... loading ...
عمران خان کے خلاف عوام کی تحریک ِ انصاف شروع ہوگئی۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخاب نے اس کی ایک جھلک دکھلا دی۔ وزیراعظم پر ہر گزرتا دن اب بھاری پڑتا جائے گا۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ عمران خان کے پاس بیانات اور اعلانات کی صورت میںاب صرف وہ مُکّے ہیں جو جنگ کے بعد یاد آتے ہیں۔ خیبر پختونخوا نے تحریک انصاف پر مسلسل دو مرتبہ عام انتخابات میں اعتماد کیا۔ یہ ماضی قریب کا ”انوکھا” اعتماد تھا، جہاں خیبر پختونخوا نے ہر عام انتخاب میں اپنے رائے اور حکمران تبدیل کیے تھے۔ تحریک انصاف جس گودی میں پلی تھی، وہاں انگلی اُٹھانے کی ہمت کسی کو نہ تھی۔ یہ تحریک انصاف ہی تھی جس نے اپنے پالنہاروں کوبھی عیاں کردیا۔ سب سے پہلے عمران خان کے کنجِ لب سے ”ایمپائر کی اُنگلی” کی وہ مشہور ترکیب پھوٹی جس نے بعد کے سالوں میں طنز کے دفترکے دفتر تیار کیے۔تحریک انصاف کی فتح کے اسباب کرائے کے قلمکاروں اور بھارے کی ز بانوں نے ”وضع” کیے تھے۔ اب نئے انتخابات ہیںاور نئی فضا، بالفاظِ دیگر بغاوت کی فضا!! یہ صرف عمران خان کے خلاف عدم اعتماد نہیں۔ اگلے ماہ وسال میں یہ واضح ہوگا کہ زمیں ، فلک اور فضا طاقت کے اصل مراکز سے بیزار ہیں۔ مسئلہ صرف پلنے والوں کا نہیں پالنے والوں کا بھی ہے۔ قومی سیاست کے حالیہ تجزیوں میں مگر یہ پہلو ابھی غائب ہے۔سو اِسے ناکشادہ ہی رہنے دیں۔
پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ حالات کی غلط تشخیص کرتی ہے اور علاج بھی غلط تجویز کرتی ہے۔ پی ٹی آئی جس طرح اپنی جیت کا درست تجزیہ نہیں کرسکی، اب مسلسل شکست کی بھی درست تفہیم کرنے میں ناکام ہے۔ یہ بلدیاتی انتخاب میں ہونے والی ناکامی سے بڑی ناکامی ہے۔ عمران خان کا پارٹی شکست کے اسباب پر بیان پڑھ لیں، یوں لگتا ہے کہ وہ حالات کو سمجھنے میں نہ صرف مکمل ناکام ہیں بلکہ اُنہیں اس نفرت کا بھی اندازا نہیں جو گلی گلی اُن کے خلاف پھیلتی اور بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں شکست کے اسباب میں ٹکٹوں کی غلط تقسیم محض ایک جُزہے۔ شکست کا کُل نہیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی ٹکٹوں کی ایسی ہی غلط تقسیم پر کھڑی ہے، پھر بھی وہ گزشتہ عام انتخاب میں ظفریاب ہوئی۔ اسباب پوشیدہ نہیں۔ ٹکٹوں کی غلط تقسیم سے پاکستانی سیاست میں کبھی کوئی درست تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ہر حلقے میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے عوامی سطح پر اسی نوع کے اعتراضات ہوتے ہیں۔ پھر بھی فتح وشکست کے نتائج الگ الگ نکلتے رہتے ہیں۔ اگر ٹکٹوں کی غلط تقسیم کوئی اتنا معنی خیز عذر ہوتا تو باقی سیاستی جماعتوں کی شکست میں بھی یہ اسی طرح منطبق کیے جانے کے قابل ہوتا۔ تحریک انصاف اس عذر کے پیچھے شکست کی بنیادی وجوہات سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ پھرپی ٹی آئی کے پاس یہی انگرکھنگر اور کاٹھ کباڑ ہے جن کو وہ بدل بدل کر ٹکٹیں دیتے ہیں۔ عمران خان نے ”الیکٹ ایبل” سیاست کا انتخاب کیا تو اُن کے ہاتھ یہی لگا تھا۔ چنانچہ وہ امیدوار بدل بھی لیں تو وہ کسی غلط کے مقابلے میں درست امیدوار کی طرف رجوع نہ کرپائیں گے۔ بلکہ بس ناموں اور چہروں کی تبدیلی ہی کرپائیں گے ۔ یہ جوہڑ سے جوہر کی تلاش کا عمل نہ ہوگا۔
تحریک انصاف نے اب تک اپنی شکست کا سراغ غلط امیدواروں کے انتخاب اور اپنی ہی جماعت کے اندرونی اختلافات میں لگایا ہے۔ مثلاً وزیراعلیٰ محمود خان کے پاس موجود ایک رپورٹ یہ کہتی ہے کہ مہنگائی کے علاوہ جماعت کے اندرونی اختلافات کے باعث پارٹی کے رہنماؤں نے اپنی ہی جماعت کے نامزد امیدواروں کی حمایت نہیں کی۔ اس ضمن میں دوارکانِ قومی اسمبلی اور چار ارکان صوبائی اسمبلی کے کاندھوں پر اس شکست کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ درحقیقت تحریک انصاف میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کہیں سے سرا پکڑ لیں، مسئلہ نظر آئے گا اورشکست کی وجہ بھی وہی لگے گی۔ علی امین گنڈا پور کو ہی لے لیں۔ اُن سے نفرت صرف ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی نہیں کی جاتی بلکہ وہ ملک بھر میں یکساں طور پر نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ ڈی آئی خان کے علاوہ ٹانک اور لکی مروت پر بھی اثر انداز ہوئے، اُن کے خلاف عمومی نفرت نے ہر ضلع میںکام دکھایا۔ ڈی آئی خان کی واحد تحصیل کلاچی پی ٹی آئی کے ہاتھ لگ سکی، اُس کی واحد وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں پی ٹی آئی کا امیدوار دراصل علی امین گنڈاپور کا شدید مخالف تھا۔ مگر یہ غلط امیدواروں کے انتخاب اور اندرونی اختلافات کا ایک پہلو ہے۔ پی ٹی آئی کی خرابی بلدیاتی انتخابات میںغلط امیدواروں کو نامزد کرنے سے شروع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ نامزد کرنے والے غلط لوگوں سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں مسئلہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے غلط امیدوار نہیں بلکہ اُنہیں ٹکٹ دلانے والے تحریک انصاف کے سندیافتہ ، شہرت یافتہ نامقبول اور قابل نفرت رہنما ہیں۔ چنانچہ ان نامزد امیدواروں کو تبدیل کربھی دیا جائے تو خیبر پختونخوا اور تحریک انصاف کے اُن کپتانوں کا کیا ہوگا جو اس بدترین ٹیم کو چلارہے ہیں اور خود اُن سے بھی بدترین ہیں۔ اسی طرح مہنگائی کو ایک وجہ ٹہرانے والے یہ نہیں جانتے کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے جو عوام کو بُری طرح گھائل رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کے عمومی تناظر میں عوام کا اصل معاملہ حکمرانوں پر اعتماد کا رہ جاتا ہے۔کیا وہ باقی ہے؟ اصل سوال یہ ہے ۔
درحقیقت تحریک انصاف کو ان تمام وجوہات میں سے جس بدترین وجہ کا سامنا ہے وہ خود عمران خان کی چھوی ہے۔ عوام میں عمران خان کی چھوی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وہ الفاظ کے خراچ اور عمل کے قلاش کے طور پر بے نقاب ہوئے ۔ مگر یہ وہ وجہ ہے جسے پارٹی کے اندر زیربحث نہیں لایا جارہا۔ اگر ماضی میں عمران خان کی شخصیت کو جیت کی ضمانت کے طور پر پیش کیا گیا، تو اب شکست کا اصل سبب بھی اُن کی ذات کے ہی گرد گھومے گا۔ وزیراعظم کے طور پر عمران خان کی شخصیت مکمل طور پر بے جوڑ ثابت ہوئی۔ وہ پاکستان کے حقیقی مسائل کے ادراک میں مکمل ناکام ہوئے اور حزب اختلاف کی زبان میں ہی کاربارِ اقتدار چلاتے رہے۔چنانچہ ”میں نہیں چھوڑوں گا” سے شروع ہونے والے سیاسی اقتدار کے سفر نے سیاسی حریفوں کا تو کیا بگاڑنا تھا، خود عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔وزیراعظم حزب اختلاف کے رہنماؤں سے اپنی نفرت میں اُس کردار کی طرف توجہ نہیں دے سکیں جو ایک حکمران کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ اپنے بدترین نظم حکمرانی کا سبب بھی وہیں ڈھونڈتے رہے، جبکہ یہ تحریک انصاف کی نااہلی اور ناتجربہ کاری سے جڑا ہوا تھا۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی ساڑھے تین برسوں میں صفر کارکردگی ہے، مگر دعوے ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ اس حکومت نے ملک کے اندر اور باہر اپنے مخالفین پیدا کرنے میںجتنی ”مہارت”دکھائی ہے، اگر اتنی مہارت کا مظاہرہ حکومت کو بہتر کرنے میں دکھایا جاتا تو وہ خیبر پختونخوا میں پشاور کو بھی کھونے سے بچ جاتے جو تحریک انصاف کے لیے سیاسی طور پر لاہورکی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔ ساڑھے تین برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت کے بدولت پاکستان سے متوسط طبقہ اس تیزی سے تحلیل ہوتا گیا ہے کہ اس کا ایک سماجی مطالعہ کیا جائے تو پاکستان کی کل تاریخ سے زیادہ ہولناک ، بھیانک اور خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ عوام میں غیض و غضب کی بجلیاں ہیں جو کسی بھی نشیمن پر گرکر اسے خاکستر کرسکتی ہے۔ ابھی تک عمران خان اور اُن کی نالائق ٹیم کو یہ اندازا ہی نہیںہوسکا کہ خیبر پختونخوا کے نتائج درحقیقت خود عمران خان اوراُن کی حکومت کے خلاف ہیں۔ وہ جس قسم کے لوگوں کے ساتھ آسودہ ہیں، وہ عوام میں نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ خیبر پختونخوا میں کبھی بھی اپنی ناکامی کے اصل اسباب کا سراغ نہیں لگاسکتے۔ ابھی عمران خان اور اُن کی ٹیم عوام میں اُتری نہیں۔ یہ صرف خیبر پختونخوا کا نظارہ ہے، آئندہ دنوں میں جب اُن کے ناکام ارکان اور وزراء عوام کا سامنا کریں گے تو اُنہیں زیادہ بہتر اندازا ہوسکے گا کہ وہ کس حقارت سے دیکھے جانے لگے ہیں۔ وہ عوامی ردِ عمل کی سنگین لہروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ کیونکہ عمران خان اور اُن کی حکومت کے خلاف عوام کی تحریک انصاف شروع ہوگئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭