... loading ...
عالمی امور پر نظر رکھنے والے مخصوس سوچ رکھنے والے ماہرین کے مطابق روس جلد ہی یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے لیکن ایسا ہونہیں سکتا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ تویہ ہے کہ روس اوریوکرائن کا دفاعی موازنہ کرنا ہی بچگانہ حرکت ہے لیکن کچھ ممالک کشیدگی بڑھانے میں مصروف ہیں امریکانے بالٹک ریاستوں سے میزائل سسٹم یوکرائن منتقل کردیا ہے برطانیانے یوکرائن کو ٹینک شکن گائڈدمیزائل فراہم کیے ہیں فوجی ماہرین کہتے ہیں کہ اِن ٹینک شکن گائڈڈ میزائلوں سے روسی ٹینکوں کوشہروں میں داخل ہونے سے روکا جا سکتاہے مگر کیا حکومتوں کاکام صرف شہروں کا دفاع ہے؟ اِ کے جواب میں ہاں نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر روسی ٹینکوں کا شہروں میں داخلہ روک ہی لیا جاتا ہے تو یہی ٹینک باقی سارے ملک کوروندکررکھ دیںگے ویسے کافی ماہرین اِس خیال سے متفق ہیں کہ روسی قیادت جنگ کی بجائے دبائو ڈال کر مطالبات منوانے کے چکرمیں ہے البتہ جنگی تیاریوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محدود پیمانے پر جھڑپوں کے امکان کو کُلی طور پررَد نہیں کرسکتے یوکرائن میں جاپان کے سفیر نے بھی حالات کے پیشِ نظر علاقائی جھڑپوں کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
یوکرائن پر منڈلاتی جنگ کی وجوہات میں ایک یہ ہے کہ روس کے انہدام کے موقع پر صدر گوربا چوف کو امریکی وزیرِ خارجہ جم بیکراور جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے ضمانت دی تھی کہ نیٹو عسکری اتحاد کو روس کی جانب توسیع نہیں دی جائے گی مگر جلد ہی ہنگری،شمالی مقدونیہ،چیک ری پبلک ،پولینڈ،رومانیہ،بلغاریہ،کروشیا سمیت مشرقی پورپ کے متعدد ممالک کو نیٹو کا حصہ بنا یا گیا تو خراب معاشی حالت کی بنا پر روس کا خاموش رہنا مجبوری تھی البتہ سفارتی زرائع سے وعدوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی لیکن امریکا سمیت مغربی ممالک نے کوئی توجہ نہ دی اب بھی روسی موقف یہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک یقین دہانی کرائیں اول یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا دوم یوکرائن میں ایٹمی ہتھیار نصب نہیں کیے جائیں گے لیکن امریکا یقین دہانی کرانے سے پہلو تہی کرتے ہوئے کشیدگی بڑھانے کی کوششوں میں ہے تاکہ خطے میںجنگ ہو امریکہ بیس برس کی افغان جنگ سے خود تھک چکا اور چاہتا ہے کہ دیگر ممالک کو الجھا کر اُن کی معیشت بھی تباہ کی جائے مگر کچھ ممالک کو لڑاتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ ہاتھی اور میمنے کی لڑائی برابرنہیں ہو سکتی روس کو یوکرائن اور تائیوان کو چین کے مدِمقابل لا ناہاتھی کو میمنے سے لڑانے جیسی ہی حماقت ہے ۔
روسی فوج کشی رکوانے کے لیے عالمی سطح پر سفارتکاری جاری ہے لیکن امریکہ امن کے مواقع ختم کرنا چاہتا ہے اسی لیے جدید ترین اسٹیلتھ جنگی طیارے ایف 35 فن لینڈ جیسے چھوٹے ملک کو فراہم کرنے لگاہے یہ ایسے لڑاکا طیارے ہیں جن کی ریڈار سے نشاندہی نہیں ہو سکتی دفاعی اِدارے پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ 8500فوجیوں کو ہائی الرٹ کا حکم دیتے ہوئے اُنھیں کسی بھی وقت یوکرائن بھیج سکتے ہیں امریکا اور نیٹو عسکری اتحاد نے بحیرہ روم میںچوبیس جنوری سے مشقیں بھی شروع کر دی ہیں روس کے خلاف سینکڑوں ٹن وزنی ہتھیاروں پر مشتمل تین کھیپ یوکرائینی دارالحکومت کیف پہنچادی ہیں ڈنمارک نے بحری بیڑہ اور جنگی جہاز بحرہ بالٹک بھیجنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ روس نے مغربی ممالک کے پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوکرائن پر حملے کی طرف نہیں جا رہا مگر امریکی اشتعال انگیزی مسلسل جاری ہے ۔
یوکرائن سوویت یونین کی سابق ریاست رہا ہے جس کے کئی علاقوں میں روس نوازکافی طاقتور ہیں اسی لیے برطانیا الزام عائد کرتا ہے کہ روس اپنی سابق ریاست میں ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جو ماسکو کی حامی ہوماسکو کی طرف سے اِ س الزام کی ہمیشہ تردید کی گئی یوکرائن کے ایسے علاقے جو روسی سرحد سے ملحق ہیں اور وہاں روسی النسل آبادی کی اکثریت ہے روس کے ساتھ انضمام کا امکان ہے جنگ کی صورت میںیہ علاقے یوکرائن سے الگ ہونے یا خود مختاری کا اعلان کر سکتے ہیں جن کی حفاظت کے لیے روس کو فوج بھیج سکتا ہے لیکن فوری طورپر ایسا امکان نہیں ۔
روس نے ایک لاکھ سے زائد نہ صرف فوج یوکرائینی سرحد پر تعینات کردی ہے بلکہ سرحد پر ایندھن کے ڈپو اور ہسپتال قائم کر تے ہوئے ریزروفوجی بھی واپس طلب کر لیے ہیں شمالی کوریا سے فوجیوں کو ہٹاکرمغربی سرحد پر تعینات کر دیا ہے ماسکو نے اپنے اتحادی بیلا روس میں بھی ایک بٹالین فوج بھیج دی ہے جس سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی سابق ریاست کو دبوچنا چاہتا ہے دو اطراف سے حملہ ہونے کی صورت میں یوکرائن کے لیے اپنا دفاع نا ممکن ہوجائے گا مگر جنگ کی گردش کرتی افواہوں کے باوجود روسی میڈیا مکمل طورپر خاموش ہے اسی بناپر جنگ کے امکانات کی نفی کی جا سکتی ہے ۔
یہ درست ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک روس کے خلاف ہیں مگر جنگ بڑھکانے کی کوششوںمیں عالمی تائید حاصل نہیں کر سکے بھارت جیسا اتحادی بھی امریکی ناپسندیدگی کے باوجود روس سے ائرڈیفنس حاصل کرنے کی بناپر یوکرائن کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں مخمصے کا شکارہے اور کسی ایک فریق کاساتھ دینے سے گریز اںہے حال ہی میں امریکی اخباروال ا سٹریٹ جنرل نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ بدلتے حالات کی وجہ سے ترکی کو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کا بیڑہ فروخت کرنے پر آمادہ ہے حالانکہ لڑاکا طیاروں کی فروخت کایہ معاہدہ 1999میں طے پایالیکن عمل کی نوبت نہ آئی روس یوکرائن کشیدگی کے ایام میں اب معاہدہ پھر یاد آیا ہے تاکہ روس سے ایس 400میزائل نظام خریدنے سے پیداہونے والا تنائو اورطیب اردگان اور ولادیمیرپوٹن کے قریبی تعلقات کم ہوںمگر انقرہ اور واشنگٹن کے دفاعی تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے سردمہری کا شکار ہیں حالیہ نوازشات کے باوجود روس کے خلاف ترکی امریکا کا طرفدارہوبہت مشکل ہے کیونکہ فتح اللہ گولن کو امریکاملک بدر کرنے اور ترکی کے حوالے کر نے سے انکار ی ہے اسی لیے نیٹوممبر ترکی نے امریکی ناپسندیدگی کے باوجود روس سے جدید ترین ائرڈیفنس سسٹم ایس 400حاصل کیااسی لیے ترکی اور بھارت کاکسی تنازع کی صورت میں روس کے مخالف کسی اتحاد کاہمرکاب ہونابہت مشکل ہے۔
یوکرائن معاملے پر امریکا کاموقف بہت سخت موقف ہے ممکن ہے لیکن یہ مت بھولے کہ روس کو امریکی معاشی پابندیوں کی اب کوئی خاص پرواہ نہیںکیونکہ چین جیسی ابھرتی معاشی قوت کے پاس دفاعی قوت کے ساتھ سرمایہ کاری کا ہتھیار ہے اسی لیے ممکنہ معاشی اور تجارتی پابندیوں سے روس کم جبکہ تیل اور گیس کے لیے روس پر انحصار کرنے والے یورپی ممالک ہی ذیادہ متاثر ہو ں گے امریکا نے یوکرائن پر حملے کی صورت میں گیس پائپ لائن اُڑانے کی دھمکی دی ہے۔
بیجنگ اور ماسکو کی بے خوفی سے پیش قدمی کرتی شراکت داری سے امریکی بالادستی کا خاتمہ ہونے کا امکان ہے اسی لیے ہاتھی سے میمنے کولڑانے جیسی حماقت کی جا رہی ہیں مگر کشیدگی بڑھانے کی کوششوں پر حیران اورپریشان امن پسندوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ روس اور یوکرائن نے پیرس میں ہونے والے طویل براہ راست مذاکرات کے دوران مشرقی علاقے میں جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے مزاکرات کامزیدخوش آئند پہلو یہ ہے کہ امریکہ کی بجائے روس اور یوکرائن کے ساتھ جرمنی اور فرانس کے مشیران بات چیت میں شامل ہوئے ایس یوفائٹر جیٹس سمیت ایس 400 ائر ڈیفنس سسٹم روانہ کرنے کے باوجوداب گرکوئی انہونی نہیں ہوتی توآئندہ دو ہفتوں میں جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والی ایک اورملاقات سے جنگ بندی اور کشیدگی میں مستقل کمی لانے کے حوالے سے مزید اچھی خبریں آسکتی ہیں جس کے بعد ہاتھی اور میمنے کی لڑائی کے خواہشمندکی کشیدگی بڑھانے کی کوششیں مکمل ناکامی سے دوچار اور جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔