وجود

... loading ...

وجود

اشاروں کے منتظر پاکستانی سیاستدان

جمعه 28 جنوری 2022 اشاروں کے منتظر پاکستانی سیاستدان

پچیس جنوری 2022کوپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 23مارچ کو اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جائے گاجبکہ اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ اس اجلاس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی ایک خیال یہ تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پہلے مرحلے میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی اور اس کے فوری بعد وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا خود پی ڈی ایم کے رہنما اندرون خانہ اس بات کا اظہار کرتے ہیںکہ وزیراعظم کو ہٹانے کا واحد آئینی طریقہ کار عدم اعتماد کی تحریک ہی ہے اور پنجاب کے وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ممکن نہ ہگا کیونکہ تحریک کی کامیابی کے بعد اگر مرکز میں وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) ،جے یوآئی یا پیپلز پارٹی سے ہوگا تو اس کا دائرہ اختیار اسلام آباد تک ہی محدود رہے گا پنجاب اور پختون خواہ کے معاملات میں وہ بے بس ہوگا اور سرکاری سطح پر بھی ان دونوں صوبوں میں اسے سرد مہری کا سامنا کرنا پڑے گاحیرت انگیز بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ کہا گیا کہ اس بات کہ ٹھوس اشارے نہیں ملے کہ تحریک کامیاب ہوگی لہٰذااس وقت تحریک عدم اعتماد فوری طور پر ممکن نہیں ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی لانگ مارچ میں شرکت کرنا چاہے گی تو اسے اجازت دی جائے گی یہ بھی انتہائی معنی خیز بات تھی پی پی سے معاملات کی بہتری کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ پیپلز پارٹی کو مارچ میں شریک ہونے کے لیے باضابطہ دعوت دی جائے گی موجودہ حالات میں اجازت دینے کے الفاظ نا مناسب تھے پیپلز پارٹی کے مطابق پی ڈی ایم کا اتحاد پیپلز پارٹی کی کاوش کا نتیجہ تھااور سیاسی اتحاد میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں ہر سیاسی جماعت کے پاس ویٹو ہوتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر پانچ چھوٹی جماعتیں یہ ٖفیصلہ کرلیں کہ پی ڈی ایم سے مسلم لیگ (ن)اور جے یو آئی کو نکال دیا گیا ہے ایسی کسی صورت میںپی ڈی ایم کی حیثیت کچھ بھی نہ ہوگی سیاسی اتحاد چھوٹی بڑی جماعتوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں بعض اوقات ایسی جماعتیں بھی ہوتی ہیں جو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں رکھتی ہیں اس لیے سیاسی اتحاد میں سب کے ووٹ برابر نہیں ہوتے فیصلوں میں اتفاق رائے کا طریق کار ہوتا ہے یہ ممکن نہیں کی ایک ایک نشست رکھنے والی جماعت اور سو نشست رکھنے والی جماعت کا ووٹ برابر ہو پیپلز پارٹی نے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا اور اس اتحاد میں پیپلز پارٹی پر بلواسطہ طور پر سندھ حکومت کے خاتمے کے لیے دبائو بنایا گیا اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے کئی معاملات پر پی ڈی ایم کی اندرونی کہانی پر خاموشی اختیار کی اور مولانا فضل الرحمان کی سیاسی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچایا نہ ہی مسلم لیگ سے مراسم خراب کیے لیکن پیپلز پارٹی کے خلاف بالواسطہ طور کیچڑ اچھالا جاتا رہا اور اس سلسلے میں وہ لوگ اس میں پیش پیش تھے جو مولانا فضل الرحمان سے طویل ملاقاتیں کرکے سوشل میڈیا پر اپنا تجزیہ پیش کرتے تھے عموماً اس تجزیے میں پی ڈی ایم کا موقف ہوتاتھا اب جب پی ڈی ایم نے خود اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ عدم اعتماد کے لیے ٹھوس اشارے نہیں ملے ہیں دوسرے الفاظ میںجب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو اشارہ ملے گا اسی وقت وہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرے گی ۔
پی ڈی ایم پیپلزپارٹی سے معاملات طے کرنے میں ناکام ہے اس قسم کا کوئی اتحاد بھی اس صورت میں ممکن ہوگا جب مسلم لیگ اور پیپلز پارتی کو اتحادکرنے کا اشارہ ملے گا پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ موجودہ حکومت کا قیام بھی اشاروں اور پس پردہ قوتوں کی سرپرستی کی وجہ سے عمل میں آیا تھاوزیر اعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں اپنی پارلیمانی قوت میں اضافہ نہ کرسکے سیاسی محاذآرائی بھی ان کے حق میں نہ گئی وہ ملک میں بدعنوانی کو روکنے میں ناکام رہے نوکر شاہی ا ور عدلیہ کے نظام میں کوئی اصلاح نہ ہو سکی جن سیاستدانوں پر بدعنوانی کا الزام لگا ان پر الزامات ثابت کرنے میں کامیابی نہ ملی پی ٹی آئی کی پہلے سے کمزور تنظیم مزید کمزور ہوگئی پی ٹی آئی کے کارکنون اور عوام سے وزیراعظم عمران خان کا رابطہ قائم نہ رہاکارکن سرگرم عمل نہ رہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس کی پرواہ نہیں یا ان کے اطراف میں ایسی دیوار کھڑی کردی گئی ہے کہ وہ نیچے دیکھ ہی نہیں سکتے کہ ان کے کارکنوں کا کیا حال ہے ایک غیر منظم جماعت میںکارکنوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتاپس پردہ قوتوں کی سرپرستی بھی اس طرح کی تباہی کو روک نہیں سکتی یا پھر یہ بھی ایک مخصوص اشارے کا حصہ ہے کہ ہر کردار کو بھی محدود کیا جائے ایسا محسوس ہوتا ہے ملکی سیاست اور تمام اہم سیاست دان اشاروں کے منتظر ہیں اور عہدوں کے حصول کے لیے کوشاں ہیں پاکستان کا یہ اندرونی انتشار مزیدمسائل کو جنم دے گا پاکستان کے اطراف میں حالات پہلے سے کشیدہ ہیں جس میں افغانستان کے حالات سر فہرست ہیں افغانستان عدم استحکام اور خانہ جنگی کی راہ پرہے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے اثرات سے پاکستان متاثر ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات خراب ہیں امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کے اثرات سے بھی یہ خطہ محفوظ نہیں ہے پاکستان حالت جنگ میں ہے یہ با قائدہ جنگ نہیں ہے لیکن ایک خفیہ جنگ ضرور ہے روس ،امریکا اور چین کے درمیان دنیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہم آہنگی نہیں ہوئی اور موجودہ کشیدگی برقرار رہی تو پوری دنیا ایک غیر یقینی کیفیت میں رہے گی اس کے اثرات بھی پاکستان پر ہورہے ہیں دوسری جانب پاکستان کو اندرونی سیاسی انتشار کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی ،شہروں کے بے ہنگم پھیلائو، دیہی علاقوں میں ضوریات زندگی اور جدید سہولیات کی کمی ، زرعی اراضی میں کمی ،بے روزگاری،غربت ،بدعنوانی،ماحولیاتی آلودگی اور ناقص ھکمرانی کے مسائل کا سامناہے دوسری جانب ان مسائل کے حل کے لیے کسی معیاری اور دیرپا منصوبے کے لیے سیاسی جاعتوں کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے نہ ہی آپس میں ہم آہنگی ہے وہ صرف عہدوں کے حصول کے لیے اشاروں کے نہ صرف منتظر ہیں بلکہ اب وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں اس سارے کھیل سے عوام باہر ہیں ان کے پاس کوئی اختیار نہیںہے نہ ملک میں ٹریڈیونین ہے نہ ہی طلبہ یونین ہے جو کسی حد تک عوام کی آواز بننے میں کردار اداکرتی تھیںاور کسی بھی عوامی تحریک کا ہراول دستہ ہوتی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر