... loading ...
منصور جعفر
۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینیوں نے روز اول سے ہی اپنی سرزمین پر اسرائیلی تسلط کو قبول نہیں کیا۔ نہتے ہونے کے باوجود انہوں نے غلیلوں، پتھروں اور بعد ازاں مقامی ساختہ ہتھیاروں کے ذریعے صہیونی مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انتفاضہ نامی فلسطینی ’تحریک جہاد‘ نے دنیا کے جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوج کو ناکوں چنے چبوائے، جس پر آج بھی دنیا دنگ ہے۔اسرائیل نے ظلم کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انتفاضہ کے ہراول دستے میں شامل جوانوں، بزرگوں اور حتیٰ کہ خواتین اور بچوں کو بھی نہ بخشا۔ صہیونی جنگی مشین کی اگلتی آگ میں فلسطینیوں کے لاشے جلتے دیکھ کر انسان دشمن اسرائیلی قائدین کی تسلی نہیں ہوئی۔انہوں نے اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر نوجوانوں کی بڑی تعداد کو نام نہاد فلسطینی نمائندوں کی ریشہ دوانیوں اور سکیورٹی تعاون کی ’برکت‘ سے آزادی کے جذبے کو صہیونی زندانوں میں قید کرنے کی کوشش کی، لیکن ندرت فکر کے حامل ہزاروں فلسطینی اسیروس کا جذبہ حریت اسرائیلی زندانوں کے لیے آج بھی کھلا چینلج بنا ہوا ہے۔
دلیرانہ فلسطینی جدوجہد کی پاداش میں اسرائیلی زندانوں میں لمبی مدت کی قید کاٹنے والے فلسطینیوں کے جیل سے فرار ہونے کے واقعات اور دوران اسیری تخلیق کیے جانے والے شہ پارے عرب مزاحمتی ادب کے باب میں قابل قدر اضافہ ہیں۔دنیا کو سافٹ امیج کا درس دینے والوں کو فلسطینی اسیران کا یہ پہلو تو دکھائی نہیں دیا، تاہم دوران قید ان کے والد بننے کی خواہش کو پردہ سیمیں پر منفی انداز میں پیش کرنے کا ’اعزاز‘ اردن اور مصر کی مشترکہ پیش کش فیملی ڈراما فلم ’امیرہ‘ کے مصری ہدایت کار محمد دیاب کے حصے میں آیا۔ فلم کی عکس بندی 2019 میں اردن میں ہوئی اور اس میں مصری اور اردنی اداکاروں نے ’فن‘ کے جوہر دکھائے۔
مذکورہ فلم کا پلاٹ من گھرٹ کینہ پرور منظر نامے کے گرد گھومتا ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کی ندرت فکر سے عبارت قابل قدر جدوجہد کے بارے میں شکوک پیدا کرنا ہے، جس میں فلسطینی اسیران اسرائیلی قید کے دوران اپنا تولیدی مواد (اسپرم) اسرائیل کے تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے کامیابی سے جیل سے باہر اپنی بیگمات کے رحم تک ا سمگل کرتے ہیں۔فیملی ڈرامہ فلم ’امیرہ‘ (تارہ عبود) ایک 17 سالہ فلسطینی لڑکی کی کہانی ہے، جو مصنوعی تخم ریزی کے نتیجے میں اس دنیا میں آئیں کیونکہ ان کے والد نوار (علی سلیمان) اسرائیلی جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔امیرہ کے اسیر والد نے جیل سے اپنا مادہ تولید (نطفہ) ایک پیچیدہ عمل کے بعد اپنی بیوی وردہ (صبا مبارک) تک پہنچایا جسے منصوعی تخم ریزی کے حساس طبی عمل کے ذریعے وردہ کے رحم میں داخل کیا گیا اور جس کے نتیجے میں امیرہ پیدا ہوئی۔امیرہ کو اسرائیلی تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کی پاداش میں قید کاٹنے والے اپنے والد پر فخر ہے۔ وہ کئی مرتبہ اپنی والدہ کے ہمراہ جیل میں قید باپ سے ملنے گئیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں امیرہ کے اسیر والد نے اپنی بیگم سے کہا: ’کیوں نہ وہ ایک مرتبہ پھر اپناا سپرم جیل سے باہر اسمگل کریں تاکہ ان کی کوکھ ایک مرتبہ پھر ہری ہو اور وہ دونوں ایک اور بچے کے والدین بن جائیں،‘ وردہ نے پہلے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، لیکن بعد میں مصنوعی تخم ریزی کے لیے ہامی بھر لی۔
امیرہ کے والد نے اپنی بیوی کی کوکھ ہری کرنے کے لیے دوسری مرتبہ اپنا سپرم سمگلنگ کے ذریعے جیل سے باہر بھجوایا تو ان کے تولیدی مواد کی کیمیائی جانچ کرنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم نے انکشاف کیا کہ موصولہ مادہ منویہ میں باپ بننے کے جراثیم موجود نہیں اور اس نوعیت کے نطفے کے حامل افراد کبھی باپ نہیں بن سکتے۔ڈاکٹروں کا یہ انکشاف امیرہ اور ان کے ددھیال پر بم بن کر گرا۔ سب نے امیرہ کی ماں وردہ کے کردار پر انگلی اٹھانا شروع کر دی۔ پورے خاندان میں امیرہ کے متوقع ’جینیاتی والد‘ کی تلاش شروع ہو گئی، لیکن ان کا سراغ نہ ملا۔ وردہ کو اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتا محسوس ہوا تو انہوں نے اپنی اور بیٹی کی جان بچانے کے لیے اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’امیرہ دراصل اسیر شوہر کے ایک دوست کے ساتھ ان کے ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے۔‘
نوار کا وہ دوست، بقول امیرہ کی ماں، جیل سے رہائی کے وقت ان کے شوہر کا ایک خط دینے گھر آیا تھا۔ وردہ کو اپنے اس اعترافی بیان کی قیمت کا اندازہ تھا اور وہ اس کے لیے شعوری طور پر تیار ہو چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ خاندان کا غیظ وغضب اپنی آخری حدوں کو چھوتا، فلم کے مناظر میں وردہ کے رحم میں مصنوعی تخم ریزی کے عمل کی نگرانی کرنے والا ڈاکٹر اچانک سامنے آکر تصدیق کرتا ہے کہ وردہ کا حمل جیل سے ا سمگل کر کے لائے جانے والے مادہ منویہ کے نتیجے میں ہی ٹھہرا تھا۔
فلسطینی دوشیزہ امیرہ اپنے بائیولاجیکل والد کی تلاش میں ہلکان ہوتی رہیں، حتی کہ ان پر یہ عقدہ کھلا کہ اسرائیلی جیل سے ان کے والد کے مادہ منویہ کو باہر سمگل کرنے والے جیلر نے ان کے والد کے نطفے کو اپنے مادہ منویہ سے تبدیل کر دیا تھا۔ یہ حقیقت جان کر امیرہ کی زندگی میں بھونچال آ گیا۔ ان کے لیے سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ وہ خود کو بیک وقت ظالم اور مظلوم کی بیٹی سمجھنے لگیں۔ وہ خود کو قاتل اور مقتول سمجھنے لگیں۔ امیرہ خود کو چور اور مال مسروقہ سمجھنے لگیں۔ ان کی ماں فلسطین اور باپ قابض اسرائیل تھا۔ انہیں اب اپنی اسی شناخت کے ساتھ نہ صرف زندگی گزارنا تھی، بلکہ اس کا دفاع بھی کرنا تھا۔امیرہ اس کرب کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ انہوں نے اپنی ماں کو اس بات پر قائل کیا کہ اب انہیں فلسطین سے نکل جانا چاہیے۔ امیرہ نامی فلم دنیا کو یہی پیغام دینا چاہتی تھی کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکل جانا چاہیے کیونکہ وہ سرزمین یہودیوں کی ملکیت ہے جس کی نمائندگی اسرائیلی فوجی کا مادہ تولید کرتا ہے۔
غلط اور بے بنیاد مفروضے کی روشنی میں بننے والی امیرہ نامی فلم کو اسیران اور رہائی پانے والے اسیران امور کے کمیشن، فلسطینی اسیران کے مقدمات کی پیروی کرنے والی ہائر کمیٹی اور فسلطینی اسیران کے کلب نے مشترکہ طور پر مسترد کیا ہے۔اسیران کی انجمنوں کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے مادہ منویہ کو ان کی بیگمات کے رحم تک پہنچانے کے میکنزم میں کسی بھی مرحلے پر مادہ منویہ کی رد وبدل کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ فلسطینی قیدی سے اس کا تولیدی مواد دست بدست قیدی کی بیگم اور ان کے اہل خانہ تک پہنچایا جاتا ہے۔ پورے عمل میں گواہان اور دستاویزی ریکارڈ کی موجودگی میں معمولی سی غلطی کا امکان بھی نہیں ہوتا۔فلسطینی اسیران کی بڑی اکثریت 30 سے 40 برس کی عمر کے شادی شدہ افراد پر مشتمل ہے۔ اسرائیل انہیں جیل میں حقوق زوجیت ادا کرنے کی سہولت نہیں دیتا جبکہ اسرائیلی قیدیوں کو ایسے فیملی وزٹ کی اجازت دی جاتی ہے۔
1990 میں سات فلسطینیوں کے قتل کے الزام میں اسرائیلی قیدی جیل کے اندر تین شادیاں رچا چکا ہے اور اس کے تین بچے ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں، جو قیدیوں کے ساتھ اسرائیل کے نسلی امتیاز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔عمر قید کاٹنے والے فلسطینی قیدی عمار الزبان اور ان کی اہلیہ دلال پہلا فلسطینی جوڑا تھا جو جیل سے تولیدی مواد کی سمگلنگ کے نتیجے میں 2012 میں والدین بنے۔ ایسے ہی سمگلنگ آپریشنز کے نتیجے میں اب تک کئی فلسطینی جوڑے والدین بن چکے ہیں۔ ان میں کئی جوڑوں کو اللہ نے جڑواں بچوں کی نعمت سے نوازا، مصنوعی تخم ریزی کے نتیجے میں اب تک 70 فلسطینی قیدیوں کے ہاں اولاد پیدا ہوئی ہے۔
فلسطینی اسیران کے جیل سے فرار کی کہانیاں اور اپنی رہائی کے لیے لمبی بھوک ہڑتالیں جدوجہد آزادی کا ایک روشن باب ہیں جسے عرب دنیا کا مزاحمتی ادب ایک مستقل باب سمجھتا ہے۔ فلسطینی اسیران کا اپنا تولیدی مواد جیل سے باہر بھجوانے کا کامیاب عمل دراصل صہیونی استعماری منصوبے کی موت ہے کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں میں ریکارڈ شرح پیدائش کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اوسلو معاہدے (1993) میں مقبوضہ بیت المقدس کے مستقبل، اسیران کے ایشو اور فلسطینیوں کے وطن واپسی کے حق کو آخری مرحلے کے مذاکرات تک مؤخر کرکے لاکھوں فلسطینیوں کو اسرائیل کے لیے آبادیاتی چیلنج بننے سے روکا گیا۔
’امیرہ‘ فلم اسرائیلی جیلوں سے تولیدی مواد کی سمگلنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سینکڑوں بچوں کا سلسلہ نسب مشکوک بنانے کی نراسی اور حقیر کوشش ہے۔ فلسطینی ان بچوں کو فخریہ انداز میں ’آزادی کے سفیر‘ قرار دیتے ہیں۔اس میں فلسطینی معاشرے کو کمزور دکھایا گیا ہے، جو تشدد میں پروان چڑھتا ہے۔ فلسطینیوں کو نسل پرست اور کم حوصلہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سمگل شدہ مادہ منویہ کی کوشش کو بنیاد بنا کر اس مشکوک فلم کے ذریعے فلسطینیوں کی مبنی بر حق جدوجہد پر وار کیا گیا ہے۔ امیرہ فلم سے درورغ گوئی، بغض، سازش اور تحریف کی بو آتی ہے۔
’امیرہ‘ کی گذشتہ برس اطالیہ، تونس اور مصر میں ہونے والے فلمی میلوں میں نمائش ہو چکی ہے، جہاں تعریف کے ڈونگرے برساتے ہوئے بعض اسرائیل نواز ناقدین نے اس پر کئی انعام بھی نچھاور کیے۔ تاہم اردن نے جب ’امیرہ‘ کو 94 ویں اکیڈیمی ایوارڈ میں بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو فلم کے خلاف ہونے والی مخالفانہ سرگرمیوں کی لے تیز ہو گئی۔سوشل میڈیا پر فلم کے خلاف ہیش ٹیگ اور ٹرینڈز بننے لگے تو اردن کے شاہی فلم کمیشن نے رواں برس مارچ میں ہونے والے آسکر فلم ایوارڈ کے لیے ’امیرہ‘ کی نامزدگی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، جس پر عمان کی حکومت مبارک باد کی مستحق ہے، تاہم فلم سے فلسطینی کاز کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اردن حکومت کو اس سے بڑھ کر عملی اقدام کرنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔