... loading ...
بلوچستان کے اندر علی الخصوص ماضی قریب کی سیاسی تاریخ انتہائی مایوس کن ہے۔ سیاسی جماعتیں مجموعی طور مسائل کے حل کی بجائے اسے بڑھاوا دینے کا باعث بنی ہیں۔ نظریات و اقدار کی جگہ اقتدار و مراعات کے حصول کی سیاست لے چکی ہے۔ دیکھا جائے تو بلوچستان کے اندر فی الواقع اس ضمن میں خلا پیدا ہوچکی ہے۔ المیہ یہی ہے کہ معدودے چند کے سب ہی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ،نوبت و باری کے جتن کرتے ہیں۔ بالا دست اور زیر دست کے درمیان وقتاً فوقتاً شراکت کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ بد عنوانی اس محدود اشرافیہ کاگویا ہتھیار بن چکا ہے۔ یہی اشرافیہ ردو بدل کے ساتھ صوبے کا مختار کل ہوتا ہے۔ سینیٹ جیسے مد بر ایوان میں دولت کے بل بوتے پر ٹھیکیدار ، سرمایہ دار اور اسمگلر کامیاب ہوکر جاتے ہیں۔ یا منظور نظر افراد کامیاب بناکربھیج دیئے جاتے ہیں۔ قومی مفاد کے نام پر طرح طرح کی زیادتیوں اور پامالیوں کو دوام حاصل ہے۔ سیاسی جماعتیں گروہی اغراض کے لیے حریف تو کبھی حلیف بن جاتی ہیں۔ اقتدار پسندی کی جنگ میں صوبے اور یہاں کے درماندہ عوام کا استحصال کیا جاتاہے۔اس ذیل میں صوبے کے اندر آئندہ کا سیاسی نقشہ بھی اشرافیہ کا تیار کردہ دکھائی دیتاہے۔ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان نمائندے مستقبل کی صورت گری میں لگے ہیں۔حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے خالقین بھی سوچ بچا رمیں ہیں کہ الگ پیرائے میں کچھ نیا تجربہ کیا جائے۔ ایوان بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی آئندہ کے عام انتخابات میں خود کے لیے گنجائش ڈھونڈ رہے ہیں۔خواہش وزارت اعلیٰ کے حصول کی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے ٹی ٹی پی بارے باطن کی بات زبان پر لاکر دراصل 2023ء کے عام انتخابات میں دیوار سے نہ لگانے کی دھمکی دی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے ٹی پی پی کے جنگجوئوں کو وطن کے لوگ کہا ہے کہ ان کے ساتھ ملکر قوم اور وطن مستقبل کے چارہ گری کرنی ہے۔ان کی جماعت نے فقط ایک جام کمال کے خلاف نادیدہ لوگوں سے ہاتھ ملایا۔ٹی ٹی پی کی تڑی البتہ اس لیے دی ہے کہ کہیں عام انتخابات میں ہاتھ نہ کیا جائے۔ یہی جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے کیا۔یعنی یہ جماعتیںنے قدوس بزنجو سمیت اسٹیبلشمنٹ کی پوری لاٹ سے شیر و شکر ہیں۔
جمعیت علماء اسلام سوچتی ہے کہ آئندہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر ان سے وابستہ فرد بیٹھے ۔ اس مقصد کے لیے نواب اسلم رئیسانی کو شامل ہونے کی دعوت دیدی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے خود ساران ہائوس جاکر نواب رئیسانی سے ملاقات کرلی۔ نواب اسلم رئیسانی نے قبیلے اور حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد سے مشاورت بھی کرلی ہے۔ یعنی وہ جے یو آئی کی طرف مائل ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی بھی شعوری و ارادتاًحکومت تبدیلی کے کھیل میں شامل ہوئی۔ ان کے ارکان اسمبلی عبدلقدوس بزنجو کی جانب سے نوازے جارہے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ ایک رکن حمل کلمتی تو جیسے وزیراعلیٰ ہائوس میں ہی رہائش اختیار کرچکے ہیں۔ عوض میں پراسکیوٹر جنرل بلوچستان کے عہدہ پر تین جنوری کو بی این پی کے ساجد ترین ایڈووکیٹ کا تقرر بھی ہوا ہے۔یہ شریف شخص مارچ 2021کے سینیٹ انتخابات میں پارٹی کے بعض اراکین اسمبلی کے درپردہ جفا کے باعث ہار گئے تھے۔ یوں عبدالقدوس بزنجو سے اقتدار دلانے کے بدلے ایک صلہ اس عہدہ کی صورت میں بھی لیا جا چکاہے۔ دوسری طرف بی این پی برائی میں حصہ داری کا داغ بھی پسند نہیں کرتی اور بہت جلد پینترا بدلنے کی اپنے طور کوشش کرلی۔ یعنی پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے یہ کہہ کر داغ مٹانے کی بے کار سعی کی کہ وہ جام کمال کو نکالنے کے ثواب میں شامل تو ہیں پر عبدالقدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شریک نہیں۔ اب یہ الٹ اور معروضی حقیقت کے برعکس بیانیہ عوام کیسے تسلیم کریں کہ کل ہی کی تو بات ہے کہ جہاں بی این پی کے ا رکان اسمبلی بغیر پردہ و عار ہیت حاکمہ اور عبدالقدوس بزنجو سے لپٹے ہوئے تھے۔ نہ قدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر قائم ایک ہفتہ پر محیط کیمپ میں وفاداریوں، ہم کاریوں کے مناظر ابھی نگاہوں سے اوجھل ہوئے ہیں۔ اشتراک و الفت کی وہ محفلیں عوام کے حافظہ میں نقش و تازہ ہیں۔ یہ کیمپ چارارکان اسمبلی کی گمشدگی کا وایلا مچا نے کے بعد سجایا گیا تھا۔ بشریٰ رند، ماہ جبین شیران، اکبر آسکانی اور لیلیٰ ترین اسلام آباد بھیج د یے گئے۔ کس نے بھیجا یہ امر جے یو آئی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے قطعی مخفی نہیں۔البتہ کمال ہوشیاری سے الزام جام کمال پر دھرا گیا۔ گویا یہ سب کچھ پردے کے اُس طرف اور اِس جانب والوں کی ملی بھگت سے ہی ہوا تھا۔ اس تخریبی مشق کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر ایک اپنی جگہ وزیراعلیٰ بنا بیٹھا ہے۔
وزیراعلیٰ شب بیداری کے بعد دن کا آغاز تاخیر سے کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اراکین اسمبلی، وزراء ، مشیروں اور دوسرے لوگوں سے ون آن ون ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جس میں دن کا غالب قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔ معلوم نہیں کہ بیورو کریسی سے اجلاس کون کرتاہے۔ مختلف امو رپر بریفنگ کب لی جاتی ہے اور کس فورم پر ہدایات دی جاتی ہیں؟۔ حکومت کی ساری کارکردگی، اخباری بیانات پر مشتمل ہے۔حکومت اور پورے سرکاری امور کی کلید دو تین سرکاری افسران کے پاس ہے۔ قدوس بزنجو کے دماغ میں بیٹھا ہے یا بٹھایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ عوامی ہوتا ہے۔ تو اس طرح ذرائع ابلاغ پر بتایا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ آج فلاں جگہ بغیر پروٹوکول کے گئے اور عوام میں گھل مل گئے۔ 7جنوری کو گھٹنوں تک ربڑ کے لانگ شوز کے بندوبست کے ساتھ قمبرانی روڈ لے جائے گئے۔ یہ جوتے پہن کر قدوس بزنجو اور ہمراہی بارش کے پانی میں کھڑے ہوگئے۔ حالاں کہ یہ شعبدہ بازی کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بارش کے پانی کی بجائے وہاں کھڑے ہوجاتے جہاں پانی نہ تھا اور نکاسی آب اور صفائی کے انتظام کا حکم یا ہدایت کردیتے۔چناں چہ بیانات جاری ہوئے کہ وزیراعلیٰ بارش کے پانی میں اتر گئے۔ یہ کام میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر اور وزیر بلدیات کا ہے۔ وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی کو اگر عقل ہو تو یہ ان کے کام میں مداخلت ہے، بلکہ عندیہ ان کی کارکردگی پر سوال اٹھانے کا ملا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کے پیش نظر ضلع لسبیلہ کے اندر نیا انتخابی حلقہ بنانے کی ترکیب بھی ہے تاکہ وہاں سے اپنے بھائی کو منتخب کراسکیں۔
ہاں تو یاد رہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے سردار اختر مینگل کو فرار نہ ہونے دیا۔ ان پر بروقت کاٹ دار نقد کیا۔جام کمال عالیانی نے عبدلقدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد بی این پی ارکان اسمبلی کی جانب سے نشست پر بٹھانے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا کہ حلف کے بعد وزیراعلیٰ کو کرسی پر بٹھانا اور بی این پی کے سردار اختر مینگل کہتے ہیں ہم اس گناہ کا حصہ نہیں۔ بلوچستان کے لوگ قول و فعل کو آہستہ آہستہ دیکھ اور سمجھ بھی گئے ہیں۔ سردار اختر مینگل کو مخاطب کرتے ہوئے جام کمال نے کہاکہ ’’اگر آپ کا بیان درست ہے تو اس تاج پوشی کی تقریب میں بی این پی کے ارکان اسمبلی کیا کررہے ہیں۔ اسے گناہ بھی کہتے ہیں اور حصہ دار، شراکت دار اور مزے بھی لوٹتے ہیں۔ اس طرح کے ایک عمل میں آپ لوگ2018ء میں بھی شامل تھے۔ آپ کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘۔سردار مینگل کے اس بیان کے چند دن بعد 8جنوری کو اخبارات میں ان کی جماعت کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ کا بیان شائع ہوا ہے جس میں وہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت قدوس بزنجو کی حکومت سے اس لیے تعاون کررہے ہیں کہ وہ بلوچستان کے ساحل ، وسائل، تعلیم، صحت اور بے روزگاری کو ختم کرانے میں کام کررہی ہے۔‘‘ کیا یہ صوبے کے عوام سے ایک اور مذاق نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔