... loading ...
زوال آمادہ قوموں کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنا بدترین باربار دُہراتی ہیں۔اُن کا حرفِ غلط مٹتا ہی نہیں۔ اُن کے اندر انفرادی واجتماعی سطح پر خود درستی کا عمل جامد ہوجاتا ہے۔ وہ بھیانک ماضی بتکرار دُہراتی ہیں،اور اس کی قیمت کا اندازا کھو دیتی ہے۔ پاکستان مسلسل ایک ایسے گرداب میں ہے جہاں غلطیاں گھمن گھیری ڈالے اجتماعی نظام کو اپنی لپیٹ میں رکھتی ہے۔جنرل ضیاء کے بعد ”جہاز فضاء میں پَٹ گیا” والے صدرِ ذی وقار غلام اسحاق خان کے ہاتھوں حکومتیں فضا میں پھٹتی رہیں۔آٹھویں ترمیم تلے پارلیمنٹ جن قوتوں کے ہاتھوں یرغمال رہیں، تب اُنہیں ”نادیدہ” قوتیں کہاجاتا تھا۔ صحافت کی دید میں کچھ شروحیا تھی اور سوشل میڈیا کا بے لگام گھوڑا کسی کے ہاتھ نہ لگاتھا۔ چنانچہ پردے کے پیچھے، نادیدہ اور خفیہ قوتوں کے الفاظ سے کام چلالیا جاتا۔ ان الفاظ کے استعمال سے بین السطور معانی پیدا کرنے والے بڑے قلمکار کہلاتے۔سچ تو یہ ہے کہ تب جرنیل بھی اپنی چَھب دکھلانا پسند نہ کرتے تھے،آج کی طرح وہ کوئی ”میڈیا ڈارلنگ ”بننے کے شوقین نہ تھے۔ اس دھند آلود قدرے احترام کی فضاء میں نوے کی دہائی اس بحث میں گزر گئی کہ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو میں اصل محب وطن کون ہے؟ آٹھویں ترمیم تلے پارلیمنٹ میں ہنگامے برپا ہوتے، اور حکومتیں ذبح ہوتیں۔ کرپشن تب بھی وجہ ہوتی، مگر وہی پسِ پردہ بریفنگ میں یہ ”راز” افشاء کیا جاتا کہ فلاں کے بھارت میں روابط قومی سلامتی کے تقاضوں کو پامال کرنے کی حد تک چلے گئے تھے۔ آپ کو راجیو گاندھی کا دورہ تو یاد ہوگا، اُن کے ساتھ بے نظیر بھٹو کے روابط کے بارے میں کیا کیا کہانیاں تخلیق نہ کی گئی تھیں؟ یہ سارے کام ”عظیم قومی فریضے” کے طور پر سرانجام دیے جاتے۔تب بے نظیر بھٹو کو بھارت کی جانب جھکاؤ رکھنے والی وطن دشمن رہنما کے طور پر پیش کرنے والے کون تھے؟ وہ پس ِپردہ جو کوئی بھی تھے، سرعام یہ تقاریر کوئی اور نہیں، جناب نوازشریف فرماتے!تب صحافت میں دائیں بائیں بازو کی تقسیم اس بحث میں بھی منقسم رہتی۔
نوازشریف حب الوطنی کے کوہِ ہمالیہ پر قدم رنجہ رہتے۔ نادیدہ قوتیں اُن کی دست وبازو رہتیں۔آٹھویں ترمیم کی تلوار تیز ہوتی رہتی۔ پھر اچانک اسکینڈلز آنے شروع ہوجاتے، اور حکومتیں ڈھ پڑتیں۔ ہم صحافی حکومتوں کے چل چلاؤ کے ہنگام کچھ خبریں قبل از وقت نکال لاتے اور ”باخبر” ہونے کی پھنے خانی کرتے رہتے۔ یہ کھیل پردے پر دکھائی دینی والی کٹھ پتلیوں کے بیچ رہتا۔ اصل بحث کبھی نہیں ہوئی۔ یاللعجب! نوازشریف بے نظیر بھٹو پر جو الزامات لگاتے، وہی ، جی ہاں بالکل وہی الزامات نوازشریف پر لگنے لگے۔ اب وہ بھارت کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ایک رہنما ہی نہ تھے، بلکہ بھارت سے کاروباری تعلقات رکھنے والے ایک مشکوک رہنما کے طور پر بھی پیش کیے جانے لگے۔اٹل بہاری واجپائی کی لاہور اور نریندر مودی کی رائے ونڈ آمد کے درمیان کہانیاں ہی کہانیاں سننے کو ملتی رہیں۔ بات یہاں تک محدود نہ رہی، اُن کے کچھ ایسے ”روابط” بھی دریافت کیے جانے لگے جو فلم کو ”مزیدار”بنانے کے کام آتے۔ مثلا! گانے اور فلموں میں اُن کی دلچسپیاں بھارتی گلوکاراؤں اور اداکاراؤں سے اُن کے ”مراسم”کی کہانیوں کو جنم دینے لگیں۔ نواشریف ہمیشہ سے ”غیر نصابی” سرگرمیوں کے شوقین رہے ہیں، مگر تب دائیں بازو کے کالم نگار اُن کے ہر وقت باوضو ہونے کی کہانیاں بھی ساتھ گھڑتے رہتے۔ یہ سب کچھ ایک ساتھ کیسے ہوجاتا، اور اس پر سب یقین بھی کیسے کرلیتے، اس کے لیے کم ازکم ایک ڈاکٹریٹ کا مقالہ تو بنتا ہی ہے۔ مگر اہم بات یہاں یہ بھی نہیں، اصل نکتہ یہ ہے کہ نوازشریف نے بے نظیر بھٹو کو جس تلوار سے شکار کیا، حب الوطنی کے نام پر وہی تلوار جناب نوازشریف کی گردن پر بھی گری۔ذریعہ آٹھویں ترمیم کی اٹھاون ٹوبی بنتی۔ سب کچھ قومی مفاد میں لگتا۔ ماضی بار بار سامنے آتا۔ قوم قیمت چکاتی ، مگر اُنہیں معلوم ہی نہ ہوا کہ وہ کیا کیا کچھ کھوتے جارہے ہیں۔ المیے جنم لیتے وقت آہٹ پیدا نہیں کرتے۔
اب کسے یاد رہا!جمہوریت کے علمبرداروں نے سودے بازی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا جو اختیار جنرل ضیاء الحق کو آٹھویں ترمیم کے ذریعے دیا تھا ،وہ کس طرح اُن کو کھڈیڑتا رہا۔جنرل ضیاء الحق نے اس اختیار کو 29 جولائی 1988 کو پہلی بار محمد خان جونیجو کے خلاف استعمال کیا، لطف یہ ہے کہ محمد خان جونیجو کی حکومت نے ہی یہ اختیار محترم جنرل کو دیا تھا۔ تالیاں تو ہونی چاہئے۔ نوے کی دہائی میں یہ اختیار تین بار استعمال ہوا۔ جس میں دو مرتبہ تو اکیلے غلام اسحاق خان نے باری باری بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو چلتا کیااور ایک مرتبہ فاروق لغاری نے دوسری دفعہ بے نظیر بھٹو کو شکار کیا۔ مگر ہر دفعہ شکار ہونے والے کے مخالف فریق کی حمایت نادیدہ قوتوں کو حاصل رہی۔ نواشریف اس کھیل کے سب سے آزمودہ آلۂ کار رہے۔ یہ کھیل 1997ء تک جاری رہا یہاں تک کہ تیرہویں ترمیم کے ذریعے صدرِ مملکت سے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ اب ایوان صدر قائم کیوں ہے؟ وہ کام کیا کرتا ہے؟اور اس پر ایک غریب قوم کے اربوں روپے سالانہ خرچ کیوں کیے جاتے ہیں؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ایسا نہیں ہے کہ 1997ء کے بعد پارلیمنٹ نے اپنے مقتدر ہونے کے عمل کو مکمل کرلیا۔ آج بھی حکومتوں کے قبل ازوقت جانے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ اور وہی پتلی تماشا جاری ہے۔ ماضی مٹتا ہی نہیں۔ اب اِس کھیل کو نئے انداز سے مرتب کرلیا گیا ہے، جس میں شاطر کے ارادے کو فرزیں سے بھی پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ دوسال بعد پرویز مشرف کے ہاتھوں نوازشریف 1999ء میں محلاتی سازشوں اور پسِ پردہ کھیلوں کے شکار ہوکر ایک منظم استبداد کے شکار ہوئے۔ مگر مشرف دور میں بھی ظفر اللہ جمالی اپنی مدت پوری نہ کرسکے، چودھری شجاعت حسین کے عبوری وقفے کے بعد وزارت عظمیٰ کا ہما شوکت عزیز کے سر بٹھا دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک صدر ہے، وہ وردی میں ہے، پالیسیاں بھی اُن کی ہیں تو پھر بھی ایک وزیراعظم پانچ سال کا تسلسل کیوں نہیں پاتا؟یہ اُکتاہٹ کیوں؟
اب یوسف رضا گیلانی کو لے لیجیے! اُنہوں نے تو چار سال 86روز وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر گزار لیے تھے، اب دن ہی کیا باقی رہ گئے تھے، مگر اُنہیں عدالت کے ذریعے شکار کیا گیا۔ بقیہ275 دنوں کے لیے ایک اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سامنے آگئے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو رخصت کرنے کے لیے عدالتی جنگ کا جو ڈول ڈالا گیا، اس میں نوازشریف بھی کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ تشریف لے گئے تھے۔ برسبیل تذکرہ! تب اُن کے ہاتھ میں جو فائل تھی، وہی فائل نادیدہ قوتوں نے دوسرے سیاست دانوں کو بھی دی تھی، مگر تیار نوازشریف ہوئے۔نوازشریف کی تب کی تقاریر بھی سن لیجیے، وہ کیسے یوسف رضا گیلانی پر گرج برس رہے تھے۔ وہی یوسف رضا گیلانی نوازلیگ کے 83 ووٹ لے کر دوبارہ سینیٹ کے ذریعے ایوان میں داخل ہوسکے۔ ماضی کے اس بار بار کے اعادے سے ہمارا مستقبل منحوس دائرے میں گردش کرتا ہوا ہمیں دُہرائے گئے مناظر ہی دکھاتا ہے۔
تحریک انصاف کے کھیل میں داخل ہونے کے بعد کچھ ترامیم واضافے کے ساتھ سب کچھ وہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ بھی حالتِ تصادم میں رہتے ہوئے اپنے ماضی کو دُہراتے ہیں تو عمران خان کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بولے جانے والے فقرے اب خود تحریک انصاف کے خلاف حزب اختلا ف کے رہنما دُہراتے ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تب وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ اپوزیشن متحد ہوکر پارلیمنٹ کی تکریم کے جو بھاشن دیتی تھی، اب وہی بھاشن عمران خان اور اُن کے وزراء دیتے پھر رہے ہیں۔ اگر اتنا ہی ہوتا تو کافی تھا، مگر عمران خان ایمپائر کی جس اُنگلی کا ذکر کرتے تھے اور دوسری طرف پارلیمان کی بالادستی کے ساتھ شہری اور عسکری تنازع کے ذکر میں جس بالادستی کا رونا روتے تھے، اب اُسی ٹیڑھی اُنگلی سے عمران خان حکومت کے مشکل گھی کو نکالنا چاہتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ سول بالادستی کے نام پر نواز شریف کا ساتھ دینے والے دانشور، تجزیہ کار ، کالم نگار، وی لاگرز بھی عمران خان کے مستقبل کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی کیفیت یا اقدامات نہیں دیکھ رہے، بلکہ وہ اُسی ایمپائر کی اُنگلی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پھر اس کھیل میں کس کے ہاتھ کیا لگا؟ نوے کی دہائی میں قید سیاست رہا کیسے ہوگی؟ پھر سیاست دانوں نے صرف دل کے پھپھولے ہی پھوڑے۔ پھر یہ لڑائی ہم بستر سیاست میں صرف کمبل چرانے کی ہی رہ جاتی ہے۔ عمران خان رہیں یا نہ رہیں سیاست کے ان تیوروں میں بلااستثنیٰ تمام کے تمام سیاست دان صرف منحوس دائروں کے قیدی ہی دکھائی دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭