... loading ...
بلوچستان ، اس کا ساحل اور وسائل فی الحقیقت بکائو مال ہیں۔ یہ صوبہ وفاق اسکی طاقت ور افسر شاہی، بڑے سرمایہ داروں ، ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں، سیکورٹی اداروں، صوبے کی بدعنوان، نااہل یا کاہل بیوروکریسی اور م جملہ سیاسی اشرافیہ کی دسترس میں ہے ۔ سیاسی اشرافیہ کی سیاست کا دارومدار وبقاء صوبے اور یہاں کے حقوق اور یہاں کے عوام کی کسمپرسی اور محرومیوں میں پنہاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعرہ زنی بے کار کی مشق ثابت ہوتی رہی ہے ۔ نواب اکبر خان بگٹی نے ڈیرہ بگٹی ثانیاً صوبے کی وسائل ومعدنیات کی لوٹ مار بارے سخت موقف اپنایا ۔یہاں تک کہ جان بھی دیدی، مگر اس تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی شعور اور بیداری اس سیاسی اشرافیہ کی شخصی اور گروہی ترجیحات کے باعث مٹی کی دھول کی مانند بیٹھ گئی ۔امروز قلیل آبادی پر مشتمل ساحلی شہر گوادر میں مفلوک الحال مرد اور زن اپنی بنیادی انسانی ،قانونی اور آئینی حق کے لیے سڑکوں پر بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس تحریک کے دست و بازو بننے کی بجائے بعض سیاسی و کاروباری لوگ اسے طاقت ور حلقوں کے ہاتھوں تختہ مشق بنانے کی فی الواقع جسارتیں ہور ہی ہیں ۔بلوچستان کے سمندر کے اندر مقامی ماہی گیروں پر رزق کے دروازے بند کیے گئے ہیں اور ایران سے منسلک سرحدی گزر گاہوں پر طرح طرح کی قیود اور سرحدی اضلاع کے عوام کو شکنجوں میںجکڑنے میں سیاسی اشرافیہ طاقت ور مافیائوں کے شریک کاروبار ہیں ۔ درحقیقتاگر یہ تحریک ہدف پاتی ہے تو گوادر سے وزیر اعلیٰ ہائوس تک، اس سے آگے بلکہ اسلام آباد تک لوگوں کے شقم خالی ہوں گے۔ گوادر بلکہ تربت آواران پنجگور مکران اور خاران کے لوگوں کو یقین ہو چلا ہے کہ ان کے حقوق اور روزگارکا تحفظ یقینی ہو چلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوادکے عوام ایک ماہی گیر اور غریب خاندان کے فرد مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں متحد ہو ئے ہیں ۔ یہ تحریک ہر لحاظ سے عوامی ہے،جس میں سیاسی شعبدہ بازیاں اور پس پردہ لے دے کی منافقت کاریاں شامل نہیں۔ اس بنا صوبے کے سیاسی بڑے اور جماعتیں گومگوں کی کیفیت کا شکار ہیں، اور خوف و تذبذب میں مبتلا ہیں ۔
جام کمال خان کے خلاف ان کی کابینہ کے ہم جماعت افراد نے یہاں تک کہ تخریب کاری کی کہ جب تربت میں 10 اکتوبر 2021کو دستی بم دھماکے میں جاں بحق دو بچوں جبکہ 3اکتوبر 2021کو تربت میں چھاپے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دس سالہ بچہ جاں بحق ہو ا تھاکے ورثاء کو میتیں کوئٹہ لا کر دھرنے کے لیے ورغلایا ۔چنا ں چہ ریڈ زون کے اندر میتیوں کے ہمراہ دھرنے د یے گئے۔ اس طرح جام کمال مخالف ماحول بنایا گیا ،مگر یہ اور دوسرے گوادر کی حقیقی صورتحال سے جان خلاصی کے جتن کی حکمت عملی اپنائے رکھی ۔ بلوچستان اسمبلی میں بی این پی مینگل ، جمعیت علماء اسلام اور پشتونخوامیپ کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔اس کے علی الرغم جب بات سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی تھی توحزب اختلاف نے اول بجٹ.22 2021 کے خلاف اسمبلی گیٹ کے باہر دھرنا دیا۔ عبدالقدوس بزنجو جو ا وقت اسمبلی کے اسپیکر تھے نے حزب اختلاف کو تعاون فراہم کیا، بلکہ وہ سارے کرتوت عبدالقدوس بزنجو کے عمل اور کردار سے عیاں تھے، کہ جام کابینہ کے بعض افراد بھی اس شر میں شامل تھے ۔ان حالات میںپولیس نے بکتر بند گاڑی کی ٹکر سے اسمبلی کا گیٹ توڑا تاکہ اراکین اسمبلی کے لیے جانے کا راستہ صاف ہو ۔جس میں ایک دو ارکان حزب اختلاف کے زخمی بھی ہوئے ۔دیر تک اسمبلی کا احاطہ دنگا فساد کا مرکز بنا رہا ۔جس کے بعد حزب اختلاف والے جام کمال کے خلاف مقدمہ درج کروانے بجلی روڈ تھانے پہنچ گئے۔ وہاں چند دن احتجاج کا تماشہ لگا رہا ۔ گویا اول تا آخر سارے کا سارا اسکرپٹ متحدہ حزب اختلاف، عبدالقدوس بزنجو اور کابینہ کے جام مخالف ارکان پر مشتمل تھا ۔
آج جبکہ گوادر کے لوگ سب کے سب گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔ مگر حزب اختلاف کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی ہے بلوچستان عوامی پارٹی ( بی اے پی ) ،قوم پرست رہنما سید احسا ن شاہ اور بی این پی عوامی کے اسد بلوچ کو بھی اب بلوچ عوام کے حقوق کی پامالی نظر نہیں آرہی۔ یہ عناصر احتجاج بزور طاقت روندنے کے لئے سرکار کو شے دے رہے ہیں۔ البتہ نیشنل پارٹی واضح طور پر گوادر کو حق دو تحریک کے ساتھ شامل و کھڑی ہے ۔ جمعرات دسمبر 2021کو فورسز کی بھاری نفری مولانا ہدایت الرحمان کو گرفتار کرنے پہنچی تو پیش ازیں بلوچ قوم پرست رہنماء مستی خان کو حراست میں لے لیا گیا ۔چناں چہ فورسز نے جانب دھرناحرکت شروع کی تو گوادر کی خواتین شام ہی کو گھروں سے نکل کر دھرنا گاہ پہنچیں۔ کئی خواتین ہمراہ بستر لے جاکر وہیں مقیم ہوئیں ۔ گوادر کی خواتین نے 30نومبر 2021 کو سڑکوں پر نکل کر اپنی نوعیت کی تاریخ رقم کر دی ۔ نیز 10دسمبر کو پورے کا پورا گوادر سڑکوں پر تھا ۔ یعنی عوامی قوت کا بے مثال مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ جیسا کہ کہا گیا کہ یہ کسی سیاسی جماعت کا احتجاج نہیں اور گوادر کے مر د و زن نے مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت قبول کر لی ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان یکایک نمودار ہوئے ہیں۔ بلکہ گوادر کے شاہراہوں اور چوراہوں پر ان مسائل اور مطالبا ت کے ساتھ برسوں سے احتجاج کرتے ہوئے آ رہے ہیں۔ اور آ ج وہاں کے عوام کے نعرہ حق کو مہمیز ملی ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان تحریک کی حمایت میں آواز اٹھا چکی ہے۔ سراج الحق خود گوادر دھرنے میں شریک ہوئے ۔ 12دسمبر کو اس جماعت نے پورے ملک میں بلوچستان کو حق کی حمایت اور یکجہتی کا دن منایا ۔ دراصل گوادر اور متصل اضلاع کے سیاسی اور دوسرے سرمایہ دارمافیائوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے ہیں۔ خود بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایم پی اے حمل کلمتی اس تناظر میں قابل احتساب اور محاسبہ ہیں ۔صوبائی وزیر منصوبہ بندی ظہور بلیدی ، صوبائی وزیر ماہی گیر حاجی اکبر آسکانی جیسے لوگوں کی ایماء پر مولانا ہدایت الرحمان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے ْ صوبے کی بدقسمتی ہے کہ حکومت مخصوص نیت اور ہدف رکھنے والے ٹولے کے ہاتھ میں ہے ۔ وزیراعلیٰ ہائوس قطعی اہمیت کھو چکا ہے ۔ یہ تسلسل برقرار رہا تو آگے بہت کچھ خرابیاں پیدا ہونے کا قوی خدشہ ہے ۔یہاں تک کہ حکومت کی مدت پوری ہونے ماضی کی طرح نگران کابینہ اور نگران وزیر اعلیٰ کا منصب تک فروخت ہونا یقینی ہے۔
نیزحکومتیں مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں گی تو بلوچستان یقینی طور رفتہ رفتہ مزید تنزل کا شکار ہو گا۔ اس صورت میں عوام، اداروں اور ریاست کے درمیان فاصلے پیدا ہوں گے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 11دسمبر کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ بدعنوان اور چوروں کے سوا سب سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔مطلب یہ ہوا کہ وزیر اعظم بدعنوانی کو ملک کے لیے شدت پسندی سے زیادہ مہلک سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی رائے اور موقف کی نفی بلوچستان میں کھیلے جانے والے سیاسی کھیل سے ہوتی ہے کہ جہاں وزیر اعظم کے تعاون سے بلوچستان کی حکومت غیر محفوظ ہاتھوں میں دے دی گئی ہے ۔دراصل گوادر میں لوگ اسی بدعنوانی اور غریب کے حق روزگار پر ڈا کے خلاف کیخلاف بپھرے ہیں ۔مارچ 2022 میں ریکوڈک سے متعلق ہونے والے معاہدے سے مزید عیاں ہو جائے گا کہ صوبے کا حکومتی گروہ کس قدر صوبے کے حقوق کا محافظ اور ضامن ہے ۔سردست یہ حکومت امن کے عذر کے تحت 180ار ب روپے کے ترقیاتی منصوبے ایف ڈبلیو او کو دے چکی ہے۔ حالانکہ امن کا مسئلہ تو پیش نظر نہیں ہونا نہیںچاہیے کہ جام کمال کے خلاف تخریب میں خراب امن کا نقطہ بھی یہ گروہ پیش کرتا رہا ہے۔ یعنی اب جب اقتدار ان کے ہاتھ ہے تو امن کی صورتحال بہتر ہونی چاہیے ؟ اس قدر طوطا چشم ہیں کہ 17 نومبر2021 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) کے ذریعے انتخابات اور دوسرے بل منظور کئے جانے تھے تو بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ پارٹی ) عبدالقدوس بزنجو اور ظہور بلیدی وفاقی حکومت کی خوشی کے لیے متواتر کہتے رہیں کہ بی اے پی کے ارکان سینٹ و قومی اسمبلی مشترکہ اجلاس میں بہر طور شرکت کو یقینی بنائیں۔یہ اراکین بغلیں بجاتے ہوئے اسلام آباد پہنچے اور بل کی منظوری میں شامل ہوگئے۔ پھر چھ دسمبر کو صوبائی کابینہ کے فیصلوں بارے ذرائع ابلاغ کو تفصیل بتاتے ہوئے ظہور بلیدی نے بتایا کہ بلوچستان کے ستر فیصد حصے میں بجلی نہیں تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیسے استعمال ہو گی ۔ انکا کئی دنوں بعد یہ اظہار ظاہر کرتا ہے کہ بل کی منظوری سے قبل یہ جماعت اوراس کے ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کسی مشاورت میں شامل نہیں رہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔