وجود

... loading ...

وجود

سندھ میں ’’وڈیرا سسٹم ‘‘ کے طاقت ور مظاہرے

پیر 17 جنوری 2022 سندھ میں ’’وڈیرا سسٹم ‘‘ کے طاقت ور مظاہرے

سندھ میں برسوں سے جاری وڈیرہ شاہی نظام کا ایک شکار، ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ناظم جوکھیوبنا تھا، لیکن ہم اسے آخری شکار اس لیے نہیں قرار دے سکتے کہ’’ وڈیرا سسٹم‘‘ سندھ بھر میں اس قدر مضبوط ہے کہ اسے صرف ناظم جوکھیو کو انصاف دلانے کی دن رات دہائیاں دے کر ختم نہیں کروایا جاسکتا۔ بلکہ یہ کہنا عین قرین قیاس ہوگا کہ ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد سندھ بھر میں ’’وڈیرا سسٹم ‘‘ کے خلاف ہونے والے نفرت آمیز عوامی ردعمل سے متاثر ہوکر جن سادہ لوح افراد نے یہ اُمید باندھ لی تھی کہ سندھ میں وڈیرا سسٹم کے دن گنے جاچکے ہیں ، یقینا وہ تمام لوگ احمقوں کی جنت میں ہنسی خوشی رہ رہے ہوں گے ۔ یہ نتیجہ ہم اس لیے بھی اخذ کر نے پر مجبور ہیں سندھ بھر میں وڈیرا شاہی نظام نہ صرف آج بھی پوری طرح سے مضبوط ہے بلکہ جگہ جگہ متحرک اور کام کرتا ہوا کھلی آنکھوں سے دیکھا بھی جاسکتاہے۔ ناظم جوکھیوکے قتل پر ذرائع ابلاغ کا شور شرابہ اپنی جگہ ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے اونچے اونچے راگ، راگنیاں اپنے مقام پر ہیں ۔جبکہ سوشل میڈیا پر جنم لینے والی وقتی احتجاجی اُبال اور طوفان کی طاقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن یہ سب مل کر بھی ’’وڈیرا سسٹم ‘‘ کے سامنے اس قدر بے بس ہیں کہ اس کا ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتے ۔اس کا تھوڑا بہت اندازہ اس تازہ ترین خبر سے لگایا جاسکتاہے ۔جس کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت نے ناظم جوکھیو قتل کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے 5ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کردیں اور تحریری فیصلہ جاری کر تے ہوئے ریمارکس دیے کہ’’ ملزمان نے قتل معاشرے میں خوف اور برادری میں دھاک بٹھانے کیلئے کیا،عدالت کا ماننا ہے یہ کیس دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا یہ عدالت اب ملزمان کی درخواست ضمانت کا فیصلہ نہیں کرسکتی ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کیس کے چالان پر آزادانہ طور پر فیصلہ کریں۔ ملزمان کو دی گئی عبوری ضمانتیں منسوخ کی جاتی ہیں‘‘۔ لیکن ادھر ناظم جوکھیو قتل کیس میں ملوث ملزمان کی ضمانت مسترد ہوئی اور اگلے ہی فیصلہ کن لمحات میں ضمانت منسوخی پر پانچوں ملزمان عدالت سے فرار ہو گئے۔ مگر المیہ یہ نہیں ہے کہ ناظم جوکھیو قتل کیس میں نامزد ملزمان ضمانت منسوخ ہونے پر فرار ہوگئے بلکہ لطیفہ تو یہ ہے کہ معزز عدالت میں رونما ہونے والے اس واقعہ پر جب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقو ق نے ناظم جوکھیو قتل کے پانچ ملزمان کے فرار ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ’’ یہ پوری قوم کے منہ پر طمانچہ ہے ‘‘ ۔تو اس کے جواب میں آئی جی سندھ نے قائمہ کمیٹی کو آن لائن بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ’’ عدالت نے ان افراد کی گرفتاری کا کہا نہیں تھا، جن لوگوں کی ضمانت منسوخ ہوئی وہ ہمیں درکار ہی نہیں تھے جب ثبوت ہی نہیں تو ان کو گرفتار کیوں کریں۔ علاوہ ازیں تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اِن5ملزمان کو شواہد کی عدم دستیابی پر پہلے ہی تفتیش سے فارغ کر دیا تھا‘‘۔ یہاں ہم یہ توخواب و خیال میں بھی تصور نہیں کرسکتے کہ آئی جی سندھ پولیس نے جو کچھ بھی قائمہ کمیٹی کو آن لائن بریفنگ میں بتایا اُس میں سے کچھ حقیقت کے برخلاف ہوگا ۔ کیونکہ آئی جی سندھ کی قابلیت ، ایمان داری اور فرض شناسی کی تو ایک دنیا قائل ہے ۔ اس لیے سب سے مستند تو وہ ہی ہے جو آئی جی سندھ نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے گوش گزار کیاہے۔
دراصل یہاں ’’وڈیر ا سسٹم ‘‘ کی انتظامی کارستانی ملاحظہ کے لائق ہے کہ اُس نے کس طرح سے ایسے ایسے بے گناہ افراد کو بھی ناظم جوکھیو قتل کیس میں بطور ملزم نامزد کروادیا کہ جن کا اس کیس سے دور دور تک کوئی لینا دینا بھی نہیں ہوگا۔ دراصل وڈیراشاہی نظام کا یہ پرانا طریقہ واردات رہا ہے کہ وہ ایک وڈیرے کے خلاف بننے والے مقدمے میں پورے پورے گاؤں کو بھی اُس کے ساتھ کمال انتظامی مہارت سے ایف آئی آر میں شامل کروالیتی ہے ۔ جس کی وجہ سے عدالت اور تفتیش کاروں کے لیے اَن گنت ملزمان میں سے حقیقی مجرم کا سراغ لگانا ایک ایسا کارِ محال بن جاتاہے کہ جیسے کسی شخص کے لیئے وسیع و عریض صحرامیں سوئی تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے ۔ ناظم جوکھیو قتل میں بھی ’’وڈیرا سسٹم ‘‘ کی جانب سے معزز عدالت اور تفتیش کاروں کو کچھ ایسے ہی مشکل امتحان میں مبتلا کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب اگر بالفرض محال کسی طاقت وڈیرے کی موٹی تازی گردن تک قانون کے ہاتھ پہنچ بھی جائیں تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے منتقل کرنے کے بجائے علاج معالجہ کے نام پر انتہائی نگہ داشت کے لیے مستقل طور پر ہسپتال منتقل کردینا بھی سندھ میں ایک معمول کا واقعہ سمجھا جاتاہے۔ ابھی رواں ہفتے ہی کراچی میں بااثر قیدی جیل کی بجائے اسپتالوں میں رکھنے کا نیٹ ورک موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔اس بابت تفتیش کرنے والے اعلیٰ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ با اثر قیدیوں کو شہر کے کم از کم پانچ نجی اور تین سرکاری اسپتالوں میں رکھا جاتا رہا ہے۔ کراچی کے نجی اسپتالوں میں مالدار اور بااثر قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جبکہ ماضی میں چند دیگر نجی اسپتالوں میں بھی بااثر قیدیوں کو رکھا جاتا رہا ہے۔ شہر کے جن تین سرکاری اسپتالوں میں بھی بااثر قیدیوں کو لمبے عرصے تک رکھنے کا انکشاف ہوا ہے ، اُن میں این آئی سی وی ڈی، جناح اور سول سپتال شامل ہیں۔
تاہم بااثر قیدیوں کو جیل سے نجی اسپتال میں رکھنے پر وزیراعلی سندھ کے حکم پرسینئر سپرٹینڈنٹ کراچی سینٹرل جیل محمدحسن سہتو کو معطل کردیا گیا ہے اور محکمہ سروسزجنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کوآرڈی نیشن نے ان کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے حسن سہتو کو محکمہ داخلہ میں رپورٹ کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ وزیراعلی سندھ کے حکم پر بااثر قیدیوں کو جیل سے اسپتال میں رکھنے کا معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری جیل خانہ جات محکمہ داخلہ تحقیقات کررہے ہیں،جس کی مفصل رپورٹ بعد ازاں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو فراہم کرنے کا عندیہ دیاگیا ہے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ کیا اس سنگین معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ کچھ کر سکیں گے؟یا ’’وڈیرا سسٹم ‘‘اس بار بھی انتظامی محکموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہے گا؟یقینا’’وڈیراسسٹم ‘‘ کا یہ جادوئی مظاہرہ بھی دیکھنے کے لائق ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر