وجود

... loading ...

وجود

کون بنے گا نیا وزیر اعظم ؟

منگل 04 جنوری 2022 کون بنے گا نیا وزیر اعظم ؟

پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف تحریک پر غور کررہی ہیں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے آئندہ دو ماہ کے دوران پی ڈی ایم اپنے جلسے جلوسوں کے ذریعے دبا ئو بڑھانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ 23؍ ما رچ کو مہنگائی کے خلاف اسلام آباد آباد کی جانب لانگ مارچ ہوگا ۔ 27 ما رچ کو خیبر پختون خواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے اس لانگ مارچ کے ملتوی ہونے کے امکانات ہیں ۔دو سری جانب پیپلز پا رٹی پانچ جنوری سے پنجاب میں ایک بھرپور مہم کی تیاری شروع کرچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آ صف زرداری ایک ایسی حکمت عملی پر عمل کررہے جس کے ذریعے پنجاب کی تقریباً پچاس فیصد سے زائد نسشتوں پر آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی جائے ۔ادھر مسلم لیگ نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے تاکہ پنجاب پرایک مرتبہ پھر اپنی گرفت مضبوط کرکے ملک میں اقتدار حاصل کرلیا جائے۔
پختون خواہ کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اپوزیشن کی جماعتوں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام( ف) کے سربراہ کا حوصلہ بڑھ گیا ہے اور وہ بھی خود کو وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس مرتبہ وہ مسلم لیگ ن سے بھی ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں انہیں وزیر اعظم یا کم ازکم اقتدار میں بھاری حصہ دیا جائے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ان کا کوئی کام نہیں روکا جاتا تھا، وہ اپنی فائلوں کو آسانی سے وزیراعظم یا دیگر صوبائی حکومتوں سے منظور کرالیتے تھے ۔لہٰذا وہ اس سے کم کسی پوزیشن کے لیے آماہ نہیں ہونگے ۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لیے کسی نام پر متفق نہیں ہیں جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر سے تبدیلی لائی جاسکے۔ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں متبادل وزیر اعظم کا نام پیش کرنا ہوگا،دوسری صورت پس پردہ معاملات ہیں۔اس کے لیے بھی جوڑ توڑ میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی حمایت درکار ہوگی۔ پیپلز پارٹی ایسے ایک فارمولے کی تیاری کر رہی تھی کہ حیرت انگیز طور پر اچانک مولانا فضل الرحمان کے سخت رویے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے مجبوراً علیحدگی اختیار کرنی پڑی ۔ شاید خطے کے حالات کی وجہ ملک کی مقتدرہ قوتیں اور عالمی طاقتیں ایسی صورت حال کے لیے آمادہ نہیں تھیں لیکن اس مرتبہ پیپلز پارٹی ہر قوت کی آشیرباد سے میدان میں آنا چاہتی ہے۔
عمران خان کی حکومت مہنگائی کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہی ہے وزیراعظم عمران خان کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاتا اور سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ ان کا عوام اور پارٹی کارکنوں سے رابطہ قریباً ختم ہو چکا ہے ۔ اس لیے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اپنی اپنی کامیابی کی امید نظر آرہی ہے لیکن مولانا فضل ا لرحمان بھی اس امید پر ہیں کہ کسی کی واضح اکثریت نہ ہوئی تو وہ وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ ایسے حالات پیدا ہونے کی صورت میںشہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی، چودھری پرویز الٰہی اور خورشید شاہ بھی وزیر اعظم کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں برطانوی طرز کا جمہوری نظام صرف نام کا جمہوری نظام ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سابق صدر پرویز مشرف سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت کا کیا ہوگا تو انہو ں نے جواب دیا کہ جلد ہی جمہوریت کا لیبل بھی لگا دیا جائے گا۔ اس کے بعد انہوں نے انتخابات میں مسلم لیگ ق اورپیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو اسمبلیوں میں پہنچنے کا موقع دیا اور پہلے میر ظفراللہ جمالی ، چودھری شجاعت اور بعد ازاں شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنادیا گیا ۔بہر حال موجودہ جمہوری نظام میں عوام کی شرکت صرف ووٹ دینے کی حد تک محدود ہے ۔تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتو ں میں شخصی یا خاندانی حکمرانی ہے۔ بلدیاتی اداروں کے پاس اختیار نہیں۔ ملک کے اہم ترین مسائل خصوصاً غربت ،بے روزگاری ،ناخواندگی ،بڑھتی ہوئی آبادی،ماحو لیاتی آلودگی ،صحت عامہ کے لیے ہسپتالوں اور دیگر سہولیات کی کمی،بجلی، گیس، پیٹرولیم کی مصنوعات اور اشیائے صرف کی ہوش ربا مہنگائی اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے پر کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی ٹھو س منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ان مسائل کو صرف نعرے بازی کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے ۔
کسی ملک کی بقا اور دفاع صرف معاشی اور سیاسی استحکام کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے لیکن اس وقت سیاست ذاتی مفادات کے ایسے بھنور میں ہے جس سے نکلنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کی تبدیلی کے لیے بھی متبادل نام پر اتفاق نہ ہونا اس کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ پاکستا ن میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے رسہ کشی کاموجودہ سلسلہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے جاری ہے ۔ملک بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں خطے کے حالات،پس پردہ طاقتور حلقوں اور بین الاقومی سیاسی منتظمین کا اہم کردار کار فرما ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ بات 2018 میں مولانا فضل الرحمان کو سمجھ میں نہ آ سکی اور انہوں نے اس وقت کے نو منتخب اراکین اسمبلی کو اسمبلیوں سے باہر رہنے اور حلف نہ اٹھانے کا عجب مشورہ دیا جو فوری طور پر رد کردیا گیا اور اب وہ مقتدر قوتوں کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں کہ انتخابی نتائج ان کی مرضی کے مطا بق ہوں۔ ساتھ ہی انہیں وزیر اعظم بنانے کی راہ ہموار کی جائے ۔ شا ید اب وہ سمجھ چکے ہیں کہ آئندہ کا سیاسی ڈھانچہ خطے کے حالات کی مناسبت سے وہی قوتیں طے کریں گی جو ہمیشہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان کے مخصوص جغرافیائی محل وقوع خصوصاً پڑوسی ممالک ایران ،افغانستان،چین اوربھارت کے حالات کے سبب دنیا بھر کی اہم قوتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔حال ہی میں روس اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری بھی ایک نئی صورت پید ا کر چکی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا پاکستان سے اپنے روابط کو مزید استوار کرنا چاہتاہے موجودہ حالات میں آصف زرداری اور ان کی ٹیم نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر روابط تیز کردیے ہیں اور وہ اپنی پالیسی میں ایسی لچک دکھا سکتے ہیں کہ ہر شرط کو تسلیم کرلیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ بلاول کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے۔ لیکن دیگر کھلاڑی بھی اپنا دائو آزمارہے ہیں۔کوئی بعید نہیں کہ ایک اجنبی نام سامنے آجائے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر