... loading ...
آصف محمود
سردیوں کے شروع میں عمران خان نے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کی بات کی لیکن سردیوں نے رنگ جمایا تو بجلی سستی ہونے کی بجائے مہنگی ہوتی چلی گئی۔سوال یہ ہے کہ عمران خان کا منصوبہ کیا تھا اور یہ منصوبہ کن لوگوں نے کس طرح ناکام بنایا؟اعدادوشمار کے گورکھ دھندے اور فنی پیچیدگیوں سے ہٹ کر، آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرانی بات ہے،پاکستان میں ایک زمانے میں لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ہو گیا تھا۔ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے گئے۔ ہمارے ہاں چونکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اس کے لیے سازگار ماحول ہوتا ہے ، یہاں حکومت آتی بعد میں ہے اس کے جانے کی تاریخیں دینے والے عالمی جاسوس نما سینئر تجزیہ کار پہلے میدان میںآجاتے ہیں۔ اس لیے ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ لانگ ٹرم پالیسیوں کی بجائے فوری طور پر کچھ ایسا کر دکھایا جائے کہ واہ واہ ہو جائے۔ سماج کا بھی یہ سٹیمنا نہیں کہ وہ کسی لانگ ٹرم منصوبہ بندی کا متحمل ہو سکے۔ اسے بھی فوری نتائج چاہیے ہوتے ہیں چنانچہ معاشرے کی اسی بیمار نفسیات کے تحت ڈاکٹر’ سٹیرائڈز ‘دیتے ہیں تا کہ مریض فوری صحت یاب ہو جائے بھلے بعد میں اس کے گردے اور دل برباد ہو جائیں۔یہی کام حکومتیں کرتی ہیں کہ اگلے الیکشن سے پہلے پہلے کچھ ’ سٹیرائڈز‘ اس قوم کو دے دیا جائے۔ بھلے اس کے نتیجے میں بعد میں ستیاناس ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چنانچہ ہم نے اس وقت کچھ پاور کمپنیوں سے معاملہ کیا۔ ہم مجبور تھے اور کمپنیوں کو ہماری مجبوری کا علم تھا۔چنانچہ ایسے معاہدے ہوئے کہ وقتی طور پر لوڈ شیڈنگ تو ختم ہو گئی لیکن ہمارا کباڑا ہو گیا۔ ان کمپنیوں نے کہا کہ ہم آپ سے صرف اس بجلی کے پیسے ہی نہیں لیں گے جو آپ استعمال کریں گے۔ بلکہ ہم آپ سے اس بجلی کے پیسے بھی لیں گے جو ہم پیدا تو کر سکتے ہوں گے لیکن آپ خریدیں گے نہیں۔ یعنی ان بجلی کی کمپنیوں نے ہم سے اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق پیسے لینا شروع کر دیے۔ اس کو سادہ ، سلیس اور دیسی اندازسے یوں سمجھ لیجیے کہ اگر پاکستان بجلی کے صرف پچاس یونٹ استعمال کر رہا تھا تو کمپنیوں نے کہا کہ ہم بل پچاس یونٹ کا نہیں لیں گے بلکہ ہم چونکہ سو یونٹ پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیںتو ہم تو پیسے سو ہی کے لیں گے۔ آپ کی مرضی آپ پچاس یونٹ خریدیں یا سو یونٹ خریدیں۔
ہم نے یہ شرط مان لی اور تب سے اب تک ہم ان کمپنیوں کو استعمال شدہ بجلی کی بجائے ان کی کل پیداواری صلاحیت کے مطابق بل ادا کر رہے ہیں۔ چاہے بجلی ہم لیں یا نہ لیں بل دیتے جا رہے ہیں اور یہ اربوں ڈالر کا معاملہ ہے چند کروڑ کی بات نہیں۔ یہاں تماشا یہ ہوا کہ ان کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کا کسی کو علم ہی نہیں تھا۔ ہمارے پاس تو کوئی پیمانہ ہی نہیں تھا۔ ہماری ٹرانسمیشن لائنز ایک حد سے زیادہ بجلی کا بوجھ ہی نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ اب یہ ہوا کہ ان کمپنیوں نے جو سچ جھوٹ بتا دیا کہ ہم اتنی بجلی پیدا کر سکتی ہیں ہم نے اسے تسلیم کر لیا۔ کون سے پیسے کسی حکمران کی جیب سے جا رہے تھے۔ قومی خزانے کی بربادی تھی ، ان کی جانے بلا۔چنانچہ ہوا یہ کہ ہم نے بھلے چار یونٹ استعمال کیے ہوں،کمپنیوں نے کہ دیا کہ ہماری پیداواری صلاحیت تو ڈیڑھ ہزار یونٹ کی تھی، تو ہم نے ان کو ان کی اس مفروضے پر مبنی پیداواری صلاحیت کے مطابق بل دینا شروع کر دیا۔ معلوم انسانی تاریخ میں ایسی واردات کہیں ہوئی ہو تو بتائیے۔ اب جب یہ معاملہ عمران خان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہا سردیوں میں ہم بجلی تو بہت کم استعمال کرتے ہیں لیکن ان کمپنیوں کو اتنی زیادہ ادائیگی کیوں کی جاتی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ مجبوری ہے بجلی استعمال کریں یا نہ کریں، ہمیں ادائیگی ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے مطابق کرنا ہو گی۔عمران خان نے کہا کہ اگر 10 یونٹ استعمال کر کے بھی بل 30 یونٹ کا دینا ہے تو کیوں نہ زیادہ سے زیادہ بجلی استعمال کر لی جائے۔ عوام سے جتنے پیسے دس یونٹ کے لیے جا رہے ہیں، بجلی سستی کر دی جائے تو اتنے ہی پیسوں میں وہ 30 یونٹ استعمال کر لیں گے۔ ان غیر ملکی کمپنیوں کو تو ایک خاص رقم دینی ہی دینی ہے تو کیوں نہ سردیوں میں بجلی سستی کر کے اس کا استعمال ز یادہ کر لیا جائے۔ یہ اس نئے منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا۔ اگلے مرحلے میں یہ ہونا تھا کہ اگر کمپنیاں پیداواری صلاحیت کے مطابق پیسے لیتی ہیں۔ تو ان کی ساری پیداواری صلاحیت کو کھپایا جا سکے۔اور یہ نہ ہو کہ دس روپے کی بجلی استعمال کر کے تیس روپے کی ادائیگی کی جائے۔چنانچہ وزیر اعظم نے سردیوں کے لیے بجلی سستی کرنے کا عندیہ دے دیا۔ لیکن حیران کن طور پر ہوا یہ کہ چند روز بعد ہی بجلی مزید مہنگی کر دی گئی۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ اس سوال کے جواب میں صرف حیرت ہے اور اندازے ہیں۔ چونکہ کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کی کہانی ایک مفروضہ ہے، تو ہو سکتا ہے وہ اور ان کے کارندے بھی بروئے کار آئے ہوں کہ کہیں سچ مچ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی نہ دینی پڑ جائے۔چونکہ واپڈا کے پاس ٹرانسمیشن لائنز کی یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی ترسیل کر سکیں تو شاید انہوں نے بھی کمالات دکھائے ہوں۔ کچھ نادیدہ ’ بینیفشریز‘ بھی ہوتے ہیں کچھ کمالات ان کے بھی ہوں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ عمران خان فارمولا ناکام ہو گیا۔ اور ’کھائو پیو‘پروگرام جیت گیا۔ اس پر عمران خان کی خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ بھی بے بس ہو گئے ہیں یا انہیں بھی ‘ بابو لوگوں ‘ کی جانب سے قائل کر لیا گیا ہے کہ اس کے سوا اب کوئی راستہ نہیں۔
عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ بائیس سالہ جدوجہد کے ماہ و سال تو ان کے ہمراہ ہیں لیکن ان کی اپنی ٹیم کہیں نہیں ہے۔ نہ معیشت میں،نہ ابلاغ میں ،نہ قانون و انصاف میں ، نہ ہی بجلی میں۔وہ کپتان تو بن گئے ہیں لیکن ان کی ٹیم میں نہ کوئی میانداد ہے ، نہ وسیم اکرم ، نہ کوئی عاقب جاوید ہے نہ انضمام الحق۔یہی نہیں معاملہ یہ بھی ہے کہ وہ کرکٹ کے کپتان تھے تو کرکٹ کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا، اب وہ وزیر اعظم ہیں لیکن امور ریاست پر ان کی وہ گرفت نہیں ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ کبھی کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نہیں گئے۔کسی قائمہ کمیٹی کی سربراہی نہیں کی۔ پارلیمانی امور سے لاتعلق رہے۔ یہ ایک تجربہ گاہ تھی ، مگر عمران خان اس سے لاتعلق رہے۔نتیجہ سامنے ہے۔یا شاید اب کی بار ان کی منزل مقصود بھی ورلڈ کپ کی بجائے صرف کپتانی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔