وجود

... loading ...

وجود

بھارتی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مخصوص قانون کی ضرورت

هفته 08 جنوری 2022 بھارتی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مخصوص قانون کی ضرورت

(مہمان کالم)

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

حالیہ دنوں میں بھارت بھرمیں مسلم اقلیت کے خلاف علی الاعلان نسل کشی کی نفرت انگیز تقریریں، مسلم و عیسائی مذہبی عبادت گاہوں پر حملے اور پولیس و انتظامیہ کے ساتھ ہی عدلیہ کی خاموشی نے ایک بار پھر اس بحث کو ازسر نو جلا بخشی کی کیا ہندوستان میں اقلیتوں خصوصا مسلم سماج کے خلاف ظلم و زیادتی نیز استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قدغن لگانے کے لیے کسی مخصوص قانون کی ضرورت ہے؟ اس سے قبل اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ‘‘فرقہ وارانہ پالیساں اور تنگ سیاسی ایجنڈوں کی وجہ سے پہلے سے ہی غیر مساوی سماج کے کمزور طبقات مزید درکنار کیے جارہے ہیں’’۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی سماج صدیوں سے فرقہ واریت کا شکار رہا، چاہے وہ فرقہ واریت ذات پات کی بنیاد پر رہا ہو یا مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد رہی ہو۔ آزادی کے بعد ایک عوامی و جمہوری دستور اور دستوری حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دستور کا بنیادی مقصد بھی یہی رہا کہ صدیوں سے جس طرح پورا سماج مختلف غیر مساوی درجات میں منقسم ہے اس کو ایک مساوی سماجی دھارے سے جوڑا جائے جہاں ہر ایک کو مساوی مواقع حاصل ہوں، ایک ایسا سماج تشکیل دیا جائے جہاں حکومتی پالیسیاں سماج کے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود نیز ان کی آزادی و تحفظ کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائیں تاہم حکومتیں اور ان کی پالیسیاں روز اول سے ہی ناکام رہیں جس کی وجہ شاید سماج کی صدیوں پرانی وہ ذہنیت تھی جو نئے دستور کے ساتھ بدل نہیں سکی تھیں۔
ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اتنے مختلف مذاہب، زبان، تہذیب، نسل اور ذات پات کے نظام پائے جاتے ہیں، ہر مذہب میں مختلف و متنوع رسم و رواج اور خیالات موجود ہیں۔ ہندو اکثریتی ملک میں ایک طویل مدت تک مسلم حکومت کی وجہ سے مسلم اقلیت میں ہونے کے باوجود شدت پسند ہندو تنظیموں اور جماعتوں نے مسلم اقلیت کو اکثریت کے سامنے ایک دشمن کی حیثیت سے پیش کیا، چنانچہ مسلم اقلیت کو ایک سیاسی حریف یا دشمن کے طور پر پیش کرکے سیاست کا ایک حربہ بنایا گیا، منظم انداز سے اس قوم کو تعصب و تشدد کا شکار بھی بنایا گیا۔
دلتوں کی سماجی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے اور بی آر امبیڈکر کی ایک منظم کوشش کے تحت دلتوں کو تو دستور نے خصوصی مراعات فراہم کردیں تاہم مسلم و عیسائی اقلیت کی ناکام قیادت کی وجہ سے 1950 میں ہی یہ اقلیتیں حکومت کے تعصب کا شکار ہوگئیں جب ریزرویشن پرصدارتی آرڈر کے ذریعے مسلم و عیسائی دلتوں کو اس سے باہر کردیا گیا، یعنی ایک دلت جو صدیوں سے استحصال کا شکار رہا جب تک ہندو مذہب کا ماننے والا ہوگا اس کو ریزرویشن کی مراعات ملیں گی تاہم اگر وہی شخص جس کو پسماندگی کی وجہ سے مراعات ملی تھیں وہ عیسائی یا مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کو حاصل تمام ترمراعات مذہب کی بنیاد پر چھین لی جاتی ہیں، یعنی اس کے ساتھ مذہب کے نام پر تعصب یا تفریق کا رویہ اختیار کیا گیا۔
فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے واقعات ہندوستان کے لیے ہرگز نئے نہیں ہے تاہم گزشتہ برسوں میں خصوصا موجودہ مودی دور حکومت میں جس طرح کا خوف و دہشت کا ماحول ہم دیکھ رہے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مسلم قوم کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات 1947میں ملک کی تقسیم کے موقع پر ہوئے جو 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں مزید بڑھے جس کی ایک اہم وجہ بابری مسجد اور رام مندر کا تنازع تھا، تشدد پسند ہندتوا تنظیموں کامقصد اگر سیاسی طاقت حاصل کرنا تھا تو برسراقتدار سیاسی جماعت کے نرم رویہ اختیار کرنے کے پیچھے اکثریتی طبقات کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش تھی، یہی وجہ ہے کہ کمیونل وائلنس بل پارلیمنٹ میں اکثریت کے باوجود پاس نہیں ہوسکا جب کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف اقلیتی قوم عیسائی بھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوتے رہے، ان کے اوپر الزام لگا کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کے ذریعے صدیوں سے ظلم و زیادتی کے شکار پسماندہ دلتوں و قبائلیوں کے مذہب کو تبدیل کرانے کی کوشش کررہے ہیں، عیسائی پادریوں پر حملے ہوں یا چرچ اور اس کی مذہبی سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمی ہے بلکہ تبدیلئی مذہب کی روک تھام کے نام پر قوانین بناکر مذہب کی تبلیغ و تشریع کی دستوری آزادی پر نہ صرف پابندی عائد کرنے کی کوشش جاری ہے بلکہ عیسائیوں اور ان کے مذہبی مقامات و سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات تیزی سے بڑھ رہیہیں۔
اقلیتی طبقات کے استحصال کی تاریخ ایک طویل عرصے پر محیط ہے، یہ استحصال صرف اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے شدت پسند سیاسی جماعتوں یا اداروں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ حکومت و حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے اقلیتی طبقات سے نفرت کرنے والے عناصر کے ذریعے زیادہ منظم انداز میں کیا گیا ہے، جنہوں نے نہ صرف استحصال کیا ہے بلکہ استحصال کرنے والی جماعتوں اور افراد کی سرپرستی و پشت پناہی بھی کی ہے جس کا اعتراف نہ صرف یک بعد دیگرے بے شمار کمیشن کی رپورٹوں میں کیا گیا ہے بلکہ مختلف صوبوں کے ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سیپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلوں میں کیا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے استحصال کے اکثر و بیشتر واقعات کے پس منظر میں سیاسی فوائد یا سیاسی حربے روپوش ہوتے ہیں، ہمارے آزاد ملک میں عام انتخابات پہلی بار 1951 میں ہوئے اور ان انتخابات سے پہلے رپریزینٹیشن ا?ف پیوپلس ایکٹ (1951) کا قانون بنا جس کی دفعہ 123 اور اس کی ذیلی شقات میں صاف طور پر یہ درج کیا گیا کہ کسی بھی امیدوار یا اس سے منسلک کسی بھی شخص کے ذریعے مذہب، نسل، ذات، قوم یا زبان یا اس سے متعلق کسی بھی نشان، قومی جھنڈییا کسی بھی طرح کی نفرت آمیز خیالات و جذبات کو بھڑکا کر مختلف طبقات کے درمیان مذہب، نسل، ذات، قوم یا زبان وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ لینے کی کوشش کو کرپٹ پریکٹس تسلیم کیا جائے گا’’۔ لیکن افسوس کہ ا?ج کا پورا سیاسی نظام اور اسکی سرگرمیاں نیز کسی بھی قسم کی میڈیا اور اس کا طریقہ کار ہمارے سامنے ہیجس کو نہ تو سماجی بھائی چارے کی فکر ہے اور نہ ہی قانون و عدلیہ کا خوف۔
دستور میں اقلیتی طبقات کے مذہبی حقوق سے متعلق اہم آرٹیکل 14,15,16,21,25,26,27,28,29,30 کے علاوہ انڈین پینل کوڈ کی دفعات 153A، 295Aاور 296 کے علاوہ کرمنل پروسیجر کوڈ میں بھی اہم دفعات موجود ہیں جن کے تحت اقلیت کے مذہبی حقوق کا تحفظ نیز کسی بھی قسم کے استحصال کی صورت کا بخوبی سامنا کرسکیں، موب لنچنگ اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو لے کرسپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا کے اہم فیصلہ میں صوبائی حکومتوں کے لیے اہم رہنما اصول پیش کیے تھے جن میں ایک مخصوص قانون بنانے کی بھی تجویز پیش کی تھی کہ فرقہ وارانہ تشدد یا اقلیتی طبقات کے استحصال اور ان کے ساتھ ہر طرح کے تشدد و تعصب کا سامنا کرنے کے لیے ایک منظم و مخصوص قانون کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جن مسائل کا ہم تذکرہ کررہے ہیں یہ ایک سماجی مسئلہ اور قانونا جرم کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ کسی بھی جرم یا کرائم کی صورت میں ہمارے دستور و قوانین نے کرمنل جسٹس سسٹم بنایا ہے۔ بیشمار سرکاری تحقیقات اور رپورٹ سے ثابت ہے کہ پولیس کے ذریعے اقلیتی طبقے کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے میں مجرمانہ حد تک ٹال مٹول اور تاخیر، بلکہ بے شمار معاملات میں جھوٹی اور غلط ایف آئی آر جس کا سیدھا فائدہ ملزمین و مجرمین کو حاصل ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم جب متاثرہ افراد ایف آئی آر درج کرانے کے لیے عدالت کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی تاخیر تادم اخیر ہوتی ہے۔ پولیس کا کام کیس کی ایماندارانہ تفتیش کرنا ہوتا ہے، تاہم یہ سچ ہے کہ جرائم اگر اقلیت کے خلاف سرزد ہوئے جس کے پس پشت سیاسی مقاصد ہوں تو صاف شفاف جانچ دور کی بات ہماری اعلی عدالتوں کی فائنڈنگ ہے کہ پولیس پشت پناہی کرتے ہوئے مجرمین کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کرتی ہے۔
نظام عدلیہ کا قیام امن و انصاف کا قیام یقینی بنانے کی غرض و غایت سے ہوا، انصاف کا نظام پائیدار بنانے کے کچھ بنیادی اصول ہیں جن میں اہم ترین ہیں کہ متاثر شخص کی حفاظت یقینی ہو، کرمنل مقدمات کی روح ان مقدمات کے گواہ ہوتے ہیں جن کی حفاظت انصاف کی حفاظت کے مانند ہے، مقدمات میں تاخیر کا مطلب انصاف دینے سے انکار کے مترادف تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتی طبقات کی موجودہ صورت حال کے لیے فرقہ واریت ناسور بنتی جارہی ہے، اقلیتی طبقات کے خلاف حکومت اور حکومتی اداروں کا رویہ نیز ان کی پالیسیاں سیاسی مفاد کے لیے فرقہ وارانہ تشدد کی پشت پناہی کررہی ہیں، کسی بھی طرح کی کوئی جواب دہی کا نظام یا شکل موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے پولیس، انتظامیہ اور حکومتوں کے ساتھ ہی عدلیہ بھی اس مذہبی تشدد اور اقلیتی تحفظ کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی ہیں۔
ْْْْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر