وجود

... loading ...

وجود

اپنے آپ سے زبردستی محبت کرنا تھکا دینے والا کام ہ

جمعه 14 جنوری 2022 اپنے آپ سے زبردستی محبت کرنا تھکا دینے والا کام ہ

(مہمان کالم)

بیتھ ایشلے

نئے سال کا آغاز ہوتے ہی میرا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان اشتہاروں سے بھر چکا ہے جو کچھ کرنا میرا ہدف تھا۔یوٹیوب سے انسٹاگرام تک، وزن گھٹانے کے اشتہار، ورزشی پروگرام، دوائیں اور مشورے میری سوشل میڈیا فیڈ پر موجود اصل پوسٹس کے ہر حصے پر چھا چکی ہیں۔یہ سال کا وہ وقت ہے جس میں لوگ جسم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔میری اب تک کی سوشل میڈیا زندگی (تقریباً 11 سال) کے بعد یہ واضح ہے کہ جنوری غذائی صنعت کا سب سے زیادہ مقبول مہینہ ہے۔پچھلے 30 دن کے دوران’ڈائٹنگ‘ کے لیے گوگل پر کی جانے والی تلاش میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آن لائن ورزش کے لیے لوگوں نے رجسٹریشن کروائی ہے اور کمپنیوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ اس خوش خوراکی کو ہتھیار بنا لیں جو ہم پورا دسمبر کرتے رہے ہیں۔
تو یہ بات بہت معقول ہے کہ کمپنیاں ان اشتہارات پر کچھ اضافی رقم خرچ کر لیں (جو ہماری وال پر نظر آتے ہیں)۔ لیکن اس کا نقصان بھی کم نہیں۔ ہر سال جنوری کے دوران میں اس ’جادوئی اثر رکھنے والی دوا‘ پینے کی خواہش کے خلاف مزاحمت کرتی ہوں جس کا اپنے اشتہار میں دعویٰ ہے کہ اسے پینے کے بعد پلک جھپکتے ہی میرا پانچ پاؤنڈ وزن کم ہو جائے گا۔ (نوٹ: میرے ساتھ ایسا ہو گا اور نہ آپ کے) لیکن بہرحال انسان کبھی بھٹک جانا بھی تو پسند کر سکتا ہے۔
کھانے کی بے ترتیب عادتوں، پیٹ گھٹانے والی دواؤں کی لت اور اپنے جسم پر مکمل جنونی توجہ کے بعد اب بھی کبھی کبھار میں اپنی جھریوں اور لکیروں کو دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کیا واقعی چند پاؤنڈ خرچ کرنے کا مطلب ہے کہ میں ان میں سے کچھ سے نجات پا بھی سکتی ہوں؟غذائی صنعت کی بحالی کے پسندیدہ سیزن کی واپسی کے معاملے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر سال ان دنوں وزن میں ناقابل برداشت اضافہ محسوس ہوتا ہے۔باڈی پازیٹویٹی کے معاملے میں میگن جین گریبی، گریس ایف وکٹری اور نیومی نکولس جیسے انفلوئنسرز کا شکریہ کیوں کہ وہ لوگ ہر سال سوپر ہیروز کی طرح میری مدد کو ا?تے ہیں۔ اس سال ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ڈائٹنگ کلچر کی خرابیاں کم کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔
2022 میں انہوں نے کرسمس کے فوراً بعد اپنی مہم شروع کر دی۔ تصاویر پوسٹ کیں اور بتایا کہ’حقیقت پسند‘جسم دراصل کس طرح کے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سکھایا کہ ہم ایسے اشتہار بلاک اور رپورٹ کریں جو ہماری خودداری کو کم کرتے ہیں اور ہمیں اپنے جسم سے نفرت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ ڈائٹنگ کے خلاف جنگ میں ایک دلیرانہ کوشش ہے۔ان لوگوں کی محنت کو ہمیشہ سراہا جانا چاہیے اور خاص طور پر اس مشکل مہینے میں کہ جب 61 فیصد لوگ اپنے جسم کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہوں اور جب کہ برطانیہ کی خوراک سے متعلق صنعت کے حجم میں سالانہ دو ارب پاؤنڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن اس بار، ایک نئے اور غیر متوقع چیلنج نے مجھے آن گھیرا ہے۔ اپنے آپ سے پیار کرنا (جیسا کہ کچھ موٹاپا پسند انفلوئنسرز کہتے ہیں) اتنا ہی عجیب محسوس لگتا ہے جتنا ’خود کو ڈائٹنگ اور ورزش سے ٹھیک رکھنے‘ کا خیال! ڈائٹنگ ناکام ہونے کے بعد بالخصوص ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے (شاید وہ ڈائٹ پلان بنے ہی ناکام ہونے کے لیے ہوں)، تو بھاری بھرکم خواتین بھی براہ راست عدم تحفظ سے جڑی ہوتی ہیں۔میں سمجھ سکتی ہوں کہ موٹاپے کو فخریہ اپنانے کا درس دینے والے انفلوئنسرکیوں چاہتے ہیں کہ موٹی خواتین اس مہم میں شامل ہوں اور ڈائٹنگ کلچر کے مقابلے میں اپنا ا?پ اس دنیا کے سامنے کھل کر پیش کریں، اور اسے پسند کریں، جس دنیا نے طویل عرصے تک دبلے پن اور پتلے جسموں کی پرستش کی ہے۔
ایک ایسی صنعت کے سامنے، اپنے جسم اور اپنی خوراک سے لطف اندوز ہونا جو ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم ایسا کریں، یقیناً ایک بہترین قسم انصاف ہو گا، لیکن، اپنے (ایسے) آپ سے پیار کرنا ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔ میں اپنے جسم سے محبت کرنے اور اسے قبول کرنا سیکھنے جیسے تھکا دینے والے کام کی بجائے اس کے بارے میں دوبارہ کبھی نہ سوچنے کو ترجیح دوں گی۔ان کمپنیوں کے دعووں اور ان کی مستقل بقا کے باوجود دبلا کرنے کا دعویٰ کرنے والے تمام غذائی پروگراموں کی ناکامی کی شرح 98 فیصد ہے (ایک اور وجہ کہ ان کو بے نقاب کرنا کیوں اتنا ضروری ہے)۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ اپنے جسم سے محبت کرنے میں میری ناکامی کی شرح اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ میں نے اپنے جسم سے کو اپنانے اور اسے پسند کرنے کے لیے اتنی ہی کوششیں کیں جتنے میں نے فضول قسم کے ڈائٹ پلان استعمال کیے۔
لگتا ہے کہ ان سب کا انجام ایک جیسا ہے: آنسو، مایوسی، اور یہ سوچنا کہ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی، جب کہ ہر دوسرا یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ صرف قابل عمل محسوس نہیں ہوتا ہے۔دبلا پن صحت کی علامت ہے‘ میں اس مفروضے کو ختم کرنے کے لیے، موٹے لوگوں سے نفرت کے خلاف اور بھاری جسامت والوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ہمیشہ لڑتی رہوں گی، لیکن مجھے اپنے جسم پر اس سب کا اطلاق کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔اس کے بجائے، میں جو چاہوں گی وہ کھانا پسند کروں گی اور جو جسم میرے پاس ہے اسے کسی بھی طرح کی سیاست (باڈی پازیٹویٹی)کے بجائے بس گزارہ کرنا پسند کروں گی۔ اچھا یا برا میں نہیں چاہتی کہ یہ کوئی شدت پسند قسم کی خود پسندی کا عمل ہو اور نہ ہی میں چاہتی ہوں کہ میرے اس فیصلے کو ’فیٹ فوبیا‘کے رواج سے شرمندہ کیا جائے۔
جسمانی غیر جانبداری کا تصور 2000 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس اصطلاح کا سہرا مختلف لوگوں کے سر جاتا ہے لیکن زیادہ تر اسے این پواریئر سے جوڑا جاتا ہے۔جسمانی غیرجانبداری یہ تصور ہے کہ آپ اپنے جسم کے بارے میں کسی نہ کسی طرح، مثبت یا منفی سوچے بغیر، بس اپنا وجود برقرار رکھ رہ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ اپنے جسم کے دبلے پن یا موٹاپے کو کوئی بڑا مسئلہ بنائے بغیر بس اپنا وجود برقرار رکھنا۔ اور یہ بالکل وہی اصول ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔اس مہینے میں اپنے جسم کے معاملے میں غیر جانبداری – یا حتیٰ کہ لاتعلقی والے اصول پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔
میں جان بوجھ کر یہ کوشش کر رہی ہوں کہ میرے جسم کے بارے میں کسی بھی بات کو اپنی روزمرہ روٹین سے نکال دوں اور اگر کوئی اس طرف اشارہ بھی کرے تو اس کی بات کسی دوسری طرف گھما دوں۔ میں صرف اپنے جسم کی ضروریات کو دیکھوں گی بجائے اسے تنقیدی نظر سے پرکھنے کے، اور کوئی بھی منفی خیال اگر میرے جسم کے بارے میں ا?یا تو اس کی بنیاد پہ اپنے ا?پ کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کروں گی۔ بلکہ، اگر کوئی سوچ آئی بھی تو اس کھلے دماغ سے آنے کی اجازت دوں گی، دہراؤں گی اور پھر وہ سب کچھ بھول جاؤں گی۔
جیسا کہ اکثر لوگ گوشت یا الکوحل ترک کر دیتے ہیں یا سبزی خور ہو جانے کی کوشش کرتے ہیں، میں اپنے جسم کے بارے میں سوچے بغیر پورا ایک مہینہ بالکل نارمل رہوں گی، اور اگر میں ایک دن بھی ایسا کر سکی تو یہ پچھلے سال کے مقابلے میں میرے لیے ایک بڑا اور کامیاب دن ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر