... loading ...
(مہمان کالم)
معصوم مرادآبادی
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اعترا ف کیا ہے کہ انھوں نے ایودھیا تنازعہ کا فیصلہ سنانے کے فوراً بعد اپنی پسندیدہ شرابپی تھی۔انھوں نے اس کا اعتراف اپنی آپ بیتی میں کیا ہے، جو حال ہی میں منظرعام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے ایودھیا فیصلے سے متعلق کئی اور باتیں بھی کہی ہیں، لیکن سب سے زیادہ اعتراض ان کے اس بیان پر ہی ہورہا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جسٹس گوگوئی نے جس قسم کا فیصلہ سنایا تھا، اس کے بعد ان کا ہوش میں رہنا ان کی صحت کے لیے مضر ہوسکتا تھا۔ اس لیے انھوں نیمدہوش ہونا زیادہ مناسب سمجھا۔
ظاہرہے ایسے فیصلے‘ جن سے دوسروں کے مذہبی جذبات چھلنی ہوتے ہوں، انسان کے ہوش وحواس کو برقرار نہیں رکھتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جسٹس گوگوئی نے اپنے اس انتہائی متنازعہ فیصلے کے بارے میں یہ لن ترانی بھی کی ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا بھر کے مذہبی گروہوں میں مذہبی تصادموں کوپْرامن اور منصفانہ طریقہ سے سلجھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنے اس فیصلے کوتاریخ انسانی میں عدالتی قربانی کی ایک مثال قرار دیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ایودھیا تنازعہ پر ان کے فیصلے کی روشنی میں دنیا میں مذہبی ٹکراؤ کو منصفانہ طورپر حل کرنے کی امیدکب او کہاں پیدا ہوئی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کے اس فیصلے سے تحریک پاکر فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے ہیں اور مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک نے زور پکڑلیا ہے، جو اس ملک میں امن وامان اور سلامتی کے لیے خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی ہے۔اس کی تازہ مثال متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف فرقہ پرستوں کی حالیہ شرانگیزی ہے۔
اپنی آپ بیتی میں جسٹس گوگوئی نے سب سے زیادہ وضاحت ایودھیا تنازعہ پر دئیے اپنے فیصلے پر ہی کی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے حل کے پیچھے ’روحانی طاقت‘کارفرماتھی۔ فیصلہ سنانے کے بعد وہ اپنی بنچ کے سارے ججوں کو لے کر نئی دہلی کے تاج مان سنگھ ہوٹل میں گئے اور وہاں انھوں نے کھانے کے بعد اپنی پسند کی سب سے عمدہ شراب حلق میں انڈیلی۔ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کون سی روحانی طاقت تھی جو انھیں فیصلہ کے بعد شراب خانے لے گئی۔شراب پینا کسی بھی شخص کاذاتی فعل ہے اور جسٹس گوگوئی جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں شراب حرام نہیں ہے۔ہاں اسلام میں ضرور اسے تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔اس لیے ہمیں ان کے اس عمل پرکوئی اعتراض نہیں ہے، ہاں اس بات پر ضرور اعتراض ہے کہ انھوں نے 500سال پرانی مسجد پر مندر بنانے کا فیصلہ اپنے پورے ہوش وہواس کے ساتھ سنانے کے باوجود اپنے ہوش کھونا کیوں ضرور گردانا؟دنیا جانتی ہے کہ ایودھیا تنازعہ پر ان کا فیصلہ ایک یقینا جانبدارانہ فیصلہ تھا۔ کیونکہ انھوں نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کی مظلومیت کا اعتراف کرنے کے باوجود فیصلہ مندرکے حق میں سنایا۔یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت مٹانے کے خواب دیکھنے والی طاقتوں دوبارہ سے سرگرم ہوگئیں۔اس کی تازہ مثال متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف شرپسندوں کی محاذآرائی ہے۔
آپ نے دیکھا کہ گزشتہ6دسمبر کوجس وقت ملک بھرمیں بابری مسجد کا یوم شہادت منایا جارہا تھا، اسی وقت متھرا کی شاہی عیدگاہ میں شرپسند عناصر اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے تھے۔انھوں نے یہاں بھی اسی طرز پر مورتی نصب کرنے کی کوشش کی، جیسا کہ بابری مسجد میں کی گئی تھی۔اس کوشش کا واحد مقصد یہ تھا کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کو بھی اسی طرح متنازعہ بنایا جائے جس طرح ایودھیا کی بابری مسجد کو بنایا گیا تھا۔حالانکہ انتظامیہ اور پولیس نے سخت حفاظتی بندوبست کرکے اس کوشش کو فی الحال ناکام بنادیاہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی جنھوں نے متھرا کے امن وامان کو غارت کرنے کی کوشش کی اور ایک فرقہ کی عبادت گاہ کو ناپاک کرنا چاہا۔شاہی عیدگاہ میں کرشن بھگوان کی مورتی نصب کرنے کاپروگرام چونکہ بابری مسجد کی شہادت کے دن رکھا گیا تھا،اس لیے پولیس اور انتظامیہ نے اس پر خاص نظر رکھی۔قابل غور بات یہ ہے کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کے معاملے میں گھی ڈالنے کاکام خود ریاست کے نائب وزیراعلیٰ کیشوناتھ موریہ نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ’’ایودھیا میں مندر کی تیاری ہے اور اب متھرا کی باری ہے۔‘‘یعنی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد متھرا کی شاہی عید گاہ کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو بابری مسجد کے ساتھ ہوا تھا۔
یہ ایک ایسے شخص کا بیان تھا جس نے آئین کا حلف اٹھاکر نائب وزیراعلیٰ کی کرسی حاصل کی ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ یہ قانون ایودھیا جیسے مزید تنازعات کو پیدا نہ ہونے کے خطرات کو ٹالنے کے لیے نرسمہا راؤ کے دور حکومت میں 1991میں بنایا گیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی رام مندر ٹرسٹ کو سونپی تھی تو اس وقت آرایس ایس اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے یہ کہا تھا کہ اب ملک میں ایودھیا جیسا کوئی دوسرا تنازعہ پیدا نہیں ہوگااور اس سلسلے کو یہیں ختم کیا جاتا ہے۔مگر فسطائیت کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ وہ زبان سے جوکچھ کہتی ہے اس کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔
یو پی کے نائب وزیراعلیٰ کیشوناتھ موریہ کی طرف سے متھرا کی شاہی عیدگاہ کا مسئلہ اٹھانا کوئی اتفاقی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بی جے پی کی ایک حکمت عملی کا حصہ ہے اور وہ اس کے ذریعہ وہ یو پی اسمبلی کے انتخابات میں ہندو رائے دہندگان کو راغب کرنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کیشو ناتھ موریہ کے بیان کے بعد متھرا کی عیدگاہ پر راجیہ سبھا میں بھی ایک بی جے پی ممبر نے سوال کھڑا کیا۔بی جے پی ممبرپارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ نے کہا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ ۱۹۹۱ کوواپس لیا جائے۔ اس سوال کو راجیہ سبھا میں پوچھنے کی اجازت کے معاملے میں کافی ہنگامہ بھی ہوا۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ تاریخی مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک دراصل ہندوستان سے مسلم شناخت کو مٹانے کے لیے شروع کی گئی ہے۔یہ تحریک صرف مسجدوں کا نام ونشان مٹانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس ملک میں مسلم تہذیب کی جتنی بھی نشانیاں ہیں، وہ اس وقت خطرے میں ہیں۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دور اقتدار کی سب سے بڑی حصولیابی یہی ہے کہ انھوں نے اپنی ریاست میں مسلمانوں کو بالکل حاشئے پر پہنچادیا ہے۔انھوں نے کئی ایسے شہروں کے نام تبدیل کردئیے ہیں جو مسلم ناموں سے پہچانے جاتے رہے ہیں۔ مزید کئی شہروں کے نام ابھی تبدیل کئے جانے ہیں، جن میں اعظم گڑھ، علی گڑھ اور سلطان پور جیسے شہر بھی شامل ہیں۔
بی جے پی لاکھ اس بات کا دعویٰ کرے کہ وہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے ایجنڈے پر گامزن ہے، لیکن درحقیقت وہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرکے یہاں ہندو راشٹر بنانے کی راہ میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم شناختوں پر پے درپے حملے کئے جارہے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے ان کا وجود مٹانے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔شرپسندوں کا سب سے بڑا نشانہ وہ تاریخی عمارتیں ہیں جنھیں ملک کے مختلف حصوں میں مسلم بادشاہوں نے تعمیر کرایا تھا۔حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نے قطب مینار کے احاطے میں واقع مسجد قوت الاسلام کے اندرمورتی رکھنے اور وہاں پوجا پاٹ کی اجازت دینے سے متعلق عرضی خارج کی ہے۔اس عرضی میں کہا گیا تھا کہ مسجد قوت الاسلام کو جین اورہندو مندروں کے ملبے پر بنایا گیا ہے، لہٰذا یہاں پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے۔ درخواست گزاروں کا دعویٰ تھا کہ محمدغوری کی فوج نے قطب مینار کمپلیکس کے اندر۲۷جین اور ہندو مندروں کو مسمار کردیا تھااور ان کے ملبے پر قطب مینار کے علاوہ ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی۔درخواست گزاروں نے ٹرسٹ بنانے کی اجازت اور مندر کے اندر بتوں کی پوجا کرنے کا حق طلب کیا تھا۔عدالت نے مذکورہ عرضی کو خارج کرکے دانش مندی کا ثبوت فراہم کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ آگے اس قسم کے مزید معاملے سامنے نہیں آئیں گے۔ شرپسند ہر وقت اس تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ انھیں کب موقع ملے اور وہ مسلم شناختوں کو مٹانے کے درپہ ہوں۔
متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجدوں پر شرپسندوں کی نگاہیں شروع سے ہی لگی ہوئی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ رام جنم بھومی مکتی آندولن کے وقت یہ نعرے بڑے زوروشور سے لگائے جاتے تھے کہ ’’ایودھیا تو ایک جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘یہ اور اس قسم کے دوسرے نعروں کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی بھی طرح مسلم فریق کو جھکنے پر آمادہ کیا جائے اور وہ بابری مسجد سے اپنی دستبرداری کا اعلان کردے۔ اس وقت بعض مسلم دانشوروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ بابری مسجد سے دستبرداری کے ساتھ دیگر عبادت گاہوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دور اندیش لوگوں کی اس وقت بھی یہی رائے تھی کہ بابری مسجد محض ایک عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص کے دفاع کی ایک علامت ہے۔ اگر مسلمان اس سے دستبردار ہوگئے تو اس سلسلے کے مزید مطالبات سامنے آئیں گے اور ان کا جینا دشوار کردیا جائے گا۔ شکر اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے تمام تر نقصانات کے باوجود بابری مسجد سے دستبرداری کا فارمولا منظور نہیں کیا اور حکومت کو اسے حاصل کرنے کے لیے عدالت کی پناہ لینی پڑی۔عدالت کے ذریعہ بابری مسجد کی اراضی حاصل کرنے کے بعد اب دوسری عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔ جسٹس گوگوئی کے فیصلے کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس نے شرپسندوں اور مسلم دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار دے دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔