... loading ...
پچیس جنوری 2022کوپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 23مارچ کو اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جائے گاجبکہ اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ اس اجلاس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی ایک خیال یہ تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پہلے مرحلے میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی اور اس کے فوری بعد وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا خود پی ڈی ایم کے رہنما اندرون خانہ اس بات کا اظہار کرتے ہیںکہ وزیراعظم کو ہٹانے کا واحد آئینی طریقہ کار عدم اعتماد کی تحریک ہی ہے اور پنجاب کے وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ممکن نہ ہگا کیونکہ تحریک کی کامیابی کے بعد اگر مرکز میں وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) ،جے یوآئی یا پیپلز پارٹی سے ہوگا تو اس کا دائرہ اختیار اسلام آباد تک ہی محدود رہے گا پنجاب اور پختون خواہ کے معاملات میں وہ بے بس ہوگا اور سرکاری سطح پر بھی ان دونوں صوبوں میں اسے سرد مہری کا سامنا کرنا پڑے گاحیرت انگیز بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ کہا گیا کہ اس بات کہ ٹھوس اشارے نہیں ملے کہ تحریک کامیاب ہوگی لہٰذااس وقت تحریک عدم اعتماد فوری طور پر ممکن نہیں ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی لانگ مارچ میں شرکت کرنا چاہے گی تو اسے اجازت دی جائے گی یہ بھی انتہائی معنی خیز بات تھی پی پی سے معاملات کی بہتری کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ پیپلز پارٹی کو مارچ میں شریک ہونے کے لیے باضابطہ دعوت دی جائے گی موجودہ حالات میں اجازت دینے کے الفاظ نا مناسب تھے پیپلز پارٹی کے مطابق پی ڈی ایم کا اتحاد پیپلز پارٹی کی کاوش کا نتیجہ تھااور سیاسی اتحاد میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں ہر سیاسی جماعت کے پاس ویٹو ہوتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر پانچ چھوٹی جماعتیں یہ ٖفیصلہ کرلیں کہ پی ڈی ایم سے مسلم لیگ (ن)اور جے یو آئی کو نکال دیا گیا ہے ایسی کسی صورت میںپی ڈی ایم کی حیثیت کچھ بھی نہ ہوگی سیاسی اتحاد چھوٹی بڑی جماعتوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں بعض اوقات ایسی جماعتیں بھی ہوتی ہیں جو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں رکھتی ہیں اس لیے سیاسی اتحاد میں سب کے ووٹ برابر نہیں ہوتے فیصلوں میں اتفاق رائے کا طریق کار ہوتا ہے یہ ممکن نہیں کی ایک ایک نشست رکھنے والی جماعت اور سو نشست رکھنے والی جماعت کا ووٹ برابر ہو پیپلز پارٹی نے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا اور اس اتحاد میں پیپلز پارٹی پر بلواسطہ طور پر سندھ حکومت کے خاتمے کے لیے دبائو بنایا گیا اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے کئی معاملات پر پی ڈی ایم کی اندرونی کہانی پر خاموشی اختیار کی اور مولانا فضل الرحمان کی سیاسی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچایا نہ ہی مسلم لیگ سے مراسم خراب کیے لیکن پیپلز پارٹی کے خلاف بالواسطہ طور کیچڑ اچھالا جاتا رہا اور اس سلسلے میں وہ لوگ اس میں پیش پیش تھے جو مولانا فضل الرحمان سے طویل ملاقاتیں کرکے سوشل میڈیا پر اپنا تجزیہ پیش کرتے تھے عموماً اس تجزیے میں پی ڈی ایم کا موقف ہوتاتھا اب جب پی ڈی ایم نے خود اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ عدم اعتماد کے لیے ٹھوس اشارے نہیں ملے ہیں دوسرے الفاظ میںجب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو اشارہ ملے گا اسی وقت وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرے گی ۔
پی ڈی ایم پیپلزپارٹی سے معاملات طے کرنے میں ناکام ہے اس قسم کا کوئی اتحاد بھی اس صورت میں ممکن ہوگا جب مسلم لیگ اور پیپلز پارتی کو اتحادکرنے کا اشارہ ملے گا پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ موجودہ حکومت کا قیام بھی اشاروں اور پس پردہ قوتوں کی سرپرستی کی وجہ سے عمل میں آیا تھاوزیر اعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں اپنی پارلیمانی قوت میں اضافہ نہ کرسکے سیاسی محاذآرائی بھی ان کے حق میں نہ گئی وہ ملک میں بدعنوانی کو روکنے میں ناکام رہے نوکر شاہی ا ور عدلیہ کے نظام میں کوئی اصلاح نہ ہو سکی جن سیاستدانوں پر بدعنوانی کا الزام لگا ان پر الزامات ثابت کرنے میں کامیابی نہ ملی پی ٹی آئی کی پہلے سے کمزور تنظیم مزید کمزور ہوگئی پی ٹی آئی کے کارکنون اور عوام سے وزیراعظم عمران خان کا رابطہ قائم نہ رہاکارکن سرگرم عمل نہ رہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس کی پرواہ نہیں یا ان کے اطراف میں ایسی دیوار کھڑی کردی گئی ہے کہ وہ نیچے دیکھ ہی نہیں سکتے کہ ان کے کارکنوں کا کیا حال ہے ایک غیر منظم جماعت میںکارکنوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتاپس پردہ قوتوں کی سرپرستی بھی اس طرح کی تباہی کو روک نہیں سکتی یا پھر یہ بھی ایک مخصوص اشارے کا حصہ ہے کہ ہر کردار کو بھی محدود کیا جائے ایسا محسوس ہوتا ہے ملکی سیاست اور تمام اہم سیاست دان اشاروں کے منتظر ہیں اور عہدوں کے حصول کے لیے کوشاں ہیں پاکستان کا یہ اندرونی انتشار مزیدمسائل کو جنم دے گا پاکستان کے اطراف میں حالات پہلے سے کشیدہ ہیں جس میں افغانستان کے حالات سر فہرست ہیں افغانستان عدم استحکام اور خانہ جنگی کی راہ پرہے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے اثرات سے پاکستان متاثر ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات خراب ہیں امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کے اثرات سے بھی یہ خطہ محفوظ نہیں ہے پاکستان حالت جنگ میں ہے یہ با قائدہ جنگ نہیں ہے لیکن ایک خفیہ جنگ ضرور ہے روس ،امریکا اور چین کے درمیان دنیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہم آہنگی نہیں ہوئی اور موجودہ کشیدگی برقرار رہی تو پوری دنیا ایک غیر یقینی کیفیت میں رہے گی اس کے اثرات بھی پاکستان پر ہورہے ہیں دوسری جانب پاکستان کو اندرونی سیاسی انتشار کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی ،شہروں کے بے ہنگم پھیلائو، دیہی علاقوں میں ضوریات زندگی اور جدید سہولیات کی کمی ، زرعی اراضی میں کمی ،بے روزگاری،غربت ،بدعنوانی،ماحولیاتی آلودگی اور ناقص ھکمرانی کے مسائل کا سامناہے دوسری جانب ان مسائل کے حل کے لیے کسی معیاری اور دیرپا منصوبے کے لیے سیاسی جاعتوں کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے نہ ہی آپس میں ہم آہنگی ہے وہ صرف عہدوں کے حصول کے لیے اشاروں کے نہ صرف منتظر ہیں بلکہ اب وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں اس سارے کھیل سے عوام باہر ہیں ان کے پاس کوئی اختیار نہیںہے نہ ملک میں ٹریڈیونین ہے نہ ہی طلبہ یونین ہے جو کسی حد تک عوام کی آواز بننے میں کردار اداکرتی تھیںاور کسی بھی عوامی تحریک کا ہراول دستہ ہوتی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔