... loading ...
مولانا زاہد الراشدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامعہ انوار العلوم گوجرانوالہ کو قائم ہوئے ایک صدی مکمل ہو رہی ہے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے مجلہ ’’مہک‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں اس مدرسہ کی بنیاد ۲۲۹۱ء میں رکھی گئی تھی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے شاگرد حضرت مولانا عبد العزیز محدث سہالوی نے، جو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب تھے، یہ مدرسہ قائم کیا۔ استاذ المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نے اس کا افتتاح کیا۔ حضرت مولانا عبد العزیز کے بعد حضرت مولانا مفتی عبد الواحد اور ان کے بعد حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان اس کے مہتمم رہے۔ جبکہ ان کے بعد سے اس کے مہتمم مولانا داؤد احمد میواتی ہیں جو اپنی ٹیم مولانا عبد القدوس، مولانا مفتی جمیل احمد، مولانا قاضی کفایت اللہ، مولانا قاضی مراد اللہ، مولانا حافظ فضل الہادی اور دیگر رفقاء کے ساتھ آپ کے سامنے اسٹیج پر موجود ہیں۔
اصل نام ’’الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سننہ و ایامہ‘‘ ہے۔ اس نام کے ہر لفظ کا ایک مستقل پس منظر ہے۔ مگر ابھی صرف پہلے لفظ ’’الجامع‘‘ پر غور کر لیں جس کا مطلب علمی طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’الجامع‘‘ حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں عقائد، عبادات، احکام، اخلاقیات، مغازی، سیر اور تفسیر کے ضروری ابواب سب موجود ہوں۔ اس کا اصل معنی یہی ہے مگر عصری ماحول اور تقاضوں کے مطابق میں اس کا ایک اور مفہوم آپ حضرات کے ذہنوں میں ڈالنا چاہتا ہوں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسانی سوسائٹی کو درپیش کم و بیش تمام مسائل کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے اور یہ کتاب سماج کی تمام ضروریات کی جامع ہے۔
بات سمجھانے کے لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ بخاری شریف کی دونوں جلدوں کی فہرست دیکھ لیں اور انسانی سوسائٹی کو آج کے دور میں درپیش مسائل کی ایک فہرست بنا کر اس سے تقابل کر لیں تو شاید ہی انسانی سوسائٹی کا کوئی ایسا مسئلہ ہو جو رہ گیا ہو اور امام بخاری نے اس کے بارے میں قرآن و حدیث سے کوئی نہ کوئی راہنمائی پیش نہ کی ہو۔ بخاری شریف کی جامعیت کا یہ پہلو آج کے دور میں پیشِ نظر رکھنا اور اس کے مطابق اسے انسانی سماج کے راہنما کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے اور اسے آپ کو مستقل طور پر سامنے رکھنا چاہیے۔دوسری گزارش یہ ہے کہ امام بخاری نے الجامع الصحیح کا آغاز ’’کتاب الایمان‘‘ سے کیا ہے اور ‘‘کتاب التوحید‘‘ پر اسے مکمل کیا ہے۔ دونوں کا تعلق ایمان و عقیدہ سے ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کتاب الایمان میں عقائد کا مثبت طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ کن کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے، جبکہ کتاب التوحید میں غلط عقائد اور عقائد کی غلط تعبیرات کا رد کیا گیا ہے۔ یہ پہلو بھی آج کے دور میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے کہ آج کا عالمی فلسفہ مسلمانوں سے پورے اصرار کے ساتھ یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ ایمان و عقیدہ میں صرف مثبت بات کا ذکر کیا جائے اور منفی طور پر کوئی بات نہ کہی جائے۔ یعنی مسلمان صرف اپنے مذہب کی خوبیاں اور اس کا حق ہونا بیان کریں لیکن دوسرے مذہب کی کمزوریوں اور ان کے غلط ہونے کا تذکرہ نہ کریں۔ کیونکہ یہ ان کے خیال میں منفی بات ہے جس کا مذہب کے حوالہ سے ذکر نہیں ہونا چاہیے۔
یہ اسی طرز کا مطالبہ ہے جیسا قریش مکہ کے سرداروں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کی صفات اور کمالات بیان کریں مگر ہمارے خداؤں کی نفی نہ کریں اور ان کے بارے میں کوئی منفی تبصرہ نہ کریں۔ آج بھی ہم سے وہی مطالبہ ہے جس کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ ہمارا تو بنیادی کلمہ ہی نفی (لا اِلٰہ) سے شروع ہوتا ہے اور ایمان و عقیدہ نفی اور اثبات دونوں سے تشکیل پاتا ہے۔ ہم کلمہ طیبہ میں باقی سب کی نفی کر کے ایک اللہ کی بات کرتے ہیں۔ اس لیے ہم سے یہ تقاضا ہمارے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے کہ کسی کی نفی نہ کریں اور صرف مثبت بات کریں۔ امام بخاری نے بخاری شریف کا آغاز اور اختتام دونوں عقائد کے حوالہ سے کیا ہے اور مثبت عقائد کے ساتھ ساتھ منفی عقیدوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ صحیح عقائد کے اقرار کے ساتھ غلط عقائد اور عقائد کی غلط تعبیرات کی نفی بھی ضروری ہے اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
تیسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امام بخاری کا طرز استدلال اور دائرہ استدلال بھی آج کے دور میں بہت زیادہ توجہ طلب ہے۔ وہ کسی بھی شعبہ اور دائرہ میں کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں تو اس کی دلیل کے طور پر قرآن کریم، حدیث و سنت، اور آثارِ صحابہ و تابعین کے تینوں دائروں سے دلیل لاتے ہیں۔ یہی اہل سنت کا دائرہ استدلال ہے۔ جبکہ آج کے دور میں یہ کہا جا رہا ہے کہ دلیل صرف قرآن کریم سے لائی جائے باقی امور شرعی دلیل کا مدار نہیں ہیں، جو قطعی طور پر غلط بات اور اہل سنت کے مسلّمات کے منافی ہے۔ آپ حضرات نے بخاری شریف اول سے آخر تک پڑھی ہے اور پوری بخاری شریف میں یہ دیکھا ہے کہ کسی تفریق کے بغیر امام بخاری شریعت کے ہر مسئلہ میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث و سنت اور آثار صحابہ و تابعین کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ہمیں اس گمراہی کا مسلسل سامنا ہے جو بڑھتا جا رہا ہے کہ شریعت کا مدار صرف قرآن کریم پر ہے ،چنانچہ کسی بے علم شخص کے سامنے کوئی شرعی مسئلہ بیان کیا جائے تو وہ فورا سوال کر دے گا کہ کیا یہ قرآن کریم میں ہے؟ اس صورتحال میں امام بخاری کے طرز استدلال اور دائرہ استدلال دونوں کو اہتمام کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ آخری باب کا تذکرہ کروں گا جس کی قرات کی گئی ہے کہ امام بخاری نے اس میں اس غلط عقیدہ کا رد کیا ہے کہ قیامت کے دن اعمال اور اقوال کا وزن نہیں ہو گا۔ اس انکار کی اصل وجہ یہ تھی کہ قول اور عمل کا وزن کرنا قدیم زمانے میں مشاہدات اور محسوسات کے دائرے کی چیز نہیں تھی، اس لیے اسے خلافِ عقل قرار دے دیا گیا۔ مگر محسوسات و مشاہدات کا دائرہ کبھی ایک جیسا نہیں رہا، قول اور عمل پرانے دور میں تولنے اور وزن کرنے کی چیزیں نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بات اور عمل دونوں ریکارڈ میں محفوظ ہوتے ہیں اور ان کی مقدار اور وزن بھی معلوم ہو جاتا ہے، اس لیے اس بنیاد پر انکار کا کوئی جواز نہیں ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے ان سب باتوں سے قطع نظر آخری باب میں یہ کہا ہے کہ قول اور عمل دونوں کا قیامت کے دن وزن ہو گا۔ اور ایک دلیل حسب معمول قرآن کریم سے لائے ہیں کہ ’’ونضع الموازین‘‘ اور دوسری دلیل حدیث سے پیش کی ہے کہ ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ دو کلمے ہیں جو ترازو پر وزنی ثابت ہوں گے۔ جبکہ ایک لفظ کی وضاحت تابعی بزرگ حضرت مجاہدکی زبان سے کی ہے۔ اس لیے اہل سنت کے اس دائرہ استدلال کا بھی امام بخاری نے پورا اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔