... loading ...
(سقوط مشرقی پاکستان کے اگلے ہی برس مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے 1972ء میں یہ سوال ہوا کہ اُن کی نظر میں اس سانحے کے حقیقی اسباب کیا تھے؟ مولانا نے اس پر ایک تفصیلی جواب دیا۔مولانا کا وہ جواب آج 49 برسوں کے بعد بھی غوروفکر کا ایک جہانِ معنی رکھتے ہیں۔ )
میرے نزدیک سقوطِ مشرقی پاکستان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جس اِسلام اور اسلامی قومیت کے تصور پر پاکستان بنا تھا، قیام پاکستان کے بعد اول روز سے ہی اُس کو طاقت پہنچانے اور مضبوط کرنے سے صرف گریز ہی نہیں کیا گیا، بلکہ اُس کی جڑوں کو روز بروز کمزور کیا جاتا رہا، اور دشمنوں کو اُس کا پورا موقع دیا جاتا رہا کہ وہ باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ اُن کو کاٹتے رہیں۔ مشرقی پاکستان میں خود ہندو کافی تعداد میں موجود تھے اور اچھے خاصے طاقتور تھے۔ اُن کو پاکستان کا بننا سخت ناگوار تھا اور وہ اُس کو ختم کرنے کے کسی مناسب موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اُن کے بہت سے شاگرد موجود تھے۔ اُن کے ذہن ہندو استادوں کی تعلیم اور ہندو مصنفین کے بنگلہ لٹریچر سے پوری طرح متاثر تھے۔ ہندوستان بھی یہ جانتا تھا کہ مشرقی پاکستان پاکستان کا کمزور ترین حصہ ہے اور وہاں اس دو قومی نظریے کو، جس پر پاکستان بنا ہے زیادہ آسانی کے ساتھ زَک پہنچائی جاسکتی ہے۔ اِس غرض کے لیے قیام پاکستان کے بعد ہی کلکتہ سے ایسا لٹریچر بارش کی طرح برسنا شروع ہوا جو اس نظریے کی بیخ کنی کرنے والا تھا۔ ان سب لوگوں کی کوشش یہ تھی کہ بنگالی زبان کی بنیاد پر مسلمان بنگال اور ہندو بنگال کو ملا کر ایک قوم بنایا جائے اور اس کے اندر غیر بنگالی مسلمانوں اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا زہر پھیلایا جائے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے ایک دن بھی اِس ابھرتے ہوئے خطرے کو نہ محسوس کیا اور نہ اِس کے تدارک کی کوئی فکر کی۔ درس گاہوں میں، صحافت میں اور رسائل نشرواشاعت میں یہ زہر مسلسل پھیلتا رہا، مگر ہمارے کارفرمائوں نے نہ تعلیم کے نظام کی اصلاح کی، نہ یہ دیکھا کہ درس گاہوں میں کیسے استاد درس دے رہے ہیں۔ نہ اس بات کا کوئی نوٹس لیا کہ طلبہ کی کیسے کھیپ اِن سے تیار ہو کر نکل رہی ہے۔
کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ مشرقی پاکستان میں یہ پروپیگنڈا شروع ہوا کہ مغربی پاکستان اُسے لُوٹے کھا رہا ہے۔ اِس سلسلے میں نہایت ہوشیار لوگوں نے جھوٹے سچے اعداد و شمار مرتب کر کے بڑے پیمانے پر پھیلائے جو کالجوں کے طلبہ اور نئے تعلیم یافتہ لوگوں اور سرکاری ملازموں کی نوک زبان پر چڑھ گئے۔ بچے بچے نے اِس کو رَٹ رکھا تھا۔ جس سے بھی بات کرنے کا اتفاق ہوتا وہ فر فر اِن کو سنانا شروع کر دیتا۔ حکومت پاکستان کو بار بار توجہ دلائی گئی کہ وہ ان اعداد و شمار کی تحقیق کرے۔ اگر اِن میں کوئی صداقت ہے تو فوراً ان معاشی و مالی شکایات کی تلافی کی جائے جو وہاں کے لوگ پیش کرتے ہیں اور اگر وہ جھوٹے اعداد و شمار ہیں تو اُن کی بروقت تردید کر کے صحیح اعداد و شمار شائع کر دے۔ مگر آخری وقت تک اِس پروپیگنڈے کے مقابلے میں کوئی مستند چیز شائع ہی نہیں کی گئی۔اُس کے بعد خواجہ ناظم الدین مرحوم کو بیک بینی و دوگوش نکال کر باہر پھینکنے، محمد علی بوگرہ مرحوم کے ساتھ ذلت آمیز برتائو کرنے، ۱۹۵۴ء کے دستور کی منظوری سے پہلے ہی مجلس دستور ساز کو توڑ ڈالنے کے واقعات پے درپے پیش آئے کہ جن سے فطری طور پر مشرقی پاکستان کے سیاسی عناصر اور تعلیم یافتہ لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ مغربی پاکستان کے لوگوں نے قوت پر کلیتہً قبضہ کر لیا ہے اور ان کا صوبہ محض ایک ماتحت کالونی بن کر رہ گیا ہے۔ اس تاثر کو ۱۹۵۸ء کے فوجی انقلاب اور ایوب خان صاحب کی دس سالہ آمریت نے اور زیادہ مستحکم کردیا۔
علیحدگی کی طرف ایک اور قدم اور بڑا موثر قدم مخلوط انتخاب تھا۔ ۱۹۵۶ء میں جس طرح پاکستان کی پارٹیوں نے مل ملا کر ایک دستور بنایا تھا اور اُس میں اسلام کی بنیاد پر نظام حکومت تعمیر کرنے کی جو بنا رکھی گئی تھی، اُسے اگر کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو شاید اِن اسباب کی تلافی کی جاسکتی تھی جوملک کے دونوں حصوں کو علیحدگی کی طرف لے جارہے تھے۔ لیکن اسکندر مرزا صاحب اور حسین شہید سہروردی صاحب نے زبردستی مخلوط انتخاب کا قانون پاس کرکے اِس دستور میں ایسی نقب لگا دی جس سے وہ پاکستان کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے کوئی خدمت انجام دینے کے قابل نہ رہا۔ ہم نے اُس وقت یہ سمجھانے کی انتہائی کوشش کی کہ مخلوط انتخاب پاکستان کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ اُس کے بجائے جداگانہ انتخاب باقی رہنا چاہیے۔ بلکہ وہ بھی اِس طرز کا نہ ہونا چاہیے جو انگریزوں نے ہندوستان میں رائج کیا تھا، کہ ایک طرف مسلمان تنہا ہوں اور دوسری طرف تمام غیر مسلموں کو ملا کر ایک کر دیا جائے جس کا پورا فائدہ اونچی ذات کے ہندوئوں کو حاصل ہو۔ بلکہ مسلمان، اونچی ذات کے ہندو، آدی باسی ہندو (شیڈولڈ کاسٹ)، عیسائی، بودھ، سب کے الگ الگ حلقہ ہائے انتخاب ہونے چاہئیں اور آبادی کی بنیاد پر اُن کو جداگانہ نمائندگی دینی چاہیے۔ لیکن اُن لوگوں کے پیش نظر یہ تھا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت کسی طرح نہ چلنے پائے اور یہ ایک سیکولر ریاست ہی بن کر رہے۔ اس لیے مشرقی اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں کی سخت مخالفت کے باوجود انہوں نے مخلوط انتخاب کا قانون پاس کر کے چھوڑا۔ یہ اگرچہ اصولی حیثیت سے پورے پاکستان ہی کے لیے غلط تھا، لیکن عملاً اِس کا اصل نقصان مشرقی پاکستان کو پہنچتا تھا اور اسی کے واسطہ سے پورا پاکستان اُس سے متاثر ہوتا تھا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلم آبادی بڑی تعداد میں موجود تھی اور بہت بااثر تھی۔ وہاں مخلوط انتخاب سے دو نتیجے برآمد ہوئے۔ ایک یہ کہ اس نے وہاں مسلم اور غیر مسلم کو ملا کر ایک جغرافیائی قومیت کی بنا ڈال دی۔ دوسرے یہ کہ انتخابات میں اُس نے اسلامی نظریہ کے حامیوں کی کامیابی وہاں سخت دشوار اور سیکولر نظریہ کے حامیوں کی کامیابی نہایت آسان بنا دی۔ کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں کا انحصار بالکل مسلمانوں کے ووٹ ہوگیا اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے ۲۰ سے ۳۰ فیصد تک غیر مسلم ووٹ قطعی یقینی ہوگئے جبکہ مسلمانوں کے ووٹ دونوں گروہوں میں بہرحال تقسیم ہونے تھے۔ یہاں اس بات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی وحدت اسلامی نظریہ کے حامیوں کی کامیابی پر ہی موقوف تھی۔ سیکولر نظریہ کے حامی تو بہرحال پاکستانیت پر بنگالیت کو ترجیح دینے والے ہی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح مخلوط انتخاب کا قانون پاس ہوتے ہی مشرقی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا رنگ تبدیل ہوگیا اور جن پارٹیوں کے سامنے انتخاب جیتنا ہی اصل اہمیت رکھتا تھا انہوں نے اسلام کا نام تک زبان پر لانا چھوڑ دیا تاکہ وہ غیر مسلم ووٹوں سے محروم نہ ہو جائیں۔اس کے بعد جب ۱۹۶۶ء میں ایوب خان صاحب کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو شیخ مجیب الرحمن صاحب اپنے چھ نکات لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو صریحاً مشرقی پاکستان کو علیحدگی کی طرف لے جاتے تھے۔ اِس کے مقابلے میں تحریک جمہوریت (پی ڈی ایم) نے مشرقی پاکستان کے سیاسی عناصر کی تائید اور خود عوامی لیگ کی موافقت سے آٹھ نکات کا پروگرام پیش کیا جو ملک کی وحدت کو باقی رکھتے ہوئے مشرقی پاکستان کو اُس سے زیادہ حقوق دیتا تھا جو مجیب الرحمن صاحب نے چھ نکات میں مانگے تھے۔ مگر ایوب خان نے محض حزب اختلاف میں پھوٹ ڈالنے کے لیے چھ نکات کا اتنا زبردست پروپیگنڈا کیا کہ آٹھ نکات اُس کے مقابلے میں دب گئے اور مشرقی پاکستان کے لوگ بالعموم بغیر سمجھے بوجھے چھ نکات کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھنے لگے۔ بغیر سمجھے بوجھے کے الفاظ میں اس لیے استعمال کرتا ہوں کہ یہ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں جاہل عوام تو درکنار، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ چھ نکات کیا ہیں جن کی وہ تائید کر رہے ہیں۔ صرف پروپیگنڈا کا ایک طلسم تھا جس نے اُن کو مبتلائے فریب کر رکھا تھا۔ ورنہ جس پڑھے لکھے آدمی کو بھی ہم نے چھ نکات اور آٹھ نکات کا فرق اچھی طرح سمجھایا وہ مان گیا کہ یہ اِن سے بہتر طور پر مشرقی پاکستان کو اُس کے جائز حقوق دلواتے ہیں۔
پھر جب ایوب خان صاحب کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور آٹھ جماعتوں کی شرکت سے جمہوری مجلس عمل (ڈی اے سی) بنی تو اِن سب جماعتوں نے بالاتفاق دو سیاسی مطالبات پیش کیے۔
ایک یہ کہ صدارتی نظام کے بجائے پارلیمنٹری نظام قائم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ بنیادی جمہوریتوں کے بجائے بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر براہِ راست انتخاب ہوں۔ انہی دو نکات کی تائید ملک کی رائے عامہ نے ایک پرزور ایجی ٹیشن کے ذریعے کی جس سے عاجز آکر ایوب خان صاحب گول میز کانفرنس منعقد کرنے پر مجبور ہوئے۔ کانفرنس میں انہوں نے دونوں مطالبات تسلیم کرکے یہ فیصلہ کیا کہ جلدی سے جلدی مرکزی اسمبلی بلا کر ۱۹۶۲ء کے دستور میں اِن مطالبات کے مطابق ترمیم کردیں گے۔ اگر اُس وقت یہ کام ہو جانے دیا گیا ہوتا تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ جاتا اور جمہوریت بحال ہو جاتی۔ لیکن اُس وقت گول میز کانفرنس کے اندر بھی اور اُس کے باہر بھی ایسے عناصر موجود تھے جنہوں نے اس کانفرنس کو ناکام کردیا… اور نتیجہ میں بحالی جمہوریت کے بجائے ملک کو ۲۵؍ مارچ ۱۹۶۹ء کا مارشل لاء ملا جس کی باگیں یحییٰ خان صاحب اور اٍن کے چند فوجی اور سیاسی مشیروں کے ہاتھ میں تھی (ملک کو اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دراصل یہ مشیر کون لوگ تھے…)
اس کے بعد یحییٰ خان صاحب کی حماقتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس نے ملک کو تباہ کر کے چھوڑا۔ انہیں ابتدا ہی میں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ ۱۹۵۶ء کا دستور بحال کر کے جلد سے جلد انتخابات کرالیں اور نیا دستور بنانے کا تجربہ اِن نازک حالات میں نہ کریں۔ مگر وہ نہیں مانے اور نیا دستور بنانے ہی پر مُصر رہے۔ پھر بعض اہم دستوری مسائل کا فیصلہ انہوں نے بطور خود کر ڈالا جن میں سے ایک فیصلہ جو پاکستان کی قسمت پر بڑا دُور رس اثر ڈالنے والا تھا وہ مشرقی و مغربی پاکستان کی مساوات (Parity) کو بیک جنبش قلم ختم کر ڈالنا تھا۔
حالانکہ یہ تصفیہ دونوں بازوئوں کے لیڈروں نے طویل گفت و شنید اور بڑے غور و خوض کے بعد کیا تھا۔ ۱۹۶۹ء کے پورے سال میں انہوں نے مشرقی پاکستان میں مارشل لاء کی پالیسی اتنی ڈھیلی ڈھالی رکھی کہ فوج کا رعب بالکل ختم کر دیا اور متعدد بار فوجی احکام کی علانیہ خلاف ورزیاں کر کے، وہاں کے مفسد عناصر نے پورا اندازہ کر لیا کہ وہ فوج کے مقابلے میں بے خطر سرکشی کر سکتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے آغاز میں یحییٰ صاحب نے لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) کے تحت انتخابات کرانے کا اعلان کیا اور انتخابی جدوجہد کو حدود کا پابند رکھنے کے لیے مارشل لاء کا ضابطہ نمبر ۶۰ جاری کیا۔ لیکن پورے ایک سال کی طویل انتخابی جدوجہد کے دوران نہ ضابطہ ۶۰ پر عمل درآمد ہوا اور نہ لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) کی پابندی کرائی گئی۔ کیونکہ مجیب الرحمن کا پورا پروگرام فریم ورک کے حدود کے باہر تھا۔ ایک سال تک مجیب الرحمن زبردستی انتخاب جیتنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے اور مشرقی پاکستان کی فوجی حکومت محض تماشائی بنی رہی۔ اُس نے برائے نام بھی کوئی ایسی تدبیر اختیار نہ کی کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہو سکیں۔ تقریباً یہی غلطی مغربی پاکستان میں بھی کی گئی۔ جس سے اِس امر کا پورا خطرہ پیدا ہو گیا کہ علاقائی پارٹیاں بھاری اکثریت میں جیتیں گی اور اُن کے جیتنے کے بعد پاکستان کا ایک ملک رہنا قریب قریب ناممکن ہو جائے گا۔ پھر مجیب الرحمن نے پورے ایک سال تک اپنی انتخابی مہم مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کی بنیاد پر اتنے زور و شور سے چلائی کہ جب انتخابات میں پورے پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کی حیثیت سے وہ کامیاب ہو کر نکلے تو اُن کے لیے آل پاکستان لیڈر کی پوزیشن اختیار کرنا قطعی ناممکن ہوگیا۔
اِن پے درپے حماقتوں کے باعث جب دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابی نتائج وہی برآمد ہوگئے جو اِن حماقتوں کا لازمی نتیجہ تھا، تو پھر حماقتوں کا ایک دوسرا سلسلہ شروع ہوگیا جس نے ۱۹۷۱ء کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے پاکستان کی وحدت کا خاتمہ کر دیا۔ چھوٹی موٹی باتوں کو چھوڑ کر میں اُن چند بڑی حماقتوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو اِس اندوہناک نتیجے کی موجب بنیں:
۱۔ جب یحییٰ صاحب کے اپنے ہی منعقد کرائے ہوئے انتخابات کے نتائج برآمد ہو چکے تھے، تو خواہ وہ اُن کے توقعات کے کتنے ہی خلاف ہوتے، لازم تھا کہ وہ جلدی سے جلدی اسمبلی کا اجلاس بلاتے اور اسمبلی کے اندر ہی دستور سازی کا کام شروع کرا دیتے۔ اس صورت میں کچھ نہ کچھ امکان تھا کہ کھلے مباحثوں میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہر ایک اپنے انتہائی نقطۂ نظر سے ہٹ کر بیچ کی کسی بات پر مصالحت کر لیتا۔ لیکن ایسا نہ ہونے دیا گیا اور اسمبلی کے باہر بند کمروں میں مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا، جو بدقسمتی سے دستوری مسائل کے تصفیے سے بہت کم متعلق تھا اور کچھ دوسرے ہی امور پر ’’لین دین‘‘ کے معاملات سے تعلق رکھتا تھا۔
۲۔ اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کی تاریخ کا اعلان کر دینے کے بعد صرف ایک پارٹی کے لیڈر کے اصرار پر کسی دوسری تاریخ کا تعین کیے بغیر اسے منسوخ کر دینا ایک بہت بڑی اور انتہائی تباہ کن غلطی تھی جس کی کوئی معقول توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
۳۔ جس پارٹی کے لیڈر کے کہنے پر اجلاس ملتوی کیا گیا تھا اُس کا کہنا یہ تھا کہ یا تو اجلاس ملتوی کیا جائے یا دستور سازی کے لیے ۱۲۰ دن کی قید ختم کر دی جائے۔ لیکن یحییٰ صاحب نے دوسری صورت اختیار کرنے کے بجائے اجلاس کی تاریخ ملتوی کرنے ہی کو ترجیح دی۔ وجہ ترجیح کیا تھی؟ اسے کوئی صاحب عقل آدمی نہ اُس وقت سمجھ سکتا تھا نہ اب سمجھ سکتا ہے۔
۴۔ مجیب الرحمن جو آگ مشرقی پاکستان میں بھڑکا چکے تھے وہ خود اُن کے قابو میں بھی نہیں رہی تھی۔ ہندو اور کمیونسٹ اور دوسرے مفسد عناصر اس حد تک حالات پر اپنی گرفت مضبوط کر چکے تھے کہ اسمبلی کے التوا کا شتابہ لگتے ہی انہوں نے یک لخت بغاوت شروع کر دی اور مجیب الرحمن خواہ چاہتے ہوں یا نہ چاہتے ہوں انہیں اُس سیلاب میں بہنا پڑا۔ کیونکہ اپنی واپسی کے راستے وہ خود اپنی حماقتوں سے بند کر چکے تھے اور حالات کو اُن مفسدین کے ہاتھوں میں دے چکے تھے جو مشرقی پاکستان کو پورے پاکستان کا حکمران بنانے کے بجائے پاکستان سے الگ کرنے ہی پر تلے ہوئے تھے۔ حالانکہ اگر شیخ مجیب الرحمن میں کوئی تدبر ہوتا، یا حالات اُن کے قابو سے نہ نکل گئے ہوتے تو اسمبلی کی التوا کی کڑوی گولی صبر کے ساتھ نگلی جاسکتی تھی۔ ذرا تحمل سے کام لیا جاتا تو یحییٰ خان صاحب کو بہرحال کبھی نہ کبھی اسمبلی بلانی ہی پڑتی اور مارچ ۱۹۷۱ء میں ہی بُلانی پڑتی۔ اور ظاہر ہے کہ اُس وقت مجیب الرحمن ہی اکثریت کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے لیڈر ہوتے۔
۵۔ یکم مارچ سے ۲۵ مارچ تک کے واقعات کچھ پرانے نہیں ہیں اور اُن کا بیشتر حصہ کچھ چھپا ہوا بھی نہیں ہے۔ ہر شخص اُن کو دیکھ کر رائے قائم کر سکتا ہے کہ اس دوران میں جو گفت و شنید ہوئی اُس میں یحییٰ صاحب، مجیب الرحمن صاحب اور بھٹو صاحب، تینوں ملک کو تقسیم کے راستے ہی پر لے جارہے تھے۔ وہاں تجویزیں ایسی ہی زیربحث آرہی تھیں جو ایک ملک کو دو بنا دیں… لیکن یہ گتھی کسی طرح نہیں سلجھ رہی تھی کہ … دو ملک ہو کر … یہ ایک ملک کیسے رہیں…؟
۶۔ اِنہی گفتگوئوں کے دوران میں اچانک یحییٰ صاحب نے نہ معلوم کس کے یا کس کس کے مشورے سے فوجی کارروائی کا فیصلہ کر ڈالا۔ یہ فیصلہ وہ غالباً یکم مارچ کی بغاوت شروع ہوتے ہی کر چکے تھے اور ۲۵؍ مارچ تک گفت و شنید اس لیے ہوتی رہی کہ اِس دوران فوجی کارروائی کی تیاری کر لی جائے۔ لیکن یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کے متعلق میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نہ کوئی صحیح قسم کا فوجی دماغ اس نوعیت کا فیصلہ کر سکتا تھا نہ سیاسی دماغ۔ فوجی کارروائی کے وقت مشرقی پاکستان میں صرف آٹھ ہزار فوج تھی۔ بعد میں ہوائی جہازوں سے (اور کچھ مدت تک بحری جہازوں سے بھی) فوج اور سامانِ جنگ بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہوائی جہازوں کی پرواز، فروری ہی میں ہندوستان نے اپنے علاقے سے ممنوع قرار دے دی تھی اور ہمارے جہازوں کو سیلون (حالیہ سری لنکا) کے راستے اُڑ کر جانا پڑتا تھا۔ اِن ذرائع سے فوج تو بھیجی جاسکتی تھی لیکن اتنا سامان جنگ نہ بھیجا جاسکتا تھا کہ وہ کسی بڑی جنگ کے لیے کافی ہوسکتا۔ اور یہ بات ابتدا ہی میں سمجھ لینی چاہیے تھی کہ کسی نہ کسی مرحلے پر ہندوستان وہاں فوجی مداخلت کرے گا۔ جس سے جنگ کی صورت میں مشرقی پاکستان کا دفاع تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
۷۔ فوجی کارروائی کے بعد چند ہی ہفتوں میں فوج نے باغیوں پر قابو پالیا تھا اور ملک میں امن قائم ہو گیا تھا۔ لیکن یکایک تمام مجرموں اور باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا۔ جس کے بعد ہی نہ صرف بنگال کے باغی بلکہ ہندوستان میں تربیت پائے ہوئے گوریلے اور خود ہندوستانی فوج کے بے وردی سپاہی کثیر تعداد میں اعلیٰ درجہ کے اسلحہ لے کر مشرقی پاکستان میں سیلاب کی طرح گھستے چلے آئے اور فوج اُن سے نمٹنے میں بری طرح الجھ گئی۔ ہندوستان نے جب محسوس کیا کہ صرف یہ نام نہاد ’’مکتی باہنی‘‘ پاکستان کی باقاعدہ فوج کا مقابلہ نہ کرسکے گی تو ۲۲؍ نومبر کو کسی اعلان جنگ کے بغیر اُس کی فوج مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ اِس عام معافی کا کس عقل مند نے حکومت کو مشورہ دیا تھا۔
۸۔ یحییٰ خان صاحب نے مشرقی پاکستان پر ہندوستان کے باقاعدہ حملے کے بعد بھی مغربی پاکستان سے کوئی حملہ ہندوستان پر نہیں کیا اور اِس بات کا انتظار کرتے رہے کہ وہ مغربی پاکستان پر بھی حملہ آور ہو جائے۔ پھر جب اُس نے اِدھر بھی حملہ کر دیا تو ہمارے جنرل صاحب صرف مدافعانہ جنگ کرتے رہے جس میں مغربی پاکستان کا بھی کئی ہزار مربع میل علاقہ کھو دیا۔ پھر جب ۱۶؍ دسمبر کو سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ہندوستان نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا تو دوسرے دن اِنہوں نے بھی جنگ بندی کردی۔ حالانکہ شروع سے نظر یہ آرہا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان ہی سے کیا جاسکتا ہے، اور اُس طرف ہندوستان جیسے ہی حملہ آور ہو اِس طرف سے اُس پر اتنے زور کا حملہ کیا جائے گا کہ وہ وہاں سے (مشرقی پاکستان سے) دبائو ہٹانے پر مجبور ہو جائے گا۔ لیکن خدا ہی جانتا ہے کہ اس نظریہ پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟۔ بہرحال یہ سب پر روشن ہے کہ مغربی پاکستان میں جنگ دانستہ نہیں کی گئی۔
۹۔ آخری چیز جو مشرقی پاکستان کے سقوط اور ہمارے ہزار ہا فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کو روک سکتی تھی وہ یہ تھی کہ روس اور پولینڈ ہی کے قراردادوں کو سلامتی کائونسل میں قبول کر لیا جاتا۔ اس طرح بین الاقوامی مداخلت سے جنگ بند ہو جاتی۔ دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے کے علاقے خالی کر دیتیں، اور کوئی سیاسی تصفیہ ہو جاتا۔ لیکن ہمارے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ان قراردادوںکو پھاڑ دیا، اور اُس کا خمیازہ ہم کو یہ بھگتنا پڑا کہ مشرقی پاکستان بزور شمشیر فتح اور پوری فوج ہزاروں سول ملازمین سمیت قیدی بن گئی۔ اس نتیجہ کو آخر کس کی دانائی یا نادانی قرار دیا جائے۔
اس مختصر تاریخی بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان نہ کوئی اتفاقی امر تھا، اور نہ محض فوری اسباب کا نتیجہ۔ بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے اِس المیہ کے وقوع تک ہر دور میں مسلسل ایسی غلطیاں کی جاتی رہیں جن کی بدولت ہمیں بالآخر یہ روزِ بد دیکھنا پڑا۔ اِن غلطیوں میں ہر ایک کا کیا حصہ رہا وہ میرے اوپر کے بیان سے ظاہر ہے۔
ڈھاکا یونیورسٹی میں تلاوت قرآن پر پابندی لگانے والے فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر عبدالبشیر کے دفتر میں پہنچ کر قرآن کی تلاوت کی۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق شیخ حسینہ کے دور میں ڈھاکا یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر عبدالبشیر نے اپنے طلباء پر رمضان المبارک...
بین الاقوامی جریدے 'دی اکانومسٹ' کے تحقیقی ادارے انٹیلی جنس یونٹ نے دنیا بھر میں جمہوریت کے حوالے سے سال 2021 کی رینکنگ جاری کردی۔ جمہوریت انڈیکس میں167 ممالک میں پاکستان کا 104 واں نمبر ہے، رپورٹ میں پاکستان کو نیم جمہوریت یا ہائبرڈ حکومت کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ...
انٹرنیشنل کرکٹ سے سبکدوشی کا اعلان کرنے والے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے کامیاب بیٹر راس ٹیلر اپنی الوداعی تقریر کے دوران جذباتی ہوگئے، اْن کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے گئے۔راس ٹیلر نے اپنے شاندار کیرئیر کے آخری میچ میں بنگلا دیش کے کرکٹر عبادت حسین کی آخری وکٹ لی،نیوزی لینڈ کے لیجنڈ ...
لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی سقوط پاکستان کی دستاویز پر دستخط کرنے والے وہ جرنیل ہے ، جن کی زندگی ہمیشہ نفرت کے ساتھ موضوع بحث رہی۔ اُن کے انداز اور مشرقی پاکستان کے لوگوں سے اُن کا رویہ اکثر تجزیوں میں رہتا ہے۔ جنرل نیازی ایک شکستہ ذہن کی پوری نفسیات رکھتے ہیں۔ مگر وہ مشرقی پاکستان...
کرنل(ر)فرخ نے مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کے پس پردہ حقائق بتاتے ہوئے کہا ہے کہ صاحبزادہ یعقوب نے لکھا ملٹری آپریشن نہ کرنا،ملک ٹوٹ جائیگا،وہاں چار جرنیل تھے سب نے کہا آپریشن نہیں مذاکرات کریں ،ادھر بھٹو سمیت کچھ مشیروں نے یحییٰ کو پمپ کیا۔ مشرقی پاکستان میں جنگ لڑنے والے کر...
سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی گئیں۱۶دسمبر۱۹۷۱ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعدپھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعدکب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہارخون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعدتھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کےتھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعددل تو چاہا پر شکست...
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے پہلے مرحلے میں بنگلادیش نے پاپوا نیوگنی کو شکست دیکر سپر 12 مرحلے میں رسائی حاصل کرلی۔ اومان میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے پہلے مرحلے میں بنگلادیش نے اومان اور پاپوا نیوگنی کو شکست دے کر اگلے مرحلے میں رسائی حاصل کرلی۔بنگلادیش نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 ا...
بنگلہ دیشی حکومت کے انتہا پسندانہ اقدامات کے بعد اب ملک میں سنجیدہ نوعیت کے خطرات سر اُٹھانے لگے ہیں۔ بدقسمتی سے ریاستی پالیسیوں کے اندر ملکی حالات کی خرابی ڈھونڈنے کا کوئی رجحان جدید ریاستوں کے تجربے نے باقی نہیں رہنے دیا۔ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات ریاستی پروپیگنڈے ک...
بنگلہ دیش میں پاکستان حامیوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔بنگلہ دیش کی مکروہ صورت حسینہ واجد کی حکومت نے انصاف کا خون کرتے ہوئے سینتالیس سال پرانے معاملات کو اپنے بدبودار انتقام کا ہدف بنا رکھا ہے۔ جس میں 70 اور اسی سال کے بزرگ حضرات پر اس نوع کےالزامات لگائے ...
پاکستانی کرکٹ ٹیم اور کرکٹ مینجمنٹ کے لئے ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کے مقابلے ایک لمحہ فکریہ بن کر سامنے آئے ہیں ، جس میں ٹیم انتظامیہ سے لے کر پاکستان کے کھلاڑیوں تک تمام کے تمام ذمہ داران اور کھلاڑی نااہل ، ناکام اور ناکارہ ثابت ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ پاکستانی ٹیم کے تمام شعبوں میں مای...
بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت کے رہنما کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ 1971ء کی جنگ میں مختلف جرائم میں ملوث رہے تھے۔ اب آئندہ چند ماہ میں بھی کسی بھی وقت سزائے موت پر عملدرآمد ہو سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے جماع...
معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کے بنگلہ دیشی رہنماؤں کی پھانسی پر پاکستانی ردِ عمل پر تنقید نے ایک دلچسپ بحث کا آغاز کر دیا ہے۔انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے حالیہ بیان کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ، جس میں چوہدری نثار نے بنگلہ دیش میں ہون...