... loading ...
استاد تونامی گرامی تھا اس کے علم و دانش کا بڑا شہرہ تھاکسی شعر،آیت یا کسی بات کی شرح بیان کرتا تو ایسے لگتا جیسے کمپیوٹرکو قوت ِ گویائی مل گئی ہو اس کی متاثرکن گفتگو سے ہرکوئی مسحورہوکررہ جاتا لیکن ایک دن عجیب بات ہوئی ایک شاگرد نے استاد سے پوچھا مخمصے کا مطلب کیاہے ؟
استاد نے کافی تشریح کی بہت تاولیں دیں مگر شاگرد مطمئن نہ ہوا ،شاگرد نے کہا جناب آپ کا اپنا نام ہے لوگ آپ کی باتوںکو کوٹ کرتے ہیں، ایک طرف آپ کی یہ قابلیت اور دوسری طرف یہ عالم کہ آپ اپنے شاگردکو ہی مطمئن نہیں کر سکے، اتنا علم کس کام کا؟
استاد کے ہونٹوںپر ایک مسکراہٹ پھیلی ، اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ میں تم کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔شاید تمہیں مخمصے کی سمجھ آ جائے ۔
“شاگرد نے کہا سنائیں میں ہم تن گوش ہوں
استاد نے کہا ایک روز ناظم آباد کراچی میں اے او کلینک کے سامنے والی سڑک پر ایک باپ اور اس کا بیٹا موٹر سائیکل پر سوارہوکر جارہے تھے۔ ان کے آگے قوی ہیکل ٹرک تھا جو فولادی چادروں سے لدا ہوا تھا۔ اچانک ٹرک سے ایک فولادی چادر تیزی سے اڑتی ہوئی آئی، اس سے پہلے وہ سنبھلتے فولادی چادر سیدھی باپ بیٹے کی گردن پر آئی ،دونوں کی گردنیں کٹ گئیں۔ لوگ بھاگم بھاگ دونوں دھڑ اور کٹے ہوئے سر لے کر سامنے ایک معروف ڈاکٹر شاہ کے ہسپتال لے کرجاپہنچے۔ ڈاکٹر شاہ نے سات گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد کٹے ہوئے دونوں سر دھڑوں سے جوڑ دیئے۔ دونوں کی جان بچ گئی۔ کئی ماہ تک دونوں باپ بیٹا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر ِ علاج رہے ،گھر والوں سمیت کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ذراسی بے احتیاطی سے ان کی صحت پربراثر پڑسکتا تھا۔ کئی ماہ بعد باپ بیٹا گھر آئے تو خوشی کی بجائے وہاں ایک ہنگامہ مچ گیا ۔گلی محلے کے علاوہ شہر کے دور دراز کے علاقوں سے لوگوںکے ٹھٹ لگ گئے ۔ معلوم ہوا کہ دنیا کی میڈیکل کی تاریخ کا عجیب و غریب باب رقم ہوگیاہے۔ غلطی سے باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر اور بیٹے کا سر باپ کے دھڑ سے لگ گیا تھا” شاگرد منہ کھولے بہت حیرت سے یہ عجیب و غریب واقعہ سن رہا تھا۔ وہ تجسس سے پوچھ بیٹھا جناب پھرکیاہوا؟
” ہونا کیا تھا استاد کے ہونٹوںپر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی، عجیب سچویشن تھی،عوام بھی پریشان ڈاکٹرحیران اور دنیا جہاں کے مفتی قاضی سرجوڑکربیٹھ گئے لیکن کسی کے ذہن میں اس سوال کا جواب نہیں آرہاتھا کہ اب بیٹے کی بیوی شوہر کے دھڑ کے ساتھ کمرے میں رہے یا شوہر کے سر کے ساتھ ؟ اگر وہ شوہر کے سر کے ساتھ رہتی ہے تو دھڑ تو سْسر کا ہے اب کیا ہوگا؟ ماں اگر شوہر کے سر ساتھ رہے تو دھڑ بیٹے کا ہے۔ اگر شوہر کے دھڑ کے ساتھ رہے گی تو سر تو اس کے بیٹے کا ہے۔ گھر کی صورتحال انتہائی کشیدہ تھی۔
بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنا چاہے تو وہ نیک بخت کہتی کہ مجھے ابا جان کے ہاتھوں سے شرم آتی ہے۔سر اگر اپنی بیوی کے پاس اس لئے نہیں پھٹکتے کہ بیٹے کے دھڑ اور ماں یعنی ان کی بیوی میں ابدی حرمت ہے۔
کہیں موٹر سائیکل پر جانا ہو تو ایک پریشانی کہ بہو شوہر کے دھڑ کے ساتھ بیٹھے یا سْسر کے سر کے ساتھ ؟الغرض ان کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ تمام معمولات ٹھپ ہو گئے۔ ایسے میں کسی نے مشورہ دیا کہ یوں کیا جائے کہ دونوں اپنی اپنی منکوحہ کو طلاق دے دیں اور از سرِ نو نکاح کریں تاکہ دھڑ حلال ہو جائیں”
شاگرد جوپوری توجہ سے یہ سب کچھ سن رہا تھا اور بہت پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا۔
” تم اب بتاو ٔ میاں ذہین فطین صاحبزادے ۔۔ استاد نے اپنے دیدے گھما کرپوچھاکہ اگر لڑکے کی ماں طلاق لے تو کس سے لے؟ بیٹے کے دھڑسے یا شوہر کے سر سے ؟
سر شاگرد نے ماتھے پر ہاتھ مارکر پریشانی سے کہا ۔۔ادھر بہو کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ،شوہر کے سر سے طلاق لے یا سْسر کے دھڑ سے ؟
میں نے تم سے یہ پوچھا ہے ،اب تم بتاو ٔ کہ کیا کیا جائے؟”
شاگرد بولا: ” استاد جی… میرا تو دماغ بند ہو گیا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کیا جائے”
استاد گویا ہوئے: ” بیٹا… بس یہ جو تمہاری کیفیت ہے نا اسے ہی مخمصہ کہتے ہیں” بعینہ ‘ پاکستان میںموجودہ حکومت بھی انہی حالات کا شکار ہے اس کا سر پی ٹی آئی کا اور دھڑ باقی جماعتوں کا لگا ہے۔ سر الگ کریں تو مصیبت، دھڑ الگ کریں تو مصیبت گویا موجودہ صورتحال مخمصے کا شکار ہو گئی ہے۔ بھارت میں یہی حال حکمران جماعت کاہے جس کی وجہ سے مودی سرکار پریشان رہتی ہے۔
پھر تو۔۔۔ شاگرد نے کہا دنیاکے ہر اس ملک میں جہاںاتحادی مل کر حکومت بناتے ہیں ۔ ان کے لیے مسئلہ ہی رہتاہوگا کہ وہ ایک دوسرے کو بلیک میل کرکے کام نکالتے رہیں ورنہ ہمیشہ مخمصے کا شکاررہتے ہوں گے، ویسے شوہرِ نامدار بھی اکثر مخمصے میں رہتے ہیں۔