... loading ...
اربابِ اختیار جس ڈگر پر چل رہے ہیں کسی ہوش مندسے ایسی بے نیازی اور غیر سنجیدگی کی توقع نہیں ہو سکتی فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو آئین کے آرٹیکل 204کے تحت توہینِ عدالت کی کاروائی کے لیے طلب کیا گیا تو تاحیات نااہلی سے بچنے کے لیے دونوں وفاقی وزرا نے غیر مشروط معافی نامہ جمع کر ادیا جس پر حتمی فیصلہرواںماہ 22دسمبر کو متوقع ہے سابق حکومت کے طاقتور وزرا نہال ہاشمی ،دانیال عزیز اور طلال چوہدری محدود مدت کے لیے نااہلی کے عمل سے گزر چکے ہیں پھر بھی بھی اربابِ اختیار کی بے نیازی اور غیرسنجیدگی برقرارہے اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اُنھیں حالات کی نزاکت کا احساس نہیں جب آئین میں الیکشن کمیشن کو تحفظ حاصل ہے توانتخابی اِدارے کے فنڈز رو کنے کی دھمکیوں کا جواز نہیں رہتا سپریم کورٹ کے کئی غیر مُبہم فیصلے موجود ہیں کہ الیکشن کمیشن کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔
اسی نوعیت کا ایک کیس فیصل وائوڈا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کیا اور الیکشن کمیشن جاری کاروائی رکوانے کی اپیل کی مگر ڈویژن بینچ نے نہ صرف مسترد کیس روکنے کا حکم جاری کرنے سے اانکار کر دیا بلکہ الیکشن کمیشن کو ساٹھ دن کے اندر فیصلہ سنانے کی ہدایت کی ہے علاوہ ازیں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پرالیکشن کمیشن کی طرف سے بھاری جرمانے بھی ہونے لگے ہیں رواں ہفتے ہی وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو پچاس ہزار جرمانہ ہوا ہے مگرحکمران کچھ دیکھنے یا سننے کی بجائے انتخابات میں مشینوں کے استعمال پر بضد ہیں حالانکہ بلدیاتی الیکشن میں مشینوں کے لیے الیکشن کمیشن نے وزارتِ سائنس کو خط بھی لکھ دیا ہے جس سے یہ سمجھنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ الیکشن کمیشن آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرتے ہوئے کسی قسم کے دبائو کا شکار نہیں اِس لیے مستقبل میں کسی جماعت کے لیے انتخابی نتائج سے فرار ممکن نہیں رہے گایہ روشنی کی ایسی کرن ہے جس سے عوام کا انتخابی فیصلوں پر اعتماد بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن وفاق کی طرف سے مشینوں کے استعمال اور تارکین ِ وطن کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی دوڑ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ شہریوں کی نفرت کا سامنا کرنے کی بجائے حکمرانوںنے جیت کے لیے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے توقعات وابستہ کر لی ہیں ۔
23مارچ کو مہنگائی مارچ کا اعلان کرنے کے باوجود یہ تاثر ختم نہیں ہو سکا کہ اپوزیشن تبدیلی لانے کے لیے سنجیدہ نہیںممکن ہے وجہ خراب معیشت ہوبظاہراپوزیشن کی توجہ تبدیلی کی بجائے حکمران جماعت کی نااہلی اجاگر کرنے پر ہے اسی لیے مولانا فضل الرحمٰن باوجود کوشش کے استعفوں پرپی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو قائل نہیں کر سکے ن لیگ سڑکوں کی سیاست پر یقین رکھتی ہے جبکہ پی ڈی ایم سے حال ہی میں باہر ہونے والی ملک کی تیسری بڑی جماعت پی پی عدمِ اعتماد کوخرابی کا واحد حل قرار دیتی ہے لیکن اِس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اپوزیشن کی نااتفاقی سے حکومت خطرات سے محفوظ ہو چکی ہے گزشتہ چالیس ماہ کے دوران بحرانوں کا شکار رہنے والا حکمران اتحاد اب بھی بھنور میں اور بے یقینی کی فضابددستور موجود ہے ۔
معیشت کی بحالی کے باربار وعدوں کے باوجود حالات تشویشناک حد کو پہنچ چکے ہیں مگر حکومت کے معاشی ارسطو جلد بہتری کی اب بھی نوید سنارہے ہیں یہ بصیرت کی کمزوری ہے یا بصارت کی خرابی ہے کہ حکمرانوں کو سب اچھا نظر آتا ہے حالات اِس نہج پر آگئے ہیں کہ سعودیہ کی طرف سے اسٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کرانے کے باوجود اب بھی روپے پر دبائوبرقرارہے حالانکہ 2013 میں سعودیہ سے موجودہ رقم کی نصف یعنی ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر ملنے سے ڈالر کی قیمت میں دس روپے کی کمی ہو گئی تھی لیکن اب دگنی رقم ملنے کے باوجود روپے پر دبائو رہنے کی وجہ معاشی بے یقینی ہے 2019 میں سعودیہ نے تین ارب ڈالر دیے تب بھی ڈالر کی قیمت میں چار روپے ہی سہی کچھ کمی دیکھنے میں آئی لیکن اب تو کوئی مشق بھی روپے کو دبائو سے نکالنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی کیونکہ حکومت اخراجات میں کمی کرنے اور وسائل بڑھانے میں ہنوز ناکام اورقرضے لیکر امورِ مملکت چلانے میں مصروف ہے لیکن اِس پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ چالیس ماہ کی حکمرانی میں بیرونی قرضے 127ارب ڈالر سے تجاوز اور روپے کی قدر پچاس فیصد گر چکی ہے اسی لیے جب حکومت کے معاشی ارسطو بہتری کی نوید سناتے ہیں تو کوئی بھی یقین نہیں کرتا لیکن حکمران جماعت کو اب تصوراتی کیفیت سے نکل آنا چاہیے کیونکہ انتخابات کی ہلچل شروع ہونے لگی ہے اگر معیشت کا پہیہ رواں دواں نہیں ہوتا اور صورتحال دعوئوں کے برعکس رہتی ہے توتحریکِ انصاف کا دوبارہ عوامی عدالت سے جیتنا محال ہے سچی بات یہ ہے کہ چالیس ماہ کی حکومت میں عوام نے روشنی کی کرن دیکھنے کی بجائے صرف بحرانوں کاہی سامنا کیا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ خرابی کا حکمرانوںکو ادراک ہی نہیں اگر ہوتا تو ایسے حالات میں جب قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی میں مشکلات ہیں تو حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں جیسے مہنگے الیکشن کی خواہاں نہ ہوتی بلکہ اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی کرتی ملک کے عام انتخابات کے اخراجات کا جائزہ لیں تو2008میں دوارب،2013میں پانچ ارب جبکہ 2018میں پچیس ارب روپے کے لگ بھگ اخراجات ہوئے اب اگر پورے ملک میں مشینیں استعمال کی جاتی ہیں تومحتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ مشینیں درکار ہوں گی جس سے آئندہ عام انتخابات پر اُٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ اسی ارب لگایا جارہا ہے یہ ملک کے خراب معاشی حالات کے تناظر میں اچھایا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ویسے بھی پورے ملک میں جب انٹرنیٹ کی سہولت ہی نہیں تو مشینوں کے استعمال سے انتخابی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اسی لیے سیاسی نبض شناس کہتے ہیں کہ چاہے اپوزیشن کی طرف سے حکومت گرانے کا خطرہ نہیں تو حکومت نے اپنے ہاتھوں ہی اپنی ساکھ تباہ کرنے لگی ہے اِس کی وجہ کیا ہے اربابِ اختیار ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپوزیشن سے بھی ایک اور بڑا خطرہ فارن فنڈنگ کیس ہے اِس حوالے سے ڈی جی لا کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی ہے جس میں پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ کیس میں بری الزمہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ ملوث ہونے کے واضح شواہد پیش کیے گئے ہیں رپورٹ کی روشنی میں جمعرات کو ان کیمرہ اجلاس بھی ہو چکایہ رپورٹ ایسی تلوار ہے جو پی ٹی آئی حکومت کے لیے تباہ کُن ثابت ہو سکتی ہے ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عمران خان اِس رپورٹ کی روشنی میں نہ صرف نااہل ہو سکتے ہیں بلکہ حکمران جماعت کے بھی کالعدم ہو نے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتاکیونکہ کیس کا سامنا کرنے کی بجائے تحریکِ انصاف راہ ِ فرار اختیار کرنے جیسی بے نیازی اور غیر سنجیدگی کامظاہرہ کر رہی ہے حالانکہ اگر عمران خان نااہل ہوجاتے ہیں اور حکومتی جماعت پر بھی پابندی عائد کردی جاتی ہے تو ملک کی ایک بڑی جماعت کا شیرازہ بکھر نے سے سیاسی عدمِ استحکام کا خطرہ بڑھ جائے گاجس سے انتخابی شفافیت یقینی بنانے کے لیے ہونے والی کاوشیں بے ثمر ہوجائیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔