... loading ...
(مہمان کالم)
اکبرپٹیل
مَیں اِدھر کچھ عرصے سے یوپی نہیں گیا اس لیے جو کچھ بھی کہنے جارہا ہوں وہ ایسا نہیں کہ جس کا تعلق تازہ صورت حال سے ہو یا ذاتی تجربات پر مبنی ہو۔ تاہم یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ریاست کے رائے دہندگان کا گزشتہ چند برسوں کا ووٹنگ رجحان کیا تھا تاکہ یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ 10 فروری سے شروع ہونے والے الیکشن میں کیا امکانات ہیں۔
2021 میں سماج وادی پارٹی نے اس ریاست میں مکمل اکثریت حاصل کی تھی۔ اسے92 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ دوسرے مقام پر جو پارٹی تھی وہ بی جے پی نہیں، بی ایس پی تھی۔ اس کے حصے میں66ٰ فیصد ووٹ آئے تھے۔بی جے پی کو، جس کی قیادت اْس وقت اوما بھارتی کررہی تھیں، صرف اکیاون فیصد ووٹ ملے تھے۔ دو سال بعد،2014 میں بی جے پی کی کارکردگی میں چار چاند لگ گئے، اس کے حصے میں آنے والے ووٹوں کا فیصد (اپنا دل کی شراکت سے) 24فیصد ہوگیا تھا۔ اپنا دل کی شراکت کے بغیر بھی یہ فیصد40 تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی جست تھی۔
اس غیر معمولی کامیابی کے دو اسباب بتائے جاسکتے ہیں۔ پہلا سبب نریندر مودی کی شخصیت کی کشش جس نے ان کی پارٹی کیلئے کرشماتی کردار ادا کیا۔ دوسرا سبب مغربی یوپی کا فرقہ وارانہ تشدد تھا۔ اگست اور ستمبر 2013میں مظفرنگر اور شاملی میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے سماج میں تفرقہ پڑگیا اور ووٹوں کا بڑے پیمانے پر ارتکاز (پولرائزیشن) ہوا۔ ان واقعات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ریلیف کیمپوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ پناہ گزینوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ان واقعات کی وجہ سے سماج میں پڑنے والی دراڑ کافی عرصہ برقرار رہی جس کابی جے پی کو 2014 کے لوک سبھاالیکشن میں بھی او ر2017 کے اسمبلی الیکشن میں بھی فائدہ ہوا۔ مارچ2017میں اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے لکھا تھا کہ بی جے پی،جاٹ ووٹوں میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوئی اور جو ووٹ لوک دل کو جاتے تھے، اْن پر قابض ہوگئی۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، جاٹ برادری سے کہا گیا تھا کہ ’’جو ووٹ بی جے پی کے خلاف یعنی بی جے پی کے علاوہ کسی پارٹی کو دیا جائیگا وہ یوپی میں مسلمانوں کی حکومت بنانے میں معاون ہوگا۔‘‘ رپورٹ کے مطابق، جاٹ لیڈرشپ سے امیت شاہ کی ملاقات کی ایک ویڈیو کا، جو بہت سوچ سمجھ کر افشا کی گئی تھی، جاٹ برادری پر کافی اثر ہوا۔ اس کی وجہ سے برادری خوفزدہ ہوئی اور کم از کم نصف ووٹ بی جے پی کے پالے میں چلے گئے۔ اس کے علاوہ ہندو ووٹ (بلاتفریق طبقات) بہت واضح طور پر بی جے پی کو ملے۔‘‘
اس طرح بی جے پی نے اْترپردیش جیتا۔ اب بھی اسے40فیصد ووٹ ملے۔نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اْس وقت کے معاشی حالات کے باوجود بی جے پی سرخرو ہوئی تھی۔ فروری 2017میں ہونے والی پولنگ نومبر16کی نوٹ بندی کے محض دو ڈھائی ماہ بعد ہوئی تھی۔ نوٹ بندی کی وجہ سے ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ بالخصوص انتہائی غریب لوگ بے حد پریشان تھے۔ اس کے باوجود بی جے پی کی کارکردگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
دلچسپ بات اْن انتخابات کی یہ تھی کہ سماج وادی پارٹی کے حصے میں جو پولنگ فیصد آنا تھا، وہ اس نے برقرار رکھا جو ۹۲? فیصد تھا البتہ بی ایس پی نے اپنا ووٹنگ فیصد گنوایا۔ 2019میں ایس پی اور بی ایس پی متحد ہوئے۔ اْس وقت قیاس کیا جارہا تھا کہ یہ اتحاد بی جے پی کو سخت آزمائش میں مبتلا کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ بی جے پی کا پولنگ فیصد مزید بڑھ گیا اور 50فیصد تک پہنچ گیا۔ پارٹی کو اس الیکشن میں بھی غیر معمولی کامیابی ملی۔ اس مرتبہ جس چیز کا فائدہ پارٹی کو ہوا وہ ہندوستان کا پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک تھا۔ بالاکوٹ پر ہونے والا یہ اسٹرائک فروری کے اواخر میں کیا گیا تھا۔
اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ووٹوں کا فرقہ وارانہ خطوط پر ارتکاز (پولرائزیشن) بی جے پی کی کتنی مدد کرتا ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے28 جنوری کو بی جے پی کے مخالفین کے لیے یہ ٹویٹ کیا تھا: ’’وہ جناح کے حامی ہیں، ہم سردار پٹیل کے۔اْن کے لیے پاکستان اہم ہے، ہمیں ماں بھارتی عزیز ہے۔‘‘
اس سے ایک روز پہلے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کے بانی جناح کا نام انتخابات کے دوران کیوں اْبھارا جاتا ہے۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے، اس سے بہتر ہے کہ ہم گنا کسانو ں کی بات کریں۔‘‘
بی جے پی کے لیڈران جناح، پاکستان اور مسلمانوں کو اس لیے موضوع بناتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ماضی میں اْنہیں فائدہ ملا تھا۔ اسی لئے، انتخابات میں جناح اور پاکستان یا مسلمان کا موضوع بننا جاری رہے گا، یہ ختم نہیں ہوسکتا۔
موٹے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یوپی پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو ماضی کے تین انتخابات میں حاصل ہونے والا پولنگ فیصد ازسرنو حاصل کرنا پڑے گا۔ جہاں تک سماج وادی پارٹی کا تعلق ہے، غالب امکان اس بات کا ہے کہ اس کے پولنگ فیصد میں ریکارڈ اضافہ ہو مگر یہ کہنا اب بھی مشکل ہے کہ کیا سماج وادی کی شاندار کامیابی بی جے پی کو روک سکے گی۔ ایک بار پھر واضح کردوں کہ یہ بات مَیں یوپی کے زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بلکہ سابقہ ووٹوں کی حصہ داری کو سامنے رکھ کر کہہ رہا ہوں۔
ویسے، ماضی کے ووٹنگ فیصد کے علاوہ چند خارجی محرکات کا سامنے رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ ان میں سے ایک ہے کسانوں کا احتجاج جو ایک سال تک جاری رہا اور نومبر2012 میں اْس وقت ختم ہوا جب مرکزی حکومت نے متنازع زرعی بل واپس لیے۔ دوسرا محرک ہے ملازمتوں کیلئے تقرری نہ ہونے کے خلاف نوجوانوں کا احتجاج جو اِس وقت جاری ہے۔ تیسرا محرک کووڈ کی دوسری لہر کے دوران گنگا میں لاشوں کے بہنے اور آکسیجن کے لیے مچنے والی ہاہاکار ہے۔ دیکھنا یہ ہوگاکہ کیا یہ تمام حقائق ووٹوں کے فرقہ وارانہ ارتکاز کے سامنے بے معنی ہوجائینگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔