور ترسیلاتِ زر سے محروم ہونے کی دھمکی ہی جنونی ہندو قیادت کے ہوش ٹھکانے لاسکتی ہے اِس کے لیے جذباتی اوربے سود روایتی احتجاج کے علاوہ سفارتی زرائع سے بھی کام لینا ہوگا۔
ہماری قیادت نے سنگین غلطیاں کی ہیں جنھیں ماننا چاہیے اگر1962کی چین بھارت جنگ کے دوران چینی پیغام پر تحرک کیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا مگر پاکستان نے امن پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے جنگ میں حصہ نہ لیا اب ہمارے پاس یکطرفہ امن پسندی ظاہر کرنے کے مزید مواقع نہیں بظاہر بھارت کی طرف سے کشمیر کو ضم کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاجاََ پاکستان نے سفارتی تعلقات انتہائی محدود کر لیے ہیں لیکن بھارت آبی جارحیت پر اُتر آیا ہے جبکہ سفارتکاری نہ ہونے سے ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے غیرقانونی زرائع سے تجارت تو ہورہی ہے لیکن آبی مسلہ حل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہورہا تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بے سود روایتی احتجاج تک محدود نہ رہیں بلکہ ساتھ کچھ اور آپشنزپربھی دھیان دیں تاکہ نہ صرف ملکی مفاد کا تحفظ ہو بلکہ کشمیریوں کو ظلم کی سیاہ رات سے چھٹکارہ ملے۔
غلطیوں سے سیکھنے والا ہی منزل حاصل کرتا ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ چوہتر برس گزرنے کے باوجود ہماری شمال مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں حالانکہ افغانستان اور ایران دونوں اسلامی ممالک ہیں مگر دونوں میں پاکستان مخالف فضا ہے1979کے آخر میں روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو بیرونی حملے اور بدترین خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندوں نے پاکستان میں پناہ لی جنھیں سرحد پار افغان جہاد میں شرکت کی اجازت دیکر ہم نے بھاری جانی و مالی قیمت چکائی مگرجب صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے 1990میں ایک بیان میں اتنا کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو کنفیڈریشن بننا چاہیے تو انھی افغان باشندوں نے نہ صرف کابل میں پاکستانی سفارتخانے کا گھیرائو کیا بلکہ تمام بڑے شہروں میں ہنگامے اور مظاہرے کیے اور بیان سے یہ مطلب اخذ کیا کہ افغانستان کوپاکستان اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتا ہے برسوں مہمان نوازی کے باوجود افغانوں کے دلوں میں موجود کدورت کا برقرار رہنا اور دل نہ جیت سکناہماری کوتاہیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے اگر افغان مہاجرین کے دل ہی جیتے ہوتے تو آج اکثریت پاکستان کے حق میں ہوتی اور ہمارے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کوکابل جا کر یہ نہ کہنا پڑتا کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے لیے آج بھی افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے ۔
جب بھی ایران کے خلاف کوئی عالمی یا عرب اتحاد بنا پاکستان نے اپنے برادر ہمسائے کے خلاف چلنے سے نہ صرف گریز کیا بلکہ ایران کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کو روکنے کی کوشش کی مگر اِس تلخ سچ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اوآئی سی اجلاس سے ایران نے ہی غیر حاضر ہوکر کشمیر کے حق میں متفقہ قرارداد پاس نہ ہونے دی اب بھی پاک ایران سرحد پر مکمل امن نہیں بلکہ فائرنگ سے اموات ہوتی رہتی ہیں گرفتاربھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بھی ایران کے راستے ہی پاکستان آتا جاتا اور دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا بلوچستان،کے پی کے سمیت ملک بھر میں ایک بار پھر دہشت گرد عناصر حملے کرنے لگے ہیں جن کے پسِ پردہ بھارتی ہاتھ عیاں حقیقت ہے یہ حالات ہماری ناقص خارجہ پالیسی کی تصدیق کرتے ہیں موجودہ صورتحال سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت کشمیرہڑپ کرنے کے بعد اب پاکستان کو بھی شکست وریخت سے دوچار کرنا چاہتا ہے لیکن سازشوں کا توڑ کرنے کی بجائے ہمارے ہی کچھ ناعاقبت اندیش اپنی ہی فوج پر اُنگلیاں اُٹھانے اور جذباتی نعرے لگانے میں مصروف ہیں یہ دانشمندانہ حکمتِ عملی نہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے اور بے سود روایتی احتجاج تک محدود رہنے کی بجائے پاکستان بھی کچھ اور آپشنز پر کام کرے کیونکہ بھارت امن کی نہیں صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔س
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر