وجود

... loading ...

وجود

قومی سلامتی پالیسی اور خطرات

بدھ 19 جنوری 2022 قومی سلامتی پالیسی اور خطرات

ہم پالیسیاں تو بناتے رہتے ہیں لیکن عمل کی طرف کم ہی دھیان دیتے ہیں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی کابینہ منظوری دے چکی ہے جو بظاہر ہمہ پہلو ہے کاش اِس پر عمل بھی ہوجائے کیونکہ ہمارا ماضی اِس کا شاہد ہے کہ قیادت جو کہتی ہے وہ کہے تک ہی محدود رہتا ہے عمل کی نوبت کم ہی آتی ہے۔
اِ س میں شک نہیں کہ سلامتی کو لاحق خطرات کی نوعیت بدل رہی ہے اب دفاع کو محض فوجی حوالے سے دیکھنا درست نہیں کیونکہ خطرات سرحدوں سے آگے بڑھ گئے ہیں دفاع کے ساتھ معاشی سلامتی بھی اہم ہو گئی ہے آج وہی ملک مضبوط ،خوشحال اور مستحکم ہے جو تجارتی حوالے سے دنیا کے ساتھ جڑا ہے جس کے پاس وافر تجارتی مال ہے کیونکہ موجودہ دورمیں سلامتی کا تصور اکنامک سلامتی تک وسعت اختیار کر گیا ہے اسی لیے ففتھ جنریشن وار،ہائبرڈ وار اور جیو اکنامکس کی باتیں کی جاتی ہیں مگر ایک جمہوری ملک میں تمام فیصلوں کو پارلیمنٹ کی تائید حاصل ہوتی ہے جمہوری ملک میں جمہوری نظام کا کمزور ہونا بھی قومی سلامتی کے لیے خطرے سے کم نہیں۔
وزیرِ اعظم نے اعتراف کیا ہے کہ عوام اگر ریاست کے ساتھ کھڑے نہ ہوں تو تو سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے مگر یہ بدقسمتی سے قومی سلامتی کے بارے فیصلے کرتے ہوئے اپوزیشن کو نظر انداز کر جاتے ہیں حالانکہ اپنے کہے کا پاس کرتے ہوئے اگر رویے میں تھوڑی سی لچک پیداکرلیں اور سلامتی پالیسی پر داخلی سطح پراتفاق پیدا کرنے کی خاطر مناسب تدابیر اختیار کریں تو انھیں کوئی سیاسی خطرہ نہیں ہو سکتا البتہ ملک و قوم کا بھلا ہو سکتا ہے اگر اپوزیشن تعاون کی بجائے عدمِ تعاون کی راہ اختیار کرتی ہے تو عوام خود اُس کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں اِس طرح حکمران جماعت کو عوامی حلقوں میں پذیرائی مل سکتی ہے مگراپوزیشن حلقے قومی سلامتی پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیرِ بحث نہ لانے پر تنقید کر رہی ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
عمران خان کی اِس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک کمزور ہوتے ہیں اور معاشی کمزوری آئی ایم ایف جیسے اِداروں کی ایسی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جو ملک کی سلامتی کے حوالے سے درست نہیں ہوتیں یہاں سوال تو یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی انتظامی اِداروں کے زریعے حکومت یقینی بناتی ہے لیکن موجودہ دور میں کیا اِس حوالے سے کچھ کام ہوا ہے ؟بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ اِس حوالے سے موجود ابتری میں مزید اضافہ ہوا ہے کوئی بھی گروہ اُٹھ کر جب چاہے ریاست کو اپنی شرائط پرتصفیے پر مجبور کر سکتا ہے علاوہ ازیں پاکستان باربار قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے مگر ایسی معاشی پالیسی کا اجرانہیں ہو سکا جس سے عالمی مالیاتی اِداروں کے چنگل سے آزادی مل سکے ابھی حال ہی میں ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر کی قسط لینے کے عوض اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دی گئی اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے جس سے عام اور غریب آدمی پربوجھ مزید بڑھ گیا ہے جانے قومی سلامتی پالیسی بناتے ہوئے اربابِ اختیار اِس اہم پہلوکو کیوں نظر انداز کر گئے ؟علاوہ ازیں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم احساسِ محرومی پیدا کرتی ہے جوشہری کو ریاست سے متنفر کرنے کا باعث بنتی ہے ۔
پاکستان نے ہمیشہ بھارتی خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوجی توازن قائم رکھنے کی کوشش کی اب بھی اِس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاتا لیکن دونوں ملکوں کے جوہری طاقت بننے سے براہ راست ٹکرائو کا امکان کم ہو گیا ہے اسی لیے بھارت خطرات کی نوعیت بدل رہا ہے اب و ہ پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے اِس کے لیے کبھی افغانستان اور کبھی ایران کی سرزمین استعمال کرتا ہے روسی حملے سے سرحدی خطرات کے ساتھ منشیات ،واسلحہ کلچر آیا پھر جہادی گروہ خطرہ بنے بعد میں امریکی آئے تو ملک اور معاشرے کو مزید نئے تنازعات نے گرفت میں لیا کبھی روس اور بھارت دونوں ہمیں نقصان پہنچانے کے حوالے سے ایک تھے اب روس کی بجائے بھارت کی امریکہ سے شراکت داری ہے مقصد دنیا کے واحد اسلامی جوہری ملک کو اندرونی طور پر غیر مستحکم بنا کر ایٹمی اثاثوں سے محروم کرناہے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مسلسل گرے لسٹ میں نام رکھنا اسی شراکت داری کا کمال ہے لیکن ہمہ پہلو خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہم آج بھی یہ طے نہیں کر سکے کہ ہماری منز ل کیا ہے بلکہ فیصلے کرتے ہوئے کسی نہ کسی عالمی طاقت کی طرف دیکھتے ہیں جس سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی نہیں آ رہی۔
پاکستان نے طویل عرصہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا یہاں تک کہ روس کے خلاف جاسوسی کے لیے امریکی طیاروں کو اُڑان بھرنے کے لیے اڈے دیے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملوں کے لیے بھی فضائی اور زمینی حدود استعمال کر نے کی عام اجازت دی لیکن ملک کا فائدہ ہونے کی بجائے دہشت گردی کو فروغ ملا اسی ہزار انسانی جانوں کی قربانی کے باوجود آج بھی پاکستان کو دہشت گردی کاسرپرست ایساملک کہا جا تا ہے جو دہشتگردوں کومالی مدد دیتا ہے اب ہم نے اپنا رُخ چین کی طر ف موڑ لیا ہے اورسی پیک کی صورت میں مستقبل خوشحال بنانے کے خواب دیکھنے لگے ہیں حالانکہ یہ منصوبہ محض تجارتی راستہ ہے لیکن چین کی طرف جھکنے سے دوبارہ ہم نے اپنے لیے خطرات بڑھا لیے ہیںجب تک فیصلے کرتے ہوئے ملکی مفاد کی بجائے عالمی مفاد کو ترجیح دینے کی پالیسی ترک نہیں کریں گے تب تک خطرات ختم نہیں ہو سکتے اگر قومی سلامتی کا تحفظ کرنا ہے تو آزادانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور قومی سلامتی پالیسی بھی ہمہ جہت بنانا ہو گی تاکہ خطرات کی نوعیت کے مطابق توڑ کیا جا سکے۔
حکومتی سطح پر اعتراف کیا جا چکا کہ ملک خواراک میں خود کفیل نہیں رہامگر اِس حوالے سے ابھی تک عارضی اقدامات پر گزارہ ہے اگلے چند برسوں میں خوراک کے زخائر میں مزید کمی کا خدشہ ہے کیونکہ آبی قلت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لیکن پالیسی سازابھی تک ٹھوس لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں کہنے کو ہمارا ملک زرعی ہے لیکن گندم ،چینی ،دالیں ،مصالحے اور خوردنی تیل تک درآمد کرنے پر مجبور ہیںمہنگائی اور بے روزگار الگ مسلہ ہیں جب تک قومی سلامتی پالیسی کو فوجی زاویے کے ساتھ عام شہری کے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر ترتیب نہیں دیا جاتا معاشی اور تجارتی ترقی کے لیے نتیجہ خیز اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے تب تک قومی سلامتی کو لاحق خطرات نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ عالمی اِداروں کی نارواشرائط تسلیم کرنے پر بھی مجبور رہیں گے کرپشن کے خاتمے اورقانون کی حکمرانی کا قومی سلامتی سے گہراتعلق ہے مگرسیاسی استحکام اور قومی اتفاق رائے کے بغیر کیے جانے والے فیصلے سود مند نہیں ہو سکتے ضرورت اِس امر کی ہے کہ اگر ریاست نے اپنے وجود اور بقاکے تناظر میں ایک جامع اور متوازن نکتہ نظرکو اپناہی لیا ہے تو اِس کی جھلک معاشی پالیسیوں میں بھی نظر آنی چاہیے اب سمت کا تعین تو ہو چکا ترجیحات میں بھی تبدیلی لائی جائے تاکہ مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر