... loading ...
گزشتہ ہفتہ ہری دوارمیں ’دھرم سنسد‘ کے دوران مسلمانوں کے خلاف آخری درجے کی جو اشتعال انگیزی کی گئی ہے، اس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑدیے ہیں۔یہاں کھلے عام مارنے‘کاٹنے،نسل کشی اور صفایاکرنے کی باتیں ہوئیں اور ہندو راشٹر قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کو میانمار کی طرز پر ملک بدر کرنے کی اپیل کی گئی۔ یعنی وہ سب کچھ ہوا جس کی قانون کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا، لیکن ہری دورا کی پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی، کیونکہ جن سوامی پربودھانندنے مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ اشتعال انگیز تقریر کی تھی، ان کی ایک ایسی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی ان کے پاؤں چھوتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ ظاہر ہے صوبے کا وزیراعلیٰ جس کے پاؤں چھوتا ہو، اس کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت کس میں ہوسکتی ہے۔اس پولیس میں تو ہرگز نہیں ہوسکتی جوہر کام کے لیے وزیراعلیٰ کے چشم ابرو کی طلب گار ہوتی ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ کھلے عام مسلمانوں کو قتل و غارت گری کی دھمکیاں دے رہے ہیں، انھیں حکومت کا ’آشیرواد‘ حاصل ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ لوگ اب تک سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور پولیس ٹال مٹول نہ کررہی ہوتی۔
میڈیا رپورٹوں کے بعد ہری دوارپولیس حرکت میں تو آئی مگر اس نے صرف جتیندر تیاگی(سابق وسیم رضوی)اور چند نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کی اور ان لوگوں کا نام تک لکھنا گوارا نہیں کیا جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف آخری درجے کی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا۔ پولیس کی نگاہ میں شایدمسلمانوں کو دھمکیاں دینا اور ان کے نسلی صفائے کی باتیں کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ہاں پولیس ان مسلمانوں کے خلاف ملک دشمنی اور دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کرنے کے لیے بے تاب نظر آتی ہے، جو اپنے آئینی حقوق کے لیے زبان کھولتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ گزشتہ سال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کتنی سنگین دفعات کے تحت مقدمات قایم کئے اور ان کے ساتھ ملک دشمنوں جیسا معاملہ کیا۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ جب سے بی جے پی نے مرکز کا اقتدار سنبھالا ہے تب سے ان عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو اس ملک میں نفرت کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دھرم کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو تاراج کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔کھلے عام اقلیتوں کو قتل کرنے اور انھیں کھدیڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور خودکو اس ملک کے سیاہ سفید کا مالک سمجھتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر گاندھی کے دیش میں گوڈسے کا ایجنڈا نافذ کرناچاہتے ہیں۔دنیا کے سب سے زیادہ صبر اور تحمل والے مذہب کا پیروکار ہونے کے دعویدار ان شرپسندوں کی گفتگو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ نفرت کا زہر ان کے وجود میں پوری طرح سرایت کرچکا ہے۔ اسی لیے وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں تو اس سے زہر ہی برآمد ہوتا ہے۔اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ جن لوگوں نے مارنے مرنے کی دھمکیاں دی ہیں، ان میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جسے حکومت نے ایک نیوزچینل چلانے کا لائسنس دے رکھا ہے اور وہ اپنی منافرانہ ذہنیت کے لیے پورے ملک میں بدنام ہے۔ ظاہر ہے جب حکومت خود نفرت کا کاروبار کرنے والوں کو لائسنس فراہم کرے گی تو ان کے حوصلے آسمان کو کیوں نہ چھوئیں گے۔اس شخص کا نام سریش چوانکے ہے جو اپنے چینل پر کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ گزشتہ 19دسمبر کو بھی اس نے دہلی میں ہندو یووا واہنی کے ایک پروگرام میں سینکڑوں نوجوانوں کو یہ حلف دلایا کہ وہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے لیے کسی بھی حدتک جانے کو تیار ہوجائیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لڑنے، مرنے اور ضرورت پڑنے پر مارنے کا بھی حلف دلایا گیا۔ ہم آپ کو بتادیں کے سریش چوانکے کا سدرشن چینل پوری طرح حکومت کے صرفہ پر چلتا ہے اور اسے سرکاری خزانے سے کروڑوں کے اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ظاہر ہے جب حکومت ہی ایسے لوگوں کی پرورش کررہی تو ان کے خلاف کون کارروائی کرے گا؟یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ایک کے بعد ایک اشتعال انگیز بیان دیتے ہیں اور مسلمانوں میں خوف ودہشت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہری دوار کی دھرم سنسد میں جس شخص نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کہی ہے وہ کوئی گمنام آدمی نہیں ہے۔ اس کا نام سوامی نتیا آنند سرسوتی ہے جو غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کا پجاری ہے۔ یہ شخص پچھلے کافی عرصے سے مسلمانوں کے خلاف زہراگل رہا ہے۔ اس نے پچھلے دنوں توہین رسالت کے جرم کا بھی ارتکاب کیا تھااور اس کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔ یہ شخص جو زبان بولتا ہے، اس کے لیے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے۔ لیکن اب تک اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے بلکہ اسے حکومت کی طرف سے سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف آخری درجے کی منافرت پھیلانے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کی جو مہم چل رہی ہے، اس سے حکومت نے جان بوجھ کر آنکھیں موند رکھی ہیں۔
17 سے 19دسمبر کو ہری دوار میں ہوئی دھرم سنسدکا موضوع ’’اسلامی ہندوستان میں سناتن دھرم:مسائل اورحل‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس پروگرام کی کارروائی کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اس میں نرسنگھا نند یہ اعلان کررہا ہے کہ مسلمانوں کومارنے کے لیے تلوار کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بہتر ہتھیاروں کی ضرورت ہے، کیونکہ تلواریں صرف اسٹیجوں پر ہی اچھی لگتی ہیں۔نرسنگھانند نے مزید کہا کہ میں بچپن سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی باتیں سن رہا ہوں، لیکن بوڑھا ہونے کے بعد بھی ابھی تک یہی سننا پڑرہا ہے۔اسی دھرم سنسد میں پٹنہ سے تعلق رکھنے والا سوامی دھرم داس انتہائی قابل اعتراض جملے ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو میں اس وقت ناتھورام گوڈسے بن جاتا جب سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے یہ بیان دیا تھا کہ اس ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے۔‘‘ ایک دیگر ویڈیو میں ہری دوار کے سوامی بودھا آنند کہتے ہیں کہ’’مرنے یا مارنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میانمار کی طرح ہر ہندو پولیس، فوجی اور سیاست داں کو مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہئے۔‘‘
یہ اور اس قسم کی نہایت اشتعال انگیز باتوں کی ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ ان باتوں کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف برادران وطن کے ذہنوں میں نفرت اور کشیدگی پیدا کرنا ہے تاکہ انھیں نرم چارہ بنایا جاسکے۔اس قسم کی انتہائی اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف عام طورپر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو مجرم آسانی سے بچ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے جرائم سے متعلق تعزیرات ہند دفعات اتنی ہلکی پھلکی ہیں کہ کوئی بھی ان کی گرفت سے بہت آسانی کے ساتھ نکل آتا ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ کئی ماہ پیشتر دہلی کے جنتر منتر پر بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی موجودگی میں مسلمانوں کو مارنے اور کاٹنے کی باتیں ہوئی تھیں اور اس پر کافی ہنگامہ بھی برپا ہوا تھا۔ پولیس نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی تو کی لیکن ان سب کو ہی آسانی سے ضمانت مل گئی۔ اشونی اپادھیائے کو چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی رہا کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست اور مسلم دشمن عناصر یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی قتل وغارت گری کی باتیں کرتے ہیں اور وہ بہت آسانی کے ساتھ قانون کے ہاتھوں سے بچ نکلتے ہیں۔اشونی اپادھیائے اور بی جے پی خواتین مورچہ کی ایک لیڈر بھی ہری دوار کی ’دھرم سنسد‘ میں موجود تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی سیاسی پارٹی نے اس موضوع پر زبان نہیں کھولی ہے، البتہ دوسابق فوجی سربراہوں نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ہری دوار دھرم سنسد کی ویڈیو کو ٹوئٹ کرتے ہوئے ایڈمرل ارون پرکاش نے لکھا ہے کہ ’’اسے روکا کیوں نہیں جارہا ہے؟ ہمارے فوجی دومورچوں پر دشمنوں کا سامنا کررہے ہیں اور ہم فرقہ وارانہ خون خرابہ، ملک کے اندر تباہی اور عالمی سطح پر شرمندگی جھیلنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ سمجھنا اتنا مشکل ہے کہ قومی یکجہتی اور ایکتا خطرے میں پڑے گی تو قومی سلامتی پر بھی آنچ آئے گی۔‘‘ایڈمرل ارون پرکاش کے اس ٹوئٹ سے اتفاق کرتے ہوئے جنرل وید ملک نے لکھا ہے کہ ’’اس طرح کی تقریروں سے سماجی ہم آہنگی بگڑے گی اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہوگا۔ انتظامیہ اس پر کارروائی کرے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔