... loading ...
دائروں کا سفر تنہائیوں اور خودکلامیوں پر ختم ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان تنہائیوں کے شکار ہوئے۔ آہ! بھیڑ کی تنہائیاں بھی کیا سفاک تنہائیاں ہیں۔ صحرا میں بگولے رقصاں رہتے ہیں۔ مگر وزیراعظم کا سیاسی صحرا سمٹا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی حالت دھیان میں رہے تو شاعر کا خیال دامن چھوتا ہے!
بگولے بام و در سے پوچھتے ہیں
ہمارے رقص کا صحرا کہاں ہے
وزیراعظم نے پوچھا نہیں، انتباہ فرمایا:حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوں گا”۔ اُس شخص سے واقعی ڈرنا چاہئے جو اپنے ہونے کا جواز اپنے بگاڑ سے لاتا ہو۔ دیوار گرانا نہیں ، دیوار اُٹھانا کام ہوتا ہے۔ تخریب بھی ایک طاقت ہے، مگر تعمیر کی صلاحیت اصل طاقت ہے۔ عمران خان مگر دیوار گرانے کو کام سمجھتے ہیں۔ اُنہیں وزیراعظم کے طور پر دیوار اُٹھانے کی ذمہ داری ملی تھی، تاحال ناکام ہیں۔ اب وہ اپنے دیوار گرانے کی طاقت سے لوگوں کو خوف زدہ کررہے ہیں۔ مگر طاقت کی ایک سادہ تشریح یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ کہنا پڑے کہ آپ کیا ہو، تو آپ کچھ بھی نہیں ہو۔ عمران خان کا معاملہ قدرے مختلف ہے، وہ ”کچھ بھی نہیں” کی تشریح پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ عمران خان کی سیاسی زندگی کی ابتدا آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل اور محمد علی درانی کی قیادت میں قائم پاسبان گروپ میں شمولیت کو قرار دیں تو اب اٹھائیس سال ہوتے ہیں، اگر تحریک انصاف کے 25 اپریل 1996ء کے قیام کو اُن کے سیاسی دنگل میں داخل ہونے کا آغاز سمجھیں تو یہ سفر چھبیس سال پر محیط ہوگا، اس عرصے میں عمران خان نے جتنے طرارے بھرے، روپ بہروپ اختیار کیے، سوانگ بنائے، سب کچھ وزیراعظم بننے کے لیے تھا۔ اُن کی تمام ”تگا پوئے دما دم” کا ہدف حکومت تھا۔چنانچہ وزیراعظم کے لیے حکومت سے نکلنا کوئی آسان نہیں۔ اُن کا انتباہ بھی کوئی سادہ بات نہیں۔
یاد کرلیجیے! وزیراعظم کے طور پر نوازشریف نے 12 اکتوبر 1999ء کو حکومت سے بے دخلی پر مقدور بھر مزاحمت کی تھی۔سابق صدر آصف علی زرداری کو ایک ادارے کے سربراہ نے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا تو اُن کا انکار ہاتھوں کی عریاں حرکت بن کر ظاہر ہوا تھا۔ زرداری نے میمو گیٹ کے لرزہ خیز ایام میں بیماریوں کی یورش کے باوجود اپنے اعصاب کو چٹخنے نہ دیا تھا،اُنہوں نے اپنی مدت سے ایک روز پہلے بھی اقتدار چھوڑنے کی رعایت نہیں دی۔عمران خان کے مخالفین بھی یہ ماننے میں نہیں ہچکچاتے کہ وہ ان دونوں سے زیادہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔زمین کو آسمان سے دیکھنے اور سنجیدہ موضوعات کو ظرافت کے قلب میں ڈھال کر بیان کرنے والے شاعر اکبر الہ آبادی کہاں یاد آئے!
ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجد تو ہے اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی
سوال یہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کیا واقعی خطرناک ہے، سوال یہ ہے کہ خود اُنہیں کیاخطرات لاحق ہیں؟ وہ خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں؟ اُنہیں حکومت جانے کا خطرہ کہاں سے دکھائی دے رہا ہے؟اُنہیں ان خطرات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو خطرناک باور کرانے کی باڑھ کیوں لگانی پڑ رہی ہے؟کون نہیں جانتا، کھیل کہاں اور کیسے کھیلا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اگست 2018 ء میں جب سریر آرائے اقتدار ہوئے تو طاقت ور حلقوں کی ”اشیر باد”ظاہر وباہر تھی۔ عمران خان کی اپوزیشن میں بگولوں کی مانند رقصاں سیاست کے تیوروں میں دشت گھبرائے پھرتے تھے۔ اقتدار کا ماجرا ذرا مختلف ہوتا ہے۔ یہ دبدبے سے قائم رہتا ہے مگر اپنے باطن میں خوف کی بِنا رکھتا ہے۔ اقتدار تحمل اور بُرد باری کا تقاضا کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے یہ امید پہلے دن کی طرح اب بھی کافی سے بہت زیادہ ہوگی۔ حکومت کی واحد چیز جو اسے ماضی سے مختلف کرتی تھی، وہ سربراہِ حکومت کے طور پر ان کا طاقت ور حلقوں سے ”لاڈلے” کی حیثیت پانا تھا۔ یہ کوئی لپک کر لیا گیا انتخاب نہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف تھے۔ چھبیس برسوں میں چھبیس سے زیادہ مواقع پر عمران خان طاقت ور حلقوں کے مخالف دشت میں بگولوں کی طرح بھٹکتے رہے۔ اُن کی آوازیں آج بھی بصری اور سمعی فیتوں میں محفوظ ہیں۔یہ بھی راز نہیں کہ عمران خان کے خلاف رات کی تاریکیوں اور پردے کے پیچھے بہت سے حلقے متحرک رہے۔ گویا عمران خان کو ملنے والی حمایت تمنا کی خوش نما وادیوں سے نہیں ، بلکہ مجبوریوں کے صحراؤں سے اُبھری تھی۔ میمو گیٹ والے زرداری اور ڈان لیکس والے شریف کے ساتھ نباہ انتہائی کٹھن ہو چکا تھا۔ چنانچہ عمران خان کی جانب ”لاڈ” کا رخ سکڑتی بساط میں کم ہوتے مہروں کے باعث تھا۔ افسوس فرزیں ، شاطر کے ارادوں سے ناآگاہ رہا۔ پاکستان کے غیر فطری سیاسی بندوبست کی طویل دہائیوں میں عمران خان کوئی فطری انتخاب نہیں۔ درحقیت یہ بندوبست کی سیاست میں مجبوریوں اور لاچاریوں کا کھیل ہے جسے فطری طور پر اسی طرح بے ہنگم ہونا ہوتا ہے۔
یہ کوئی کرکٹ کی طرح کا کھیل نہیں،وزیراعظم عمران خان اس مختلف کھیل میں مہارت نہ رکھتے تھے۔اُن کا سارا انحصار ناقابل عمل اور بیکار خیالات پرتھا۔ جو رومانویت کی کوئی تعبیر تو پاسکتے تھے، مگر عملی دنیا سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ عمران خان کی لفظی بمباری خروشچیف ایسی بھی نہ تھی۔جو شعوری گرفت کے ساتھ مضبوط طور پر ظاہر ہوتی تھی۔ عمران خان کے ہاں یہ طولِ کلام اور تکرارِ کلام کی ایک فضول مشق ہی رہی، جس نے اُن کو پسند کرنے والوں میں بھی ایک بوریت پیدا کردی۔ وزیراعظم عمران خان کے تمام دعوے، وعدے اور بیانئے عمل کی میزان پر پورے نہیں تُل سکے۔ اُنہیں ”یوٹرن” کا طعنہ تواتر سے سہنا پڑا، اور یہ سب ناقابل عمل خیالات سے رومانوی تعلق کے باعث تھا جسے عملی دنیا میں کبھی اجاگر ہی نہ ہونا تھا۔ چنانچہ عمران خان کو اپنے سیاسی گزر بسر کے لیے جن خیالات پر انحصار کرنا پڑا، وہی اُن کے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔ درحقیقت اُنہیں ”لاڈلے” رہتے ہوئے کسی پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ کبھی نہ تھا۔ وہ اقتدار کے تمام شب وروز اپنے مصنوعی اور تباہ کن خیالات سے ہی نبرد آزما رہے۔ کسی رہنما کی سب سے بدترین لڑائی اپنے مخالفین سے زیادہ ایسے تباہ کن خیالات سے رہتی ہے جس کی چکاچوند سے وہ عوام کو اندھا اور ذہن پراگندہ کردیتا ہے۔ عمران خان کا سامنا اب بھی کچھ اسی نوع کے خیالات سے ہیں۔ جس میں وہ اپنے بعد کی دنیا کو اپنے بغیر دوسروں کے لیے خطرناک پاتے ہیں۔ یہ ڈیگال کے وہم سے بھی بڑا وہم ہے جو سمجھتا تھا کہ سیاسی معاملات میں براہِ راست وہ خداسے احکامات لیتا ہے۔ وزیراعظم شاید بھول گئے ہیں کہ وہ گزشتہ چھبیس برسوں سے حزب اختلاف میں ہی تھے، اس عرصے میں وہ ہر ایک کے مخالف وموافق رہنے کی ایک تاریخ پہلے سے رکھتے ہیں۔ اُن کے پاس نیا ایسا کچھ نہیں جو چونکاتا ہو، البتہ اقتدار سے رخصتی کے بعد اُن کے پاس جو دو چیزیں نہیں ہونگیں ، اُن میں سے ایک” ایمپائر کی اُنگلی” ہے اور دوسری اقتدار میںآکر تبدیلی کا دعویٰ ہے۔ کیونکہ اب وہ ان دونوں کے ساتھ آزمائے جاچکے۔ لیڈر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ امید پیدا نہ کرسکے تو عوام میں اپنی مقبولیت کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ عمران خان کا عرصہ ٔ اقتدار اُن سے وابستہ امید کے خاتمے کاد ور تھا، جسے اب وہ ”دھمکی” سے طول دینا چاہتے ہیں۔ اس دھمکی میں بھی ایک خرابی یہ ہے کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اس نوع کی ”دھمکیوں” کو حزب اختلاف کے رہنماؤں کے لیے موثر نہیں بناسکے۔ اب وہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد ایسا کون سا پہاڑ گرادیں گے۔وزیراعظم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ابھی تو وہ کمرے میں خاموش رہتے ہیں مگر اقتدار سے باہر جانے کے بعد نہ جانے کیا کرگزریں گے۔ اگر عمران خان اب بھی کارآمد خیالات سے کوئی رشتہ رکھنا چاہیں تو حکیم لقمان کی نصیحت کافی موثر ہے ، جن کی تلقین تھی کہ کم سخنی میں کثیر الفہمی اختیا رکرنی چاہئے مگر خاموشی میں بے فکر نہیں رہنا چاہئے۔ افسوس کمرے کی خاموشی میں اُن کی بے فکری نے اُن کے قدموں میں صحرا بودیے اور اُنہیں بگولوں کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ گردشِ حالات میں موجودہ بحران سے نجات پالیں مگر اپنے اصل دشمن ان مصنوعی خیالات سے کیسے جان چھڑائیں گے اور ایسے اقتدار سے کیا حاصل کرلیں گے ، جو اقتدار برائے اقتدار کے علاوہ کسی مقصد پر پورا نہ اُترتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔