... loading ...
رفیق پٹیل
چین ،روس اور امریکا کے درمیان جنگ سے گریزاور دنیا کے مختلف ممالک کے تنازعات کے پر امن حل کے بارے میںعدم اتفاق کے نتیجے میں عالمی جنگ کا خطرہ بڑھتا جارہاہے لیکن اس سے بھی بڑا خطر ہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے ہے جو اس وقت پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اس صورت حال کی وجہ سے قدرتی دنیا اورفطرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بڑھتی ہوئی انسانی سرگر میوں اور دنیا کے تقریباً تمام معاشروں کی فطرت سے دوری نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیاہے اس وقت دنیا بھر میں چالیس فیصد انسانی اموات کاتعلق آلودہ ہوا ،پانی اور دھول مٹی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہے زمینی تناسب کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی زائد آبادی اس بربادی میں مزید اضافے کا باعث ہے عالمی خطرات ، بین الاقوامی تنازعات اور ماحولیات کے بارے میںاپنی کتابو ں سے شہرت حاصل کرنے والے ممتاز امریکی مصنف اسٹیورٹ ایم پیٹرک نے رواں ماہ میں تحریر کیے گئے ایک کالم میں اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے 2015کے پیرس معاہدے میں جس کا مسودہ 7200الفاظ پر مشتمل ہے اسی مسودے میں حیرت انگیز طور پرحیاتیاتی ایندھن (FOSSIL FUEL) کی اصطلاح کا کوئی تذکرہ نہیںہے نہ ہی اس میں کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس کے الفاظ شامل ہیں جب کہ یہی وہ ذخائر ہیں جس کے استعمال سے زہریلی گیسوں کا اخراج جاری ہے اس اصطلاح اور الفاظ کا مسودے سے اخراج نہ تو اتفاقیہ عمل تھا نہ ہی حادثاتی طور پر ایسا ہوا تھا در اصل یہ دنیا کے مختلف ممالک کے فیصلوں کی عکاسی تھی جس میں بڑے صنعتی گروپوں اور بین الاقوامی کارو باری اداروں کے اثرو رسوخ کے اثرات کا بہت بڑا عمل دخل تھاجو نہیںچاہتے تھے کہ کہ حیاتیاتی ایندھن کی رسد میں کمی کی جائے یاتیل،قدرتی گیس اور کوئلے کے ذخائر کو زمین سے نکالنے کے عمل پر قد غن لگائی جائے15 اکتوبر 2021کو ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی شہرت یافتہ سماجی کارکن زیپورا برمن(TZEPORAH BERMAN ) نے امریکی میڈیا کانفرنس کے ایک مذاکرے میںمختلف ممالک کے دہرے معیا ر پر تنقیدی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہوئے وضاحت کی کہ دنیا زہریلی گیسوں کے اخراج پر زور دیتی ہے لیکن حیاتیاتی ایندھن جس میں تیل،قدرتی گیس اور کو ئلہ شامل ہے اس کی پیداوار روکنے پر کوئی توجہ نہیں دیتی جو زہریلی گیسوں کے اخراج کا سبب ہیں وہ کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اکتوبر ۔نومبر 2021میں ہونے والی گلاسگوکانفرنس میں بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
حالات اب اس حد تک خراب ہوگئے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت اوسطاً دو اعشاریہ چار تک کی بڑھ کر خوفناک صورت حال کا سبب بن رہا ہے جس میں کئی گرم ممالک کا وجود خطرے میں ہے اس بات کا امکان ہے کہ کچھ ممالک کا وجود شدید گرمی اور دریائو ں کے خشک ہونے سے ختم ہو جائے گااقوام متحدہ کی ایک اور رپو رٹ کے مطابق ان مما لک میں کویت ،عراق،متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور اسرئیل شامل ہیں اگر ہنگامی بنیادوں پر ان ممالک نے اپنے درجہ حرارت کو کم کرنے کے اقدامات نہ کیے تو وہ اپنے وجود کو برقرار نہیںرکھ سکیں گے ورلڈ اکنامک فورم کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق آئندہ پچاس سال میں دنیا کی ایک تہائی آبادی انتہائی گرمی کا سامنا کرے گی یہ اس طرح کی گرمی ہو گی جو صحارا ریگستان کے سب سے گرم علاقے میں ہوتی ہے جہاں درجہ حرارت 120فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتاہے بعض ممالک کے دریا غائب ہوجائیں گے ورلڈ اکنامک فورم کے ایک اور مضمون میں اولیویا روزین تحریر کرتی ہیں کہ مائکرو پلاسٹک سے خشکی کے علاقوں کے مقابلے میں سمندری آلودگی کا تناسب زیادہ ہے سادہ الفاظ میں پلاسٹک کا استعمال نہ صرف زمین بلکہ سمندر کو بھی تباہ کر رہاہے اقوام متحدہ کے فوڈ اور ایگریکلچر شعبے نے پلاسٹک کے تباہ کن استعمال پر سخت پابندیاں لگانے اور اسے روکنے کی پر زور سفارش کی ہے پلاسٹک کی بعض مصنوعات میں زہریلے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو سمندر میں شامل ہونے کے بعد بیماریو ں کے پھیلائو اوربیماریوں کی دیگر علاقوں تک ترسیل کا سبب بن جاتے ہیںرپورٹ میں پلاسٹک کی آلودگی روکنے کے لیے چھ جہتی طریقہ کار اپنانے پر زور دیاہے جس میں اول پلاسٹک کی ممانعت ،دوئم نئے طریقے کے ڈیزائن،سوئم بتدریج محدود تر استعمال،چہارم دوبارہ استعمال ،پنجم ازسر نو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی تیاری اور آ خر میں مکمل خاتمے کے ساتھ کسی ماحول دوست پلاسٹک کی بحالی شامل ہے گذشتہ ایک سال یعنی جنوری 2021 سے دسمبر2021 تک سب سے بڑا موضوع کورونا وائرس اور اسکی ویکسین تھا لیکن اس کے بعد دوسرا اہم موضوع موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی آلودگی تھاگذشتہ دو سوسال سے شائع ہونے وال ممتاز برطانوی اخبا ر’’ دی گارجین‘‘ میںجوناتھن واٹس نے ا پنے ایک مضمون میں تحریر کیا ہے کہ کرہ ارض کے فطری ماحول کی تباہی کی وجہ سے انسانی معاشرے کو شدید خطرات لاحق ہیںدودھ دینے والے ممالیہ جانوروںکی 82 فیصد نسل ختم ہو چکی ہے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زمین کے فطری نظام کے تحفظ کے ضامن نصف علاقے کا خاتمہ ہو چکا ہے دنیا کے چوٹی کے450سائنسدانوںاور بینالاقوامی تعلقات سے وابستہ ماہرین کی تین سالہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پانی اور خشکی کی چالیس فیصد حیاتیات کی بقا کوخطرہ لاحق ہے وہ آبی حشرات جو سمندری پودوں کی بقا کا باعث ہیں ان میںدس فیصد کمی ہوچکی ہے اور مزید کمی کا سلسلہ جاری ہے ادھر خشکی کے علاقوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی 23فیصد کمی ہو چکی ہے اس کے منفی اثرات کی وجہ سے صاف پانی کی کمی ہو رہی ہے وہ قدرتی نظام جس پر ہماری اور دیگر جانداروں کی صحت اور زندگی کا دارو مدار ہے تیزی سے زوال پذیر ہورہا ہے دنیا کی معیشت کی بنیادہل چکی ہے اچھی خوراک کے تحفظ ،قدرتی انسانی صحت اور معیار زندگی تباہی کی جانب گامزن ہے پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کے بے ہنگم پھیلائو،کچی آبادیو ں کی عدم روک تھام،جنگلات کے خاتمے،صاف پانی کا ضائع ہونا، بارش کے پانی کے ذخائر کے انتظامات میں کمی،ڈیموں کی تعمیر میں تاخیراور اس کو سیاست کا حصہ بنانا ،زرعی زمینوں پر تعمیرات، پلاسٹک کے غیر محفوظ استعمال ،صنعتی فضلے اور دیگر زہریلی گیسو ں پر کنٹرول کی کمی کے ساتھ قوانین پر عملدرامد کا نا ہونا پاکستا ن کے لیے ماحولیاتی تباہی کی وجہ ہے اس تباہی کا عمل سست رفتاری سے ہوتا ہے لہٰذااس پر توجہ کم ہوتی لیکن سخت اقدامات نہ ہوئے تو پاکستانی معاشرہ ایک ایسی خوفناک تباہی سے دو چار ہو سکتاہے جس کا تدارک نہ ہوسکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔