... loading ...
(مہمان کالم)
یاسریاکس
آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین 12اکتوبر کی سرحدی جھڑپوں میں ایک آذری لیفٹیننٹ اور چار فوجی ہلاک ہوئے۔ ٹھیک دو روز بعد ایک جھڑپ میں ایک میجر جنرل اور سات فوجی ہلاک ہوئے، جھڑپوں میں آرمینیا کی فوج کا بھی جانی نقصان ہوا۔ کوہ قاف کے پہاڑی سلسلے پر واقع ان ملکوں کے تعلقات سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے کشیدہ رہے ہیں، اس کی وجہ صوبہ ناگورنو کاراباخ ہے، جو کہ آذربائیجان کے زیر کنٹرول ہے۔ 1923ء میں جوزف ا سٹالن نے اسے آذربائیجان کا خود مختار انتظامی یونٹ بنا دیا تھا۔ 1989ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد کاراباخ کے آرمینیائی باشندوں نے باکو سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ اسے آرمینیا کے حوالے کیا جائے۔ دونوں ملکوں میں مکمل فوجی محاذ آرائی 1980ء کی دہائی کے آخری سال، بعدازاں مئی 1994ء میں ہوئی۔ ان لڑائیوں کے بعد آرمینیا نے نہ صرف ناگورنو کاراباخ بلکہ آذربائیجان کے دیگر صوبوں پر بھی قبضہ کر لیا جو کہ ملک کے کل رقبے کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین جنگ بندی کرانے میں روس، امریکا اور فرانس پر مشتمل مینسک گروپ نے اہم کردار ادا کیا، جس کی اکثر خلاف ورزی ہوتی ہے۔
قبل ازیں، جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ناگورنو کاراخ کے علاقے میں ہوتی تھیں، مگر حالیہ جھڑپیں صوبہ تووز میں ہوئیں جو کہ متنازع سرحد سے کافی دور اور متعدد سٹریٹجک اہمیت کی راہداریوں کے سنگم پر واقع ہے۔ ان باکو تبلیسی جیحان آئل پائپ لائن، باکو تبلیسی قارص ریلوے، ترکی جارجیا آذربائیجان شاہراہ اور ٹرانس اناطولیہ گیس پائپ لائن شامل ہیں۔ سٹریٹجک اہمیت کے اس قسم کے مقام کا فوجی ہدف بننا ایک فطری امر ہے۔ جب ترکی اور آذربائیجان نے ترکش صوبے قارص کو ریل لنک کے ذریعے آذری دارالحکومت باکو کے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا، وہاں پہلے سے ایک ریلوے لائن موجود اورفعال تھی جو کہ آرمینیا تک جاتی ہے۔ مگر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر دونوں ملکوں نے نئی ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا جو کہ آرمینیا کے گرد سے گھوم کر شمال میں جارجیا کے ساتھ ملاتی ہو۔
آرمینیا کو نظر انداز کرنے والا انفراسٹرکچر کا ایک اور منصوبہ باکو تبلیسی جیحان آئل پائپ لائن ہے۔ اسے 9 ملکوں کی آئل کمپنیوں کی پارٹنرشپ سے مکمل کیا گیا، جن میں ترکی، آذربائیجان، امریکا، برطانیا، ناروے، فرانس، جاپان، اٹلی اور بھارت شامل ہیں۔ اس منصوبے کی مدت کا تخمینہ 40سال ہے، اس کے ذریعے روزانہ آذربائیجان سے دس لاکھ بیرل تیل ترکی کی بندرگاہ جیحان پہنچایا جاتا ہے۔ اس کی معاشی لحاظ سے بہتر متبادل راہداری آرمینیا سے گزرتی ہے، مگر ترکی یا آذربائیجان نے کبھی آرمینیا کو منصوبے میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی، انہوں نے نسبتاً طویل پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ کیا جو کہ جارجیا سے گزرتی ہے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے پائپ لائن کمپنی کے قیام سے متعلق مذاکرات کے دوران کہا: ’’اگر ہم نے یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل کر لیا تو آرمینیا مکمل طور پر تنہا ہو جائے گا جس سے ان کے مستقبل سے متعلق مزید مسائل پیدا ہوں گے، جو کہ پہلے سے ہی مایوس کن ہے‘‘۔
انفراسٹرکچر کا تیسرا اہم منصوبہ جس میں آرمینیا کو شامل نہیں کیا گیا، وہ ٹرانس اناطولیہ گیس پائپ لائن ہے، تاہم اس منصوبے سے جس ملک کے معاشی مفادات خطرے میں پڑتے ہیں، وہ آرمینیا نہیں، روس ہے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے آذربائیجان کے شاہ دنیز گیس فیلڈ سے یورپ کو گیس فراہم کی جائے گی، جس کے لیے پائپ لائن کو یونان اور ٹرانس ایڈریاٹک پائپ لائن سے ملایا جائے گا۔ یہ پائپ لائن البانیہ اور بحیرہ ایڈریاٹک کے راستے اٹلی سے ملتی ہے۔ ٹرانس اناطولیہ گیس پائپ لائن کے ذریعے جہاں ترکی کی گیس کی ضرورت پوری کی جائے گی، وہیں فاضل گیس یورپی ملکوں کو برآمد ہو گی۔ ٹرانس اناطولیہ گیس پائپ لائن کو دو اہم پائپ لائنوں کے ساتھ مسابقت کا سامنا ہے جو کہ روس کی گیس ترکی اور دیگر یورپ ملکوں کو برآمد کرتی ہیں۔
اس پس منظر میں دیکھتے ہوئے کیا آرمینیا کے حالیہ حملے میں روس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ ٹرانس اناطولیہ گیس پائپ لائن منصوبے کی وجہ سے کسی امکانی صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ منصوبہ ترکی اور یورپ کیلئے روسی گیس پائپ لائن منصوبوں کا متبادل ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں اس کا خاص امکان اس لیے نہیں کیونکہ مختلف امور پر متضاد مفادات کے باوجود ترکی اور روس شام کے علاوہ کئی معاشی شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ مزید براں، 2018ء میں جب نکول پاشینیان آرمینیا کے وزیراعظم منتخب ہوئے، انہوں نے قوم پرست خارجہ پالیسی اختیار کی اور اپنے ملک میں روسی تاجروں کیلئے کئی غیر ضروری مسائل پیدا کئے۔ اس کے جواب روس نے پاشینیان مخالف حلقوں کو استعمال کیا، اور صدر آرمین سرگسیان کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ حالیہ جھڑپوں سے آذربائیجان کا صوبہ تووز کو جس عدم استحکام کا سامنا ہے، جس کے باعث سول آبادی نقل مکانی کر سکتی ہے، اس سے ا?رمینیا کو علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کا موقع ملے گا۔ یہ ممکنہ صورت احوال معاشی راہداریوں کی وجہ سے ترکی اور آذربائیجان دونوں کے مفادات کے لیے خطرہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔