وجود

... loading ...

وجود

حادثوں اور سانحوں کے درمیان بلکتاہوا کراچی

پیر 27 دسمبر 2021 حادثوں اور سانحوں کے درمیان بلکتاہوا کراچی

۔

وقت کرتاہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا

قابل اجمیری کا یہ شعر کراچی کے حالات و واقعات کی بھرپور عکاسی کرتاہے ،کیونکہ یہ سوال تو صرف کراچی کے متعلق ہی اُٹھایا جاسکتاہے کہ یہاں حادثے کس پَل نہیں ہوتے؟خدالگتی بھی یہ ہی ہے کہ اس شہر بے خانماں میں حادثے ہر پَل ہی رونما ہوتے رہتے ہیں اور اہلیانِ کراچی برس ہا برس سے اپنی زندگی کا ہرپَل ،نت نئے حادثوں کے بیچ صبر و شکر کے ساتھ بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔یاد رہے کہ عروس البلاد کراچی کے لیے سیاست بھی ایک حادثہ ہے اور حکومت بھی ایک حادثہ ،اَب وہ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی کیوں نہ ہو ۔ جبکہ شہر ِکراچی میں خدمت، فلاح وبہبود اور انسانی حقوق کے نام پر جنم لینے والے الم ناک حادثوں اور سانحوں کو بھی اکثر معمول کی وارداتیں سمجھا جاتا ہے۔ یعنی سیاست میں تعصب ،نفرت اور قتل و غارت گری کے حادثات، حکومت میں اقربا پروری ،کوٹہ سسٹم اور نااہلیت کے سانحات اور انسانی خدمت کی آڑ میںسستی شہرت پانے اور جھوٹی ناموری کمانے کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات کراچی کے باسیوں کے احساسات پر نمک پاشی کے لیئے کیا کم تھے کہ گزشتہ دنوں شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے دھماکے میں بھی 17 قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جانے کا جاں گسل حادثہ شہر بھر کو اشک بار کرگیا۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ حادثہ سے بڑا حادثہ تو یہ ہوا کہ اِس اندوہ ناک سانحے کو ایک ہفتہ سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اِس بات کا ابھی تک واضح تعین نہیں کیا جاسکا کہ مذکورہ مقام پر ہونے والے دھماکے اور حادثے کی اصل وجہ کیا تھی۔ بم ڈسپوزل یونٹ کا اصرار ہے کہ ’’تجاوزات میں چھپے نالے کے وسط میں گزرنے والی زیرزمین سیوریج لائن میں گیس اخراج کے باعث دھماکہ ہوا ‘‘۔جبکہ سوئی سدرن حکام کا کہنا ہے کہ ’’دھماکے کی جائے مقام پر کوئی گیس لائن سرے سے موجود ہی نہیں تھی ‘‘۔قبل ازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب اِس امکان کو بھی سختی کے ساتھ خارج ازامکان قرار دے دیا گیا تھا کہ ’’دھماکہ کسی دہشت گرد کارروائی کا نتیجہ ہو سکتاہے‘‘۔دراصل دھماکے کی وجوہات تو سب کے سامنے اظہر من الشمس ہیں ،مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کون تسلیم کرے ؟اور جب مجرمانہ کوتاہیوں میں شراکت دار اَن گنت سرکاری محکمے ہوں تو پھر غلطی و کوتاہی کے مرتکب ہر ادارے اور فرد کی اوّلین کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ واقعہ کی تمام تر ذمہ کسی دوسرے فریق پر ڈال کر اپنے دامن کو احساس ذمہ داری کی گرفت میں آنے سے صاف بچالیا جائے ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے الم ناک حادثے پر منوں مٹی ڈالنے کی ’’سفاکانہ کاوش‘‘ میں تمام ادارے شب و روز بھرپور انداز میں مصروف عمل ہیں ۔تاکہ ہر قسم کی قانونی جزا و سزا سے واقعہ کے اصل ذمہ داروں کو بچا یا جاسکے اور ویسے بھی ہماری حادثاتی تاریخ گواہ ہے کہ ’’وطن عزیز پاکستان میں ہونے والے کسی بھی اندوہناک حادثے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا حادثہ کبھی رونما ہوا ہی نہیں ‘‘۔ یقینا اِس مرتبہ بھی جیسے مذکورہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے 17 معصوم افراد کو تہہ خاک دفنا دیا گیا ہے ،بالکل ویسے ہی اس کیس سے جڑی ہرتفتیشی رپورٹ اور کاغذی شہادت کو بھی کچھ عرصے بعد فائلوںکے قبرستان میں تمام تر دفتری اعزاز کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے دفن کردیا جائے گا اور ہم تھوڑے عرصہ بعد کسی دوسرے اندوہ ناک حادثے یا الم ناک سانحے پر ماتم کناں ہوگے۔
دوسری جانب اس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے میں سرکاری اداروں کی روایتی نااہلی اور سندھ حکومت کی انتظامی غفلت کے علاوہ ،اُس عام شہری کا بھی پورا پورا کردار اور حصہ بقدر جثہ ہے ، جسے غیر قانونی تجاوزات قائم کرنے کا خبط لاحق ہے اور غیر قانونی جگہوں پر گھر اور دُکان بنانے کا یہ پاگل اَب اس انتہا پر جاپہنچا ہے کہ جب حالیہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی سمیت ملک بھر میں غیرقانونی تجاوزات کے خاتمے پر کمر بستہ ہوچکی ہے تو یہ ہی عام شہری گلی گلی احتجاج کی صورت میں بضد ہے کہ’’ اُس کی غیر قانونی تجاوزات کی قانونی حیثیت کو بحال کردیا جائے‘‘ ۔ذرا ایک لمحے کے لیئے سوچئے اگر اِن عاقبت نااندیش شہریوں کے دباؤ میں آکر سپریم کورٹ آف پاکستان نالوں پر بنی ہوئی تمام تر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو قانونی قرار دے دیتی تو آج ہم شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے حادثہ پر حکومتی اداروں کو لعن طعن کرنے کے بجائے اس سانحہ میں ہلاک ہونے والے 17 معصوم افراد کی بدقسمتی کو کوس رہے ہوتے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نسلہ ٹاور کی عدالتی حکم پر مسماری اور شیر شاہ پراچہ چوک کے نالے پر ہونے والے دھماکے کے نتیجہ میں ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد لوگ کچھ خوفِ خدا کھاتے اور رضاکارانہ طور پر اپنی غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کردیتے یا پھر کم ازکم نئی غیرقانونی تجاوزات کرنے سے حتی المقدور اجتناب برتتے مگر نام نہاد عام آدمی کا لالچ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ ابھی بھی غیر قانونی تجاوزات کو ہی اپنے لیئے منافع کا سودا سمجھ رہا ہے ۔جس کی وجہ سے غیر قانونی تجاوزات پر موجود گھروں ،دُکانوں اور پلاٹوں کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہیں کیونکہ اُنہیں خریدنے والے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر بولیاں لگارہے ہیں ۔ کیونکہ لالچی آدمی کے لیے نفع سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہیں ہوتاحتی کہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان کا تحفظ بھی نہیں ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ نسلہ ٹاور کیخلاف عدالتی کارروائی کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے ناجائز تجاوات اور غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائزڈ کرنے کیلئے قانون سازی کی تجویز سامنے آنے کے بعد کراچی میں غیر قانونی تعمیرات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور شہر بھر میں بااثر افراد کی جانب سے ایسی خالی اراضی پر بھی گوٹھ، دیہات وغیرہ کے بورڈ لگا دیے گئے ہیں ، جس پر ایک مکان بھی تعمیر نہیں ہے۔جبکہ غیر قانونی تعمیرات کیلئے قانون سازی کی تجویز منظر عام پر آجانے کے بعد رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں تجاوزات پر بنی ہوئی ہاؤسنگ اسکیموں کے پلاٹوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔علاوہ ازیں بورڈ آف ریونیو میں 2012 سے پہلے کے جعلی کاغذات بنانے کے عمل بھی تیزی آگئی ہے اور بورڈ آف ریونیو 2020 کے جدید دور میں بھی گوٹھ بنانے کی اجازت دے رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق صرف سہراب گوٹھ سے ٹول پلازہ تک صرف ایک دہائی کے دوران 12 سوسے زائد نئے گوٹھ بنا کر اربوں روپے کی سرکاری اراضی فروخت کردی گئی ہے۔یعنی ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھلے کتنے بھی مالی فراڈ یا جان لیوا حادثات ہوجائیں لیکن ہمارا لالچ ہمیں غیر قانونی تجاوزات پر اپنا گھر ، دُکان بنانے کی ترغیب دیتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر