... loading ...
دوستو،امریکی ماہرین نے بھنگ کے پودے میں دو ایسے قدرتی مرکبات دریافت کیے ہیں جو کووِڈ 19 کی وجہ بننے والے ’سارس کوو 2‘ وائرس کو پھیلنے سے روکتے ہیں اور اس بیماری کی شدت میں اضافہ ہونے نہیں دیتے۔اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی اور اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ تحقیق سے دریافت ہونے والے ان دونوں مرکبات کے نام ’’کینابیگیرولک ایسڈ‘‘ (سی بی جی-اے) اور ’’کینابیڈایولک ایسڈ‘‘ (سی بی ڈی-اے) رکھے گئے ہیں۔ان مرکبات کی سالماتی ساخت دیکھ کر ماہرین کو اندازہ ہوا کہ شاید یہ کورونا وائرس کے انسانی خلیوں سے جڑنے میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔بعد ازاں اس کی تصدیق پیٹری ڈش میں رکھے گئے انسانی پھیپھڑوں اور نظامِ تنفس کے خلیات پر ان مرکبات کی آزمائش سے ہوئی جنہیں کورونا وائرس (سارس کوو 2) سے متاثر کیا گیا تھا۔ان تجربات سے معلوم ہوا کہ سی بی جی-اے اور سی بی ڈی-اے، دونوں نے ہی کورونا وائرس کی سطح پر ابھار جیسی اس پروٹین کو جکڑ کر ناکارہ بنادیا جسے استعمال کرتے ہوئے یہ وائرس خلیے کے اندر داخل ہوتا ہے اور اپنے حملے کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔’’جرنل آف نیچرل پروڈکٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے لہذا اسے بنیاد بنا کر بھنگ کا استعمال شروع نہ کیا جائے۔جلد ہی مزید تجربات اور تحقیق کے بعد ماہرین یہ معلوم کریں گے کہ آیا یہ دونوں مرکبات جیتے جاگتے انسانوں کو بھی کورونا وائرس سے اتنے ہی مؤثر انداز میں بچاسکتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے پیٹری ڈش میں کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔علاوہ ازیں، مزید تحقیق میں یہ مرکبات استعمال کرنے پر ظاہر ہونے والے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔اس کے بعد ہی حتمی طور پر ان مرکبات کو کووِڈ 19 کے علاج میں استعمال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاسکے گا۔
کورونا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر میں سے ایک ماسک کا پہننا بھی لازمی بتایاجاتا ہے۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔تمام دوست ماسک ضرور پہنیں، ماسک آپ کی زندگی بچاسکتا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میرے ایک دوست گرل فرینڈ کے ساتھ شاپنگ مال میں تھے اچانک انہیں اپنی بیوی سامنے سے آتی نظر آئی۔ وہ سمجھے کہ آج تو موت یقینی ہے۔ مگر ماسک لگانے کی وجہ سے بیوی ان کو بالکل نہیں پہچان پائی اور یوں انکی جان بچ گئی۔ آپ سب بھی ضرور ماسک پہنا کریں۔۔کورونا کی دونوں ڈوز جن لوگوں نے لگوا لی ہے اور اسے چھ ماہ سے زائد عرصہ بیت گیا ہے وہ فوری طور پر بوسٹر لگوالیں۔۔تاکہ کورونا کی نئی ’’اولاد‘‘ اومیکرون کی شرپسندی سے بچاجاسکے۔۔ کورونا کے خلاف ویکسین لگوانے کے بعد مبینہ طور پر ایک اپاہج شخص نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہے بلکہ وہ بات بھی کرنے لگا ہے۔بھارت کے 55 سالہ دُلارچند مونڈا نے چار جنوری کو ویکسین لگوائی تھی۔ اگلے روز اس کی کیفیت بہتر ہونے لگی اور پہلے انہوں نے پیر ہلائے اور اس کے بعد ان کی آواز بھی لوٹ آئی۔بوکارو نامی علاقے کے دلارچند کی کیفیت دیکھ کر سول ہسپتال کے سرجن جتیندرا نے حیرت کا اظہار کیا اور تفتیش کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی ہے۔دلارچند چار سال قبل ایک حادثے کے شکار ہوئے تھے جس کے بعد ان کا اعصابی نظام شدید مجروح ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ گویائی اور چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کووڈ ویکسین کا کمال ہے جسے وہ معجزہ کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ویکسین لگانے کے چند روز بعد ہی وہ بولنے لگے اور پیروں پر کھڑے ہوگئے۔تاہم ڈاکٹر جتیندرا نے کہا کہ اس کا حتمی فیصلہ سائنسداں ہی کریں گے کیونکہ چار سال پرانی کیفیت سے یکدم تندرست ہوجانا ایک ناقابلِ یقین عمل ہے۔ایک اور ڈاکٹر البیل کرکٹے نے کہا کہ جب طبی ماہرین دلارچند پر تحقیق کریں گے تو امید ہے کہ چند روز میں اس کے مرض اور بحالی کی درست تفصیل سامنے آجائے گی۔ اگرچہ حادثے کے بعد دلارچند کا بہت علاج کیا گیا لیکن اس کی آواز دھیرے دھیرے گم ہوگئی اور وہ بستر تک محدود رہ گیا۔ویکسین لگوانے سے قبل وہ اپنے علاج پر خطیر رقم خرچ کررہے تھے۔
کورونا کے حوالے سے ہی دلچسپ امریکی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا میں جہاز سے سفر کرتے دوران اپنے لیے صحیح نشست کا انتخاب بھی کرلیا جائے تو آپ اس بیماری سے بڑی حد تک بچ سکتے ہیں۔یونیورسٹی آف الینوئے اربانا شیمپین میں انجینئرنگ کے پروفیسر، ڈاکٹر شیلڈن جیکب اور ان کے شاگردوں نے مسافر بردار بوئنگ طیاروں میں ہوا کے ساتھ مائع کے چھوٹے چھوٹے قطرے (ایئروسولز) پھیلنے کے عمل کا جائزہ لیا۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ مسافر بردار طیاروں کے کون کونسے حصوں میں (ہوا کے ساتھ) کورونا وائرس پھیلنے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔ تجزیئے سے انہیں معلوم ہوا کہ مسافر بردار طیاروں میں گردش کرنے والی ہوا، درمیانی نشستوں کے قریب زیادہ کثافت رکھتی ہے۔یعنی اگر کورونا کا کوئی مریض اس طیارے میں موجود ہوا تو اس کے منہ اور ناک سے خارج ہونے والے وائرس، ہوا کے ذریعے طیارے کے دیگر حصوں کی نسبت درمیانی حصے میں زیادہ جمع ہوں گے؛ جو وہاں بیٹھے مسافروں کو متاثر بھی کرسکتے ہیں۔ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ طیارے کے درمیان والی نشستوں سے کچھ آگے یا کچھ پیچھے بیٹھا جائے۔ البتہ، ان کا کہنا ہے کہ اگر ہوائی جہاز میں سب سے پیچھے والی سیٹیں مل جائیں تو یہ سب سے بہتر ہے کیونکہ اس حصے میں جہاز کی اندرونی ہوا سب سے کم پہنچتی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر مسافر بردار جہاز میں ایک خاندان کے افراد قریب قریب بٹھائے جائیں تو اس سے بھی کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملے گی کیونکہ وہ اِدھر اُدھر بھاگنے کے بجائے آپس میں ہی مصروف رہیں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ اگر درست سیٹ کا انتخاب بھی کرلیا جائے تو کووِڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔نوٹ: یہ تحقیق ’’جرنل آف ایئر ٹرانسپورٹ مینجمنٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کرپشن کے بعد اس ملک میں رضائی وہ دوسری چیز ہے جس سے اس قوم کا نکلنے کا دل نہیں چاہتا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔