وجود

... loading ...

وجود

بلدیاتی قانون یا قبضے کی سازش

پیر 13 دسمبر 2021 بلدیاتی قانون یا قبضے کی سازش

حنید لاکھانی
۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا بھر ترقی یافتہ معاشروں میں رائج جمہوری نظام کی بنیاد وہاں کا فعال ، مستحکم اور با اختیار بلدیاتی نظام ہوتا ہے جس کا تسلسل وہاں کے پارلیمانی یا صدارتی نظام کو مضبوط تر بنا کر معاشرے کو خوشحال بناتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں 74سالوں میں اشرافیہ نے اپنے مفادات کی غرض سے مقامی حکومتوں کے نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا۔
سندھ حکومت کی ٹال مٹول، عدلیہ کی مداخلت اور الیکشن کمیشن کے سخت رویے کے بعد سندھ حکومت بادل نخواستہ صوبے میں بلدیاتی الیکشن کیلئے بظاہر تیار دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود پیپلزپارٹی وسائل پر قبضے کی روش کو برقرار رکھنے کی سعی میں بھی مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے بھرپورمخالفت کے باوجود 26؍نومبر کو سندھ اسمبلی میں اس بل کو کثرت رائے سے منظورکروالیا ہے۔اس بل کے مندراجات کو اگر ہم دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ بل سراسر کراچی کے باقی ماندہ وسائل کو نوچنے کی ایک گھنائونی سازش ہے جس کے نفاذ سے کراچی مکمل طورپر مفلوج سا ہوتا ہوادکھائی دے رہاہے۔ہم ذرا اس بل میں کی گئی ترامیم کو اگر دیکھتے ہیں تواس میں سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کو آپریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال ، لیپروسی سینٹر، اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لیکر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا گیاہے جبکہ پیدائشی اور اموات کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے اور انفیکشیز ڈیزیز سمیت تعلیم اورصحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے صوبائی حکومت کے زیر انتظام کردیا گیاہے۔
اس بل کے مندرجات پرمزید نظرڈالیں تو بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہرجن میں حیدرآباد، سکھر لاڑکانہ، میر پورخاص، شہید بے نظیر آباد، میں کارپوریشنز لائی جارہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹائون سسٹم اور یونین کونسل کی یونین کمیٹیاں ہو ں گی جبکہ یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹائون میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے اور انہیں ٹائون میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اورڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔
ترمیمی بل کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن 50لاکھ آبادی والے شہر میں قائم کی جائیں گی، اور اس ٹا ؤن میونسپل کے ارکان کی مدت چار سال ہوگی ۔میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہوگا، جس میں دیکھا جائے تو کراچی کے لیے مقامی حکومت کا نظام عوام کو با اختیار نہیں کرتا،سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے کراچی کی عوام کو رہے سہے اختیارات سے بھی محرو م کردیا گیا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسلام آباد میں صحت اور تعلیم اور ترقیاتی کام میئر چلائے گا اوردیگر شعبے بھی میئر کے ماتحت ہوں گے۔ کراچی میں ایسا نظام نہیں ہے تعلیم صحت اور دیگر کچھ نظام نہیں ہے اس کو مسترد کرتے ہیں ، مقامی نظام حکومت کے اوپر دھوکہ ہونے جارہا ہے۔ اس قانون کے تحت کراچی میں ٹائون کی بحالی کا فیصلہ ہوا اور اس فیصلے کے تحت بلدیہ کراچی سے صحت ، تعلیم کے فرائض واپس لیے گئے حتیٰ کہ پیدائش ، شادی اور اموات کی رجسٹریشن کرنے کا بلدیاتی فریضہ اب سندھ حکومت نے خودانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ماضی کی طرح میئر کا انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہوگا۔
7صفحات پر مشتمل اس قانون کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ٹا ؤن کی بحالی پر تیار ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلسل سوچ بچا ر کے بعد جو قانون نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت 7میونسپل کارپوریشن کی تقسیم ہے۔ جنوبی مشرقی، مغربی، ملیر، کورنگی اور کیماڑی سینٹرل میونسپل کارپوریشن کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سندھ حکومت کے قانون کے مطابق کراچی میں اس قانون کے تحت تمام بڑے اسپتالوں کو حکومت سندھ کی تحویل میں دیا جائیگا، جن میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی شہید ہسپتال، سوبھراج میٹرنٹی ہسپتال اور 20سے25ٹائون قائم ہوجائیں گے۔قانون کے تحت ہر ڈسٹرکٹ میں گریڈ 1سے 15اسامیوں پر اسی ڈسٹرکٹ کے شہریوں کو ملازمتیں مل سکتی ہیں مگر اب یہ قانو ن صرف فائلوں میں چھپا ہوا نظر آئیگا، کراچی وہ اہم شہر ہے کراچی کی ترقی میں سارے پاکستان کی ترقی ہے، تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں 80کی دہائی میں پیدا ہونے والے مسائل نے پورے ملک کو متاثر کیا تھا۔
دلچسپ بات تویہ ہے کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے سندھ حکومت کے اس قانون پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے اور حکومت کو ترمیم کی ہدایات کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی ملک خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے،کراچی اور دبئی کا موازنہ کیا جائے تو یہ دونوں شہر اپنے محل وقو ع یا ڈیزائن کے لحاظ سے ایک جیسے نظر آتے ہیں دبئی میں بھی ساحل سمندر واقع ہے اور کراچی میں بھی جس کی وجہ سے یہ دونوں شہر بین الاقوامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ،مگراس وقت دبئی ترقی علم اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں کراچی سے کہیں آگے جاچکا ہے،افسوس کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ اگر چار ہزار ارب میں سے چار سو ارب بھی لگ جائیں تو یہ شہر بدلے میں چالیس ہزارارب کماکردیگا۔
آج کے دور میں دبئی دنیا کے امیر ترین شہروں میں شمار ہوتاہے ،لیکن اگر دیکھا جائے تو1990سے پہلے دبئی ایک ویران سا منظر پیش کرتاتھا، مگر دبئی کے باسیوں اور وہاں کی قیادت اس ویرانی کو ختم کرنے اورآگے بڑھنے کی ٹھان لی ،اور پھرہم دیکھا کہ اس جذبے کو کوئی نہیں روک پایا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج دبئی میں بلند وبالا عمارتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ، ہم کراچی کی بات کریں تو کراچی میں اس کے برعکس نظر آتا ہے ماضی میں کراچی واقعی روشنیوں کا شہر ہواکرتاتھا۔حتی ٰ کہ دور دور سے لوگ اس شہر کو دیکھنے آتے اور یہاں قیام کے لیے رکتے۔ سیرو تفریح کرنے صدر برنس روڈ، ایمپریس مارکیٹ اور فریئر ہال غیرملکیوں کے لیے دلچسپی سے بھرپور مقامات ہواکرتے تھے۔ صفائی ستھرائی کراچی کی اصل پہچان ہواکرتی تھی،مگر آج کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکاہے اس کی روشنیاں مانند پڑ چکی ہیں ،کراچی کا حسن بگاڑنے میں جہاں سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا کردار رہاہے، وہاں پر یہاں کے متعلقہ ادارے اور ان کے افسران نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر قائد میں رفاہی پلاٹوں پر قبضے اور غیرقانونی الاٹمنٹ کیس کی سماعت ہوئی تو شہر قائد میں 35ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کا انکشاف ہوا ،یعنی اندازہ لگائیں کہ کس بے دردی سے اسے لوٹا گیا ہوگا، کراچی کے تمام اہم اداروں پر سندھ حکومت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ کراچی کے ڈومیسائل پر بیرون کراچی کے افراد کی بھرتیاں کر کے کراچی کے نوجوانوں کے حق پر ڈاکا ڈالاگیا اور نفرت کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا، کراچی ٹریفک پولیس میں چالیس ہزار اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا اور ایک بھی فرد کراچی کا نہیں تھا۔
کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کوترس رہے ہیں ، سیوریج کا پورا نظام ناکارہ اور بوسیدہ ہوچکا ہے، بلدیہ کراچی سے سولڈ ویسٹ کا محکمہ بھی لے لیا گیا ہے اور سندھ سولڈ ویسٹ کا نام دیکر اس کے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا ہے ،کراچی کے نام پر خرچہ پورا ملتاہے لیکن کچرا روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے،کراچی میں فراہمی آب پر مافیا کا قبضہ ہے اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے کراچی کو کربلا بنا دیا گیا ہے۔ اس شہر کا اگر ماضی بڑا شاندار تھا تو حال بڑا ہی بد حال سابن چکا ہے اور یہ ہی تسلسل رہاتو مستقبل اس سے بھی زیادہ خوفناک نظر آرہا ہے،دعا ہے کہ اللہ پاک اس شہر قائدپر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر