... loading ...
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
علامہ اقبال کے ابو جان کا نام شیخ نور محمد تھا ، ان کی پیدائش 1837 میں ہوئی تھی ، انہیں لوگ ‘ نتّھو’ کہتے تھے ، اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی پیدائش سے قبل ان کے والدین کے یہاں دس لڑکے یکے بعد دیگرے فوت ہوگئے تھے _ ان کی پیدائش ہوئی تو ان کے لیے بہت منّتیں مانی گئیں اور اس کی علامت کے طور پر ان کی ناک چھدواکر اس میں سونے یا چاندی کی نتھ پہنا دی گئی _
شیخ نور محمد کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا ، لیکن ان کا مزاج ابتدا ہی سے دین دارانہ تھا ، وہ اہلِ دین کی صحبت اختیار کرتے تھے ، سادہ لباس پہنتے اور کم بولتے تھے ،ان پر ہر وقت سنجیدگی طاری رہتی تھی ، وہ نہایت وجیہ اور پْر کشش شخصیت کے مالک تھے ، ابتدا میں انھوں نے ایک فیکٹری کے مالک کے یہاں کپڑا سینے کی ملازمت اختیار کی ، لیکن پھر اسے ترک کردیا اور ٹوپیوں اور کرتوں کا ذاتی کاروبار کرنے لگے ، ان کا یہ کاروبار خوب چمکا ، ان کی شادی ایک خاتون سے ، جن کا نام امام بی بی تھا ، 1874 میں ہوئی، ان سے 1877 میں اقبال پیدا ہوئے ۔
علامہ اقبال کے بچپن کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ جن دنوں ان کے والد بینک میں ملازم تھے ، ان کی والدہ نے مشتبہ آمدنی کے اندیشے سے انہیں اپنا دودھ پلانا ترک کردیا تھا، انھوں نے اپنے زیورات بیچ کر ایک بکری خریدی ، جس کا دودھ انہیں پلایا کرتی تھیں، لیکن یہ واقعہ غیر ثابت شدہ اور من گھڑت ہے، علامہ کے والد نے کبھی کسی بینک میں ملازمت نہیں کی تھی ۔
شیخ نور محمد تعلیم یافتہ نہیں تھے ، لیکن اپنے بیٹے اقبال کے بارے میں انھوں نے سوچ رکھا تھا کہ انہیں اعلیٰ تعلیم ضرور دلائیں گے ، اقبال بچپن میں اپنی قریبی مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے ، جب کچھ بڑے ہوئے تو آپ کو ابتدائی تعلیم کے لیے کرسچین اسکول سیال کوٹ میں داخل کیا گیا، اسی اسکول میں نویں دسویں کلاس میں انھوں نے بیت بازی کے مقابلے میں حصہ لینا شروع کردیا تھا _
علامہ اقبال جب میٹرک میں تھے ، ایک دن فقیر نے اْن کے گھر کے باہر آواز لگائی : ’’ اللہ کے نام پر دے دو ‘‘ اندر سے انھوں نے کہا : ’’معاف کرو بابا‘‘ فقیر ذرا اونچا سنتا تھا ، اس نے پھر زور سے آواز لگائی : ’’اللہ کے نام پہ دے دو ‘‘ اقبال گھر کے اندر سے غصّے میں نکلے اور فقیر سے کہا : ’’کہہ تو دیا ہے : معاف کرو بابا، پھر بھی چیختے چلے جا رہے ہو ، جاتے کیوں نہیں ؟ ‘‘ ان کے والد کو ان کی یہ حرکت بہت ناگوار گزری ، اْن کی آنکھوں میں آنسو آگئے، انھوں نے بیٹے سے کہا : ’’ کل روزِ قیامت نبی کریم ﷺ کے دربار میں جب ساری اْمّت جمع ہو گی ، اْس وقت یہ فقیر میری طرف اشارہ کرکے کہے گا کہ اس کے گھر سے مجھے دھتکارا گیا تھا ، تو تمہاری اس حرکت کا میں کیا جواب دوں گا؟ ‘‘ والد کی یہ بات سن کر اقبال نے سر جھکالیا اور شرمندگی کے ساتھ کھڑے رہے۔ تب والد نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا : ’’ بیٹے ! تم اْمّتِ مسلمہ کے ایک فرد ہو۔ نبی کریمﷺ کی تمام تعلیمات تمہارے سامنے رہنی چاہئیں۔ تمہیں امیر ، غریب ، بڑے ، چھوٹے ، سب کے لیے نرم گوشہ رکھنا چاہیے۔‘‘ اقبال نے باپ کی نصیحت کو اپنی گِرہ میں باندھ لیا اور اس کی ہمیشہ پاس داری کی۔
علامہ اقبال کو جب شاعرِ اسلام کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوگئی تھی اور وہ اپنا کلام پڑھنے مشاعروں میں جانے لگے تھے ، اْس وقت ان کے والد ان کی نظمیں سننے اجتماعات میں جایا کرتے تھے _ خاص طور پر انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں علامہ اپنے والد کے ساتھ شرکت کرتے تھے 1900 میں انجمن کے اسٹیج سے اقبال نے ‘نال یتیم’ کے نام سے ایک نظم برے رقّت آمیز انداز میں پڑھی ، اس نظم کی کئی سو مطبوعہ کاپیاں آناً فاناً فروخت ہوگئیں ، پھر بھی مانگ بہ دستور باقی رہی، اس موقع پر ان کے والد نے بھی یہ نظم خریدی تھی _
علامہ اقبال اپنے والد کا بہت احترام کرتے تھے، وہ فارسی زبان کی اچھی استعداد رکھتے تھے اور علامہ کی مثنوی ‘اسرارِ خودی’ کو بہ آسانی سمجھ لیتے تھے ، اقبال نے والد کی سہولت کے لیے مثنوی کو جلی قلم سے لکھ دیا تھا ، تاکہ انہیں پڑھنے میں دشواری نہ ہو _
والد کی آخری بیماری میں ایک دن علامہ اقبال نے باتوں باتوں میں ان سے پوچھا : ’’ والدِ بزرگوار ! آپ سے میں نے اسلام کی خدمت کا جو عہد کیا تھا وہ پورا ہوا یا نہیں؟ باپ نے بسترِ مرگ پر شہادت دی : ’’ جانِ من ! تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا ہے _علامہ اقبال کے والد کی شخصیت میں تصوّف کا پہلو نمایاں تھا _ ان میں روحانیت پائی جاتی تھی ، ان کے گہرے اثرات علامہ اقبال پر پڑے ، جس کا اقبال نے اپنے کئی خطوط میں ذکر کیا ہے ، ان کا انتقال 1930 میں سیال کوٹ میں ہوا ، علامہ اقبال نے قطعہ تاریخ لکھا ، جو ان کی قبر پر کندہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔