وجود

... loading ...

وجود

تندور بنتی دنیا!

منگل 11 جنوری 2022 تندور بنتی دنیا!

(مہمان کالم)

سینم سینگز

چھ کروڑ سال قبل ایک عظیم الجثہ سیارچہ زمین کے ساتھ ٹکرایا جس کی لگ بھگ ایک ارب نیوکلیئر بموں کی دھماکہ خیز توانائی نے پورے آسمان کو راکھ، دھول اور بخارات بن کر اڑ جانے والی چٹانوں سے ڈھانپ دیا، جو بتدریج کرہ ارض پر گرتا رہا۔ اس توانائی سے کرہ ارض پر موجود ہر قسم کے جانور اور پودے ایک ساتھ مر گئے، صرف زیر سمندر ننھے امیبا، جنہیں فورام بھی کہا جاتا ہے، نے تولید کا عمل جاری رکھا، کیلشیم اور زیر سمندر پائے جانے والے دیگر معدنیات سے مضبوط شیل بنائے۔ یہ فورام مرنے کے بعد بکھر کر سمندر کی تہہ کا حصہ بن گئے، انہوں نے فوسل شدہ شیل کی صورت میں کرہ ارض کی قدیم تاریخ کے ایک معمولی حصے کو زندہ رکھا۔ ان شیلز کا سائنس دانوں نے کئی عشرے مطالعہ کیا، اس سے انہیں قدیم کرہ ارض کے سمندری درجہ حرارت، کاربن کے تناسب اور مختلف معدنیات کی ساخت کے بارے میں اہم معلومات ملیں۔ سائنس جرنل میں شائع ایک نئی سٹڈی میں محققین نے فورام کے ہزاروں سمپلز کے کیمیائی عناصر کا جائزہ لیا، کرہ ارض کے ماحولیات کا ایک مفصل ریکارڈ تیار کیا، اور یہ انکشاف کیا کہ موجودہ موسمیاتی صورت حال کس قدر تشویش ناک ہے۔
نئی سٹڈی گہرے سمندروں میں عشروں سے جاری کھدائیوں کا نتیجہ ہے، جس کی تفصیلات سینوزوک دور سے شروع ہوتی ہے، جس کا آغاز چھ کروڑ 60لاکھ سال قبل ڈائناسور کی موت سے شروع ہوا جو کہ آج کے تاریخی دور تک پھیلا ہے جس میں انسانی عمل دخل موسم کو تبدیل کر رہا ہے۔ ا سٹڈی کے نتائج بتاتے ہیں کیسے کرہ ارض میں موسمیاتی تبدیلی کا عمل چار مختلف حالتوں سے گزرا، انہیں وارم ہاؤس، ہاٹ ہاؤس، کول ہاؤس اور آئس ہاؤس کا نام دیا گیا ہے؛ جو زمین کے محور، گرین ہاؤس گیسز کی سطح اور قطبین کی برفانی تہوں میں تبدیلیوں کا نتیجہ تھے۔
اسٹڈی کا زگ زیگ چارٹ ایک فکر انگیز اور پریشان کن انتہا کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ محققین کے مطابق انسانی عمل دخل کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ کی موجودہ رفتار اس قدرتی موسمیاتی اتار چڑھاؤ سے زیادہ ہے جو سینوزوک دور کے بعد دیکھنے میں آیا، جس میں زمین آئس ہاؤس کے مرحلے سے نکل کر بتدریج ہاٹ ہاؤس کی جانب آئی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر آف ارتھ اور پلانٹری سائنسز جیمز زاکوس جو سٹڈی کے معاون مصنف بھی ہیں، نے اپنے بیان میں کہا ’’ہم قدرتی موسمیاتی تغیرات کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی عمل دخل کے نتیجہ میں موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی تغیر سے کہیں وسیع ہوں گی‘‘۔ موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (آئی پی سی سی‘ کے اندازے کے مطابق معاملات اگر یونہی چلتے رہے تو 2300ء میں گلوبل درجہ حرارت اس سطح تک پہنچ جائے گا جو کہ کرہ ارض نے گزشتہ پانچ کروڑ سال میں بھی نہیں دیکھا۔ آئی پی سی سی اقوام متحدہ کا ایک گروپ ہے جو کہ کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔
نئے دور کا موسمیاتی نقشہ تیار کرنے کے لیے ا سٹڈی کے مصنفین نے گہرے سمندروں کی تہوں سے ملنے فورام شیلز کی فوسل کا جائزہ لیا جو کہ ٹیوب جیسی شکل کی لمبی چٹانوں پر مشتمل تھے، جس پر رسوبی مادے اور جراثیموں کی تہیں چڑھی تھیں۔ انہیں گزشتہ چند عشروں کے دوران تمام سمندروں کی تہوں سے ڈرلنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ فورامز خوردبینی جاندار ہیں جن کے قدیم ترین رشتہ دار لگ بھگ ایک ارب سال قبل سمندر میں ظاہر ہوئے؛ سمندروں کی گہری تہوں کی کھدائی کے نتیجے میں سائنسدانوں کو فورامز کے قدیم ترین نمونے ملے۔ مختلف فورام شیلز میں کاربن اور آکسیجن کے آئیسوٹوپس کے تناسب نے سائنسدانوں کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔ جیسے کہ آکسیجن کے آئیسو ٹوپ آکسیجن 18 اور آکسیجن 16 بتاتے ہیں کہ فورام جس وقت اپنے شیل بنا رہے تھے، ان کے گرد موجود پانی کس قدر گرم تھا، تناسب کے زیادہ ہونے کا مطلب پانی کا ٹھنڈا ہونا ہے۔ کاربن 13 اور کاربن 12 کے درمیان تناسب بتاتا ہے کہ جرثوموں کے کھانے کے لیے کتنی زیادہ نامیاتی کاربن موجود ہوتی تھی؛ زیادہ تناسب کا تعلق ماحول میں زیادہ گرین ہاؤس گیسز سے ہے۔
چونکہ ا سٹڈی کا موسمیاتی ریکارڈ ایک ناقابل یقین طویل ترین دور کا احاطہ کرتا ہے، محققین نے کرہ ارض کے موسم پر فلکیاتی اثرات پر بھی غور کیا، جیسے کہ زمین کیسے محور تبدیل کرتے ہوئے بتدریج سورج کی جانب جھک رہی ہے، اور مختلف وقتوں میں کرہ ارض کے مختلف حصوں پر دھوپ کے زیادہ مقدار میں پہنچنے کے کیا اثرات مرتب ہوئے، اس عمل کو میلانکووچ سائیکلز کے نام بھی جانا جاتا ہے۔ جب محققین نے محور کے اعداد و شمار کو آئیسوٹوپک موسمیاتی اعداد و شمار سے ملا کر جائزہ لیا تو دیکھا کہ محوری تغیرات عالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر انتہائی معمولی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ موسم کی مختلف حالتوں کے مابین واضح تبدیلی صرف گرین ہاؤس گیس کی سطحوں میں بڑے پیمانے پر تغیر کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈائناسور کے ناپید ہونے کے ایک کروڑ سال بعد کرہ ارض وارم ہاؤس کی حالت سے ہاٹ ہاؤس کی حالت میں داخل ہوا۔ اسے پالیوسین آئیوسین حرارتی حد کہا جاتا ہے جس میں درجہ حرارت میں 29ڈگری فارن ہائٹ سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا۔ زاکوس کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ماحول میں بڑے پیمانے پر کاربن کے اخراج سے رونما ہوئی، اسے شمالی اوقیانوس کے علاقے میں وسیع پیمانے پر آتش فشاؤں کے پھٹنے کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگلے دو کروڑ سال تک ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ غائب رہی، بحیرہ منجمد جنوبی میں برف کی تہیں بننا شروع ہوئی اور کرہ ارض کول ہاؤس کے مرحلے میں داخل ہو گیا، جس میں سطح زمین کا اوسط درجہ حرارت جدید معیار سے 7فارن ہائٹ اوپر تھا۔ لگ بھگ تیس لاکھ سال قبل زمین آئس ہاؤس کے مرحلے میں داخل ہوئی، جس کی وجہ زمین کے شمالی حصے میں برف کی تہوں کا بڑھنا گھٹنا تھا۔
آج انسانی گرین ہاؤس سے گیس کا اخراج جس تیزی سے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، کروڑوں سال کے دوران ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ محققین کے مطابق اس اضافے کی رفتار زمینی محور میں تبدیلی جیسے قدرتی تغیرات سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر موجودہ گرین ہاؤس اخراج کا تسلسل جاری رہتا ہے تو آب و ہوا تیزی سے اس سطح تک پہنچ سکتی ہے جو کہ پالیوسین آئیوسین زیادہ سے زیادہ حرارتی حد میں نہ دیکھی گئی تھی۔ پروفیسر زاکوس کے مطابق اب آئس ہاؤس سے ہاٹ ہاؤس کی تبدیلی میں کروڑوں سال نہیں لگیں گے، بلکہ یہ کام سیکڑوں سال میں ہو گا۔
سٹڈی کے مصنف اور جرمنی کی بریمن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ماحولیاتی سائنسز ٹامس ویسٹرہولڈ کہتے ہیں ’’آج ہم بہتر طور پر جانتے ہیں کہ کرہ ارض کب گرم یا سرد تھا، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سے عوامل ان تبدیلیوں کی وجہ بنے۔ 6 کروڑ 60 لاکھ سال سے تین لاکھ 40 لاکھ قبل کا زمانہ خاص دلچسپی کا حامل ہے جس میں کرہ ارض آج کی نسبت انتہائی گرم تھا، اور موجودہ انسانی عمل دخل مستقبل میں اسی قسم کی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر