... loading ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں اس وقت فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کی جو اونچی لہریں اٹھ رہی ہیں، ان سے ملک کا ہرخیرخواہ تشویش میں مبتلا ہے۔ خاص طورپر جب سے پانچ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان ہوا ہے، ماحول میں فرقہ واریت کا زہر گھول کر ووٹوں کی فصل اُگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ایسی زبان بول رہے ہیں جو انھیں کسی بھی طور زیب نہیں دیتی۔ سب کے ساتھ انصاف کرنے کا آئینی حلف اٹھا نے والے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی امن وقانون کی مشینری کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ دستورکے صریحاً خلاف بیان بازی اور اشتعال انگیزی کرنے والوں کی زبان پر لگام لگائی جائے۔ ظلم اور جبرکا ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی بھیسراٹھا کر جینے کی ہمت نہ کرسکے۔ پوری دنیا ان حالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور اس کو روکنے کی بساط بھرکوشش بھی کی جارہی ہے۔لیکن بیرونی دنیا کی کوئی تنظیم جب اس پرتنقید کرتی ہے توالٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کا تازہ ثبوت ’انڈین امریکن مسلم کاؤنسل‘ کے ایک ورچول پروگرام پر سرکاراور ہندتوا حلقوں کا ردعمل دیکھ کر ہوا ہے۔اس کاؤنسل کا قصور یہ ہے کہ اس نے ہندوستان میں اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف زبان کھولی ہے اور دنیا کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔ اس پروگرام میں امریکی پارلیمنٹ کے چار ارکان نے شرکت کی اور ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی پرتشویش کا اظہار کیا۔اس ورچول پروگرام میں ہندوستان سے اظہار خیال کرنے والوں میں سابق نائب صدر محمدحامد انصاری بھی شامل تھے، لہٰذا انھیں ایک بار پھر اسی انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے، جیسا کہ اس سے پہلے ان کی حق گوئی کے لیے بنایا گیا تھا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں جب حامد انصاری نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس پر تشویش ظاہر کی تھی تو فرقہ پرست اور فسطائی عناصر ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ اس کے بعد جب ان کی آپ بیتی میں ان باتوں کو دوہرایا گیا تو ایک دوبارہ ان کی ناکہ بندی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب جبکہ انھوں نے ’انڈین امریکن مسلم کاؤنسل‘ کی آن لائن میٹنگ میں ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پرتشویش کا اظہار کیا تو ان کی زبان نوچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بار حکومت میں بیٹھے ہوئے دوپیادوں کو ان کے خلاف محاذ آرائی کے لیے پیش کیا گیا۔’ہندوستان کے متنوع آئین کے تحفظ‘ کے موضوع پر انڈین امریکن کاؤنسل‘ نے حال ہی میں امریکی کانگریس کے ارکان، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سربراہ اور دیگر شرکاء کے ساتھ ایک ورچول مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے سابق نائب صدر حامد انصاری نے کہا کہ ملک اپنی آئینی اقدار سے دور ہوتا چلا جارہا ہے۔ ا حالیہ برسوں میں ہم نے ایسے رجحانات اور طرزعمل کو ابھرتے ہوئے دیکھا ہے کہ جو پہلے سے قایم شہری قوم پرستی کے برخلاف ثقافتی قوم پرستی کے خیالی نظام کو نافذکرتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ شہریوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر الگ کیا جائے اور عدم تحفظ کو فروغ دیا جائے۔انھوں نے کہا کہ ایسے رجحانات کو سیاسی اور قانونی طورپر چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
سابق نائب صدر نے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا ہے وہ سوفیصد حقیقت ہے اور اس پر کئی عالمی پلیٹ فارموں میں بحث ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کے کئی ادارے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے تشویش میں مبتلا ہیں اور وہ برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن ہر بار یہی ہوتا ہے کہ حکومت کے کارندے اور ہندتوا بریگیڈ ان لوگوں کو منہ نوچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سچ کو جھٹلانے کے لیے جوابی الزامات کا سہارا لیا جاتا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ورچول مباحثے کو منعقد کرنے میں انڈین امریکن مسلم کاؤنسل کے شریک منتظمین ایمنسٹی انٹرنیشنل، جینو سائڈ واچ جیسی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ اس مباحثہ میں ہندوستان میں اقلیتی طبقات کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، انسداد دہشت گردی قانون یواے پی اے کے نفاذ پر بھی بحث ہوئی۔ مباحثہ میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سربراہ نادین منزا نیکہاکہ حالیہ برسوں میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال تیزی سے خراب ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2014کے بعد سے بی جے پی کی قیادت والی ہندوستانی حکومت نے ہندوراشٹر کے اپنے نظرئیے کو قوانین اور ساختیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ قومی اور ریاستی سطح پر اداروں میں تیزی سے داخل کیا ہے جو کہ ملک کی مذہبی اقلیتوں مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت اور آدیواسی کے خلاف ہے۔‘‘ اس حقیقت بیانی کا توڑ کرنے کے لیے گودی میڈیا اور ہندتوا عناصر نے انڈین امریکن کاؤنسل کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور سیمی جیسی ممنوعہ تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی اور امریکی شہری حقوق کی اس تنظیم کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن عالمی میڈیا پر اس بے ہودہ پروپیگنڈے کا کوئی اثرنہیں ہوا اور نہ ہی مذکورہ تنظیم کی کوئی حوصلہ شکنی ہوئی۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ جب بھی ملک میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف عالمی پیمانے پر آوازبلند ہوتی ہے تو فرقہ پرست اور گودی میڈیا اس کا سارا ملبہ خود اقلیتوں اور مسلمانوں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ خود کو پاک صاف ثابت کرسکیں۔جبکہ دنیا اس حقیقت کو بخوبی جانتی ہے کہ یہی وہ عناصر ہیں جنھوں نے اس ملک میں اقلیتوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔
یوں تو اس ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور ان کے دستوری حقوق کو سلب کرنے کی کوششیں روز اوّل سے جاری ہیں مگر جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے تب سے فرقہ پرستوں نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام ہوگیاہے۔ گؤگشی کے نام پر سینکڑوں بے گناہوں کی لنچنگ ہوچکی ہے۔’لوجہاد‘جیسے مہمل نعروں کو اچھال کرلاتعداد مسلمانوں کا جینا حرام کیا گیا۔مسلمانوں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔ فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو سرکاری مشنری کا آشیرواد حاصل ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ اب یہ لوگ کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی اور ہندو راشٹر قایم کرنے کے لیے مارنے مرنے کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ دستور کا حلف لے کر حکمرانی کرنے والوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سب کے ساتھ انصاف کرنے اور ان کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری نبھائیں، لیکن یہ ایسی حکومت ہے جس کے وزیر کھلے عام دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک کے وزیرداخلہ آج کل اترپردیش میں جو انتخابی مہم چلارہے ہیں، وہ پوری طرح فرقہ وارانہ خطوط پر تیار کی گئی ہے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز مغربی یوپی کے قصبہ کیرانہ سے کیا، جہاں بی جے پی نے مسلمانوں کے خوف سے ہندوؤں کے نام نہاد ’پلائن‘ کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ بڑے پیمانے پر یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اس علاقہ میں ہندو، مسلمانوں کے خوف سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ جبکہ غیرجانبدار میڈیا نے اپنی تحقیقاتی رپورٹوں میں اسی وقت یہ ثابت کردیا تھا کہ اس علاقہ سے ہندوؤں کی نقل مکانی کا پروپیگنڈہ سفید جھوٹ ہے۔ جو لوگ بھی یہاں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہوئے ہیں وہ بہتر کاروباری مواقع کی تلاش میں گئے ہیں۔اس طرح اس پروپیگنڈے کی ہوا اسی وقت نکل گئی تھی، جب اسے ہوا دی گئی تھی۔لیکن اب چونکہ بی جے پی مغربی یوپی کے کسانوں کی ناراضگی جھیل رہی ہے، اس لیے وہ وہاں فرقہ وارانہ کارڈ کھیلناچاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کومرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کیرانہ کے عوام کے درمیان ایک ایسا موضوع لے کر پہنچے ہیں جس کی ہوا پہلے نکل چکی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے کسانوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے جاٹوں اور مغلوں کی محاذآرائی کا حوالہ دے کر ایک اور فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔امیت شاہ نے جاٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کا اور ہمارا رشتہ تو 650سال پرانا ہے۔ جاٹ بھی مغلوں سے لڑے تھے اور ہم بھی لڑرہے ہیں۔‘‘ امیت شاہ نے اپنی تقریر میں ان مغلوں کا نام تو نہیں لیا جن سے وہ اس وقت لڑرہے ہیں، لیکن ان کا اشارہ واضح طورپر مسلمانوں کی طرف تھا۔ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کا وزیرداخلہ جس کے کاندھوں پر ملک میں امن اوربھائی چارہ قائم رکھنے کی ذمہ داری ہے، وہ کھلے عام عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے پر کمربستہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔