... loading ...
ماضی میں روس اور بھارت کے درمیان کم و بیش ویسے ہی سفارتی و دفاعی تعلقات رہے ہیں جو آج کل پاکستان اور چین کے مابین پائے جاتے ہیں ۔لیکن یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج بھی روس اور بھارت کے ریاستی تعلقات میں وہی سفارتی گرم جوشی اور والہانہ پن پایا جاتاہے، جس پر کبھی اِن دونوں ممالک کی قیادتیں فخر و مباہت کا اظہار کرتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھیں ؟ اس سوال کا مختصر جواب تو یہ ہی ہے کہ ’’نہیں ‘‘۔ کیونکہ وقت کے سمندر نے پلو ں کے نیچے سے بہت سا پانی گزار دیا ہے۔یا سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ بھارت اور روس کی قیادت نے پانچ دہائی قبل سفارتی رشتہ و یگانگت کی جو پرشکوہ اور شاندار عمارت بڑی محنت سے تعمیر کی تھی ،بدقسمتی سے کچھ نامناسب دیکھ بھال اور کچھ غیر ضروری نئی سفارتی تعمیرات کے باعث ،اَب وہ انتہائی خستہ حال اور بوسیدہ ہوچکی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کے شاندار سفارتی و دفاعی تعلقات کے تاج محل میں پڑنے والی بڑی بڑی درز اور دراڑوں کا دونوں ممالک کی حالیہ قیادت کو بھرپور ادراک اور احساس بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک اپنے سفارتی تعلقات کے کھنڈر نما تاج محل کو مرمت کرکے واپس اصلی حالت میں بحال کرنے کا قطعاً کوئی ارادہ، اور خواہش نہیں رکھتے ۔ کیونکہ دونوں ممالک ہی اپنی اپنی جگہ نئے سفارتی رشتوں و بندھنوں میں کچھ اس انداز میں بندھ چکے ہیں کہ فریقین کے نزدیک برسوں پرانے تمام یارانے یکسر بے فائدہ اور فضول ہوکر رہ گئے ہیں ۔
ویسے بھی جب مقصد اور منزل ہی ایک نہ ہوتو پھر ملنے والوں کی ملاقات چاہے جس انداز اور شان سے بھی ہو۔ بس ایک روایتی سا واقعہ اور معمول کی کارروائی ہی بن کر رہ جاتی ہے اور گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں ایسا ہی ایک بے رونق واقعہ روسی صدر ولادمیر پوٹن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی باہمی ملاقات کی صورت میںدیکھنے کو دستیاب ہوا۔ بظاہر بھارتی میڈیا میں روسی صدر ولادمیر پوٹن کے حالیہ دورہ بھارت کو تاریخی اور فقید المثال کے لاحقے اور سابقے کے ساتھ لکھا اور بیان کیا جا رہا ہے۔ لیکن بولنے والوں کے لہجہ اور لکھنے والوں کی تحریر میں چھپی ہوئی حسرت و یاس سے عیاں ہے کہ روس اور بھارت کے تعلقات میں گزشتہ چند برسوں میں اتنا کچھ ٹوٹ کر بکھر چکا ہے ،اَب آپسی اعتماد کے بکھرے ہوئے ٹکڑے بھی اکھٹے کرنا کسی فریق کے لیئے ممکن نہیں رہاہے۔
دراصل پوٹن اور مودی کی ملاقات کو ایک گھاگ تاجر اور مجبور گاہک کی ملاقات کا عنوان دے دیا جائے تو عین قرین قیاس ہو گا۔ کیونکہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں روسی صدر ولادی میر پوٹن ایک سمجھدار ، چرب زبان اور گھاگ تاجر کے روپ میں دکھائی دیے جس کا مطمح نظر ہی جلد ازجلد اپنا مال و اسباب بیچ کر زیادہ سے زیادہ روپیہ پیسا اور منافع کمانا تھا۔جبکہ اُس کے مقابلے میں بھارتی وزیراعظم کی حیثیت ایک ایسے مجبور اور لاچار گاہک کی مانند نظر آئی، جو اپنی غیر ضروری بدزبانی اور بداعمالیوں کے باعث آس ،پڑوس میں اتنے زیادہ دشمن پیدا کر چکاہے کہ اَب اُسے اپنی شرانگیزی کی آگ کے ا لاؤ کو بدستور روشن رکھنے کے لیے ڈھیر سارا اسلحہ وبارودکا ایندھن درکار ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن، روسی ساختہ اسلحہ و بارود بھارتی حکومت کو بھاری داموں فروخت کرنے کے لیے ہی عازمِ نئی دہلی ہوئے تھے۔اگر ماسکو کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ روسی صدر کا حالیہ دورۂ نئی دہلی انتہائی کامیاب رہا ۔ کیونکہ ماسکو نے خریداری کے کئی دفاعی معاہدوں پر نئی دہلی سے بآسانی دستخط کروالیے ہیں ۔یقیناعسکری سازو سامان کی خریداری کے بڑے معاہدوں سے جہاں ماسکو کو اپنی معاشی حالت مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی ،وہیں نئی دہلی پر آنے والے ایام میں روسی ساختہ مہنگا اسلحہ خریدنے سے دگرگوں بھارتی معیشت پر شدید اور سخت معاشی دباؤ بھی پڑے گا۔
واضح رہے کہ دفاعی تھنک ٹینک سپری کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، جو عالمی دفاعی تجارت کا تقریباً 10 فیصد حصہ اِدھر اُدھر سے اور دنیا بھر سے برآمد کرتا ہے۔اب تک بھارت کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک روس رہا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان ہونے والی دفاعی تجات 70 فیصد سے کم ہوکر صرف 49 فیصد کی سطح تک رہ گئی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ نئی دہلی کا عسکری سازو سامان کی خریداری کے لیے دیگر ممالک مثلاًامریکا، فرانس اور اسرائیل وغیرہ سے رجوع کرنا ہے۔ لیکن اَب روس نے ایک بار پھرسے بھارت کو بڑی دفاعی سودے بازی کرنے پر آمادہ کر لیاہے۔ اِس ضمن میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کے حالیہ دورہ بھارت کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا جاسکتاہے ۔بادی النظر میں اس دورے کی سب سے نمایاں بات روسی ساختہ ایس400 میزائل دفاعی نظام ہے، جسے بھارت کو فراہم کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ دنیا کے سب سے جدید ترین سطح سے فضا میں مار کرنے والے دفاعی نظام میں سے ایک ہے۔ اس کی رینج 400 کلومیٹر (248 میل) ہے اور یہ بیک وقت 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ ایک ہی وقت میں دو میزائل کا نشانہ لے سکتا ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ اس دفاعی ٹیکنالوجی کے حاصل ہوجانے سے اُسے چین اور پاکستان کے خلاف اہم دفاعی صلاحیت حاصل ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکی صدر کی جانب سے پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود اس میزائل سسٹم کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے۔واضح رہے کہ واشنگٹن نے کئی روسی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ روس، ایران اور شمالی کوریا کو اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا نشانہ بنانے کے لیے2017 میں کاؤنٹرنگ امریکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز ایکٹ (کاٹسا) متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ کسی بھی ملک کو ان ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر دستخط کرنے سے بھی روکتا ہے۔اگرچہ یہ معاہدہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تناؤ اور کشیدگی بھی پیدا کر سکتا ہے لیکن بھارت چین جیسے دشمن کی موجودگی میں امریکا کی وقتی ناراضگی تو مول لے سکتاہے لیکن وہ ایس 400 کے سودے سے دستبردار ہونے کا رسک لینے پر قطعی طور پر تیار نہیں ہے۔
تاہم، دونوں ممالک کے درمیان روسی صدر کے حالیہ دورہ کے باوجود دفاعی معاہدوں کے علاوہ کوئی بڑا اور قابل ذکر تجارتی معاہدہ دیکھنے میں نہیں آیا۔جس سے عالمی سطح پر یہ تاثر اُجاگر ہوا ہے کہ ماسکو اور نئی دہلی دفاعی سازو سامان کی خریداری کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں کسی بھی مقام ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں ۔خاص طور پر گزشتہ چند برسوں میں روس اور بھارت کے درمیان کمرشل تجارت ماضی کے مقابلے میں بہت حد تک کم ہو گئی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق روس اور بھارت کے درمیان 2019 میں دو طرفہ تجارت کا حجم 11 ارب ڈالر تھا لیکن اَب یہ نصف سے بھی زیادہ کم ہوچکا ہے۔ جبکہ چین اور روس کے قریب آجانے سے بین الاقوامی سیاست میں بھی مختلف معاملات پر ماسکو اور نئی دہلی یکسر ایک دوسرے کے مخالف سمت میں کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔شاید اسی وجہ سے بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ چین کے ساتھ جاری حریفانہ کشمکش میں ماسکو پر اعتبار کرنا بے وقوفی ہوگی ۔ جبکہ ماسکو بھی بڑی تیزی کے ساتھ اپنے سفارتی معاملات و تعلقات بھارت کے دیرینہ حریف پاکستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی بھرپور کوششیں کررہاہے۔
دراصل بھارت اور امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات ایک ایسا تلخ حادثہ ہے ،جس نے ماسکو کو چین اور پاکستان کے قریب آنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ جبکہ روسی وزیر خارجہ لاوروف ایک سے زیاہ بار یہ کہہ چکے ہیں’’ امریکا انڈوپیسیفک حکمت عملیوں کو فروغ دے کر بھارت کو روس اور چین مخالف سرگرمیوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔نیز چین اور روس کے خلاف بننے والے دفاعی اتحاد کواڈ کے بارے میں ماسکو کی پریشانیوں کو بھی حالیہ برسوں میں بیجنگ کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے ذیل میں سمجھا جا سکتا ہے۔کیونکہ روس کا ایشیا میں اپنے اقتصادی اور جغرافیائی و سیاسی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔نیز امریکہ کے ساتھ چین کے بگڑتے تعلقات نے بھی بیجنگ اور ماسکو کو مشترکہ مفادات کی ایک لڑی میں پرودیا ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر ماسکو نئی دہلی کو دفاعی ساز وسامان بیچ کر اپنی معیشت کو سہارا تو لگاسکتاہے لیکن اس سے آگے قدم بڑھانا شاید وہ اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے لیئے نقصان دہ سمجھتاہے۔
اگرچہ روسی صدر ولادی میر پوتن کا دورہ خصوصی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت کے لیئے بڑی اہمیت کا حامل ہوسکتاتھا ۔یعنی اگر بھارتی قیادت دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسکو سے فقط دفاعی خریداری کرنے کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں بھی اُس کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرتی تو اس اقدام سے مستقبل قریب میں نئی دہلی کو بے شمار فوائد حاصل ہوسکتے تھے ۔مثال کے طور پر ماسکو بیجنگ کو نئی دہلی کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کرسکتاتھا یا اُسے عظیم تجارتی منصوبے ون بیلٹ روڈ میں شامل کرواسکتا تھا۔زیادہ نہیں تو افغانستان میں بھارت مفادات کو کچھ نہ کچھ تحفظ تو فراہم کرواہی سکتا تھا۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ مودی سرکارامریکی زلف کی اس قدر اسیر ہوچکی ہے کہ وہ امریکا کے ایما پر خطے میں چین ،پاکستان اور روس کے خلاف بیک وقت جنگی محاذ کھولنے اور پھر اُسے جیت جانے کے بھی خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ چونکہ بھارتی قیادت کی اس بدنیتی کا ادراک ماسکو کو بھی بخوبی ہے شاید اسی لیے روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اپنے حالیہ دورہ نئی دہلی کا بنیادی ہدف صرف اور صرف مال کمانا رکھااور اُس نے اپنا یہ ہدف کامیابی کے ساتھ حاصل بھی کرلیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭