... loading ...
آج کے دورمیں معاشرے میں پھیلی فرسٹریشن نے ہر شخص کو پریشان کررکھاہے اوپر سے مار ماری ،جھوٹ ،لالچ قتل وغارت نے ہرذی شعور کے اعصاب کو جھنجلاکررکھ دیاہے اس لیے سوچا کہ شگفتہ شگفتہ باتیں کی جائیں تاکہ اس سے مزاج خوشگوار ہو جائیںوقتی پریشانیوںکو بھلاکر چہرے کھلا کھلا اٹھیں یہ بھی نیکی کاکام ہے ،اب بات ہو جائیے ایک انصاف پرور شوہرکی جس نے دو نکاح کررکھے تھے اور وہ دونوں کیساتھ بڑا انصاف کا معاملہ کرتا تھا خاندان میں ایک شادی کی شاپنگ کرتے وہ گھر آرہے تھے کہ ایک خوفناک ایکسیڈنٹ میں اس کی دونوں بیویوں کا ایک ہی وقت میں انتقال ہوگیا ،تقدیر کے فیصلہ کے آگے کسی کو دم مارنے کایارانہیں غمزدہ شوہر نے انصاف کے تقاضہ سے چاہا، ایک ہی وقت میں دونوں کی تدفین کی جائے چنانچہ اس نے دو غسل والیاں بلوائی کہ دونوں کو ایک ہی وقت میں غسل دیا جائے، پھر ان کے جنازے گھر سے ایک ہی وقت نکالنے کا ارادہ کیا اتفاق سے گھر کا ایک ہی دروازہ تھا انصاف پرور شوہر نے فوراً مستری بلوایا ایک جگہ دوسرا دروازہ بنوا کر بیک وقت دونوں کے جنازے قبرستان لے گیالوگ اس کی انصاف پروری ،بیویوں سے محبت اور اعلیٰ ظرفی کی مثالیں دینے لگے شوہر ِ نامدار نے بیویوںکی تدفن کرکے اپنے انصاف پر اللہ کی تعریف کی کہ اس نے انصاف کی توفیق دی۔ ایک رات ایک بیوی کو خواب میں دیکھا وہ کہہ رہی ہے! آپ نے مجھ سے انصاف نہیں کیا اس لیے “میں آپ سے ناراض ہوں اللہ آپ کو معاف نہیں کرے گا”- شوہر نے کہا اللہ کی بندی لیکن وہ کیوں؟ تم میرے ساتھ ناراض کیوں ہو؟
اس بیوی نے اٹھلا کر منہ بسور ا اور کہا آپ نے دوسری بیوی کو نئے دروازے سے نکالا اور مجھے پرانے دروازے سے یہ ہے تمہارا اانصاف۔۔ مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ تم چھوٹی والی سے زیادہ محبت کرتے ہو۔
شوہر سرپیٹ کررہ گیا کہ یہ دلیل اسی کا خاصہ ہے دلیل سے یادآیا کہ وکیل سے بہتر دلیل کون دے سکتاہے یقینا کوئی نہیں سچ ہے یہ اس کا کمال ہے کہ وہ ہر دلیل کو الٹا کررکھ دیتاہے اسی لیے سیانے کہتے ہیں وکیل سے پنگا نہیں لینے کا۔۔ ایک دن شہر کے ایک معروف کالج کے کچھ طلباء نے ایک ممتاز وکیل صاحب سے پوچھا
“سر وکالت کے کیا معنی ہیں؟”
وکیل صاحب نے کہا…
“میں اس کے لیے ایک مثال دیتا ہوں فرض کریں کہ میرے پاس دو کلائنٹ آتے ہیں ایک بالکل صاف ستھرا اور دوسرا بہت گندہ اب میں ان دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ دونوں نہا کر صاف ستھرے ہوکرمیرے پاس آئیں.۔
اب آپ لوگ بتائیں کہ ان میں سے کون نہائے گا ؟
ایک اسٹوڈنٹ نے کہا جناب یقینی بات ہے ‘جو شخص گندہ ہے وہی نہائے گا
وکیل نے ترنت کہا بالکل نہیں۔۔
اسٹوڈنٹ نے حیرانگی سے پوچھا وہ کیوں جناب؟
وکیل مسکراکر بولا نہیں صرف صاف آدمی ہی نہائے گا. کیونکہ کہ اسے صفائی کی عادت ہے جب کہ گندے آدمی کو تو صفائی کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
اب وکیل صاحب دوسرے اسٹوڈنٹ کی طرف متوجہ ہوئے بڑی سنجیدگی سے اسے کہا آپ کو معلوم ہے آپ بتا سکتے ہیں دونوں میں سے کون نہائے گا ؟
دوسرے اسٹوڈنٹ نے سوچ کر کہا سر میرے خیال میں صاف آدمی نہائے گا۔
وکیل نے نفی میں سر ہلایا اور بڑے معنی خیزلہجے میں کہا نہیں گندہ شخص نہائے گا کیونکہ کہ اسے صفائی کی ضرورت ہے۔ اسٹوڈنٹ نے اس کی لوجک سن کر اتفاق میں سرہلادیا
اب وکیل نے تیسرے اسٹوڈنٹ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا اور مسٹر تم بتاؤ کون نہائے گا…؟’*
اسٹوڈنٹ نے تذبذب کے ساتھ جواب دیا جناب میں تو کہتاہوں ‘جو گندہ ہے وہ نہائے گا۔
وکیل کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ پھیل گئی اس نے کہا نہیں دونوں نہائیں گے کیونکہ کی صاف آدمی کو نہانے کی عادت ہے اور گندے آدمی کو نہانے کی ضرورت ہے۔
اب وکیل نے دوسرے تمام اسٹوڈنٹں کی طرف دیکھا اور پوچھابتاؤ تم کیا کہتے ہو کون نہائے گا ؟
سب اسٹوڈنٹں ساتھ بولے ‘جی دونوں نہائیں گے
وکیل نے میزپر مکا مارتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا
غلط ۔۔ بالکل غلط ۔۔کوئی بھی نہیں نہائے گا۔
” وہ کیوں۔۔ تمام اسٹوڈنٹں نے حیرت سے بیک وقت پوچھا
وکیل بولا کیونکہ گندے کو نہانے کی عادت نہیں اور صاف آدمی کو نہانے کی ضرورت نہیں۔
” اب بتاؤ وکیل صاحب نے دبلے پتلے نوجوان سے پوچھا تم بتائو کون نہائے گا ؟
اس کے جواب دینے سے پہلے ہی ایک اسٹوڈنٹ نے بہت نرمی سے کہا سر آپ ہر بار الگ الگ جواب دیتے ہیں اور ہر جواب ہمیں صحیح معلوم پڑتا ہے تو ہمیں کیسے معلوم ہوگا درست جواب کیا ہے ؟’
وکیل صاحب بڑی متانت سے بولے ‘بس یہی وکالت ہے اہم یہ نہیں کہ حقیقت کیا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کتنی ممکنہ دلیل دے سکتے ہیں..!
“کیا سمجھے ؟ نہیں سمجھے ؟ یہی وکالت ہے !! وکیل نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو بتائیں کون نہائے گا؟ سب قہقہے لگاتے ہنسنے لگ گئے۔
اب چلتے چلتے ایک چوری کا لطیفہ اور سن لیجئے
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی بیوی نے پوچھا
“کیوں جی یہ افراط زر کیا ہوتاہے؟ ماہرین معیشت بار بار اس کا ذکر کرتے ہیں!!”
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ : نے کہا فرض کرو”پہلے تمہاری عمر 21 سال ،کمر 28 تھی اور وزن تھا 50 کلو اب تمہاری عمر ہے 35 سال ،کمر ہے 38 اور وزن ہے 75 کلواب تمہارے پاس سب کچھ پہلے سے زیادہ ہے پھر بھی ویلیو کم ہے یہی افراط زر ہے !!!معاشیات اتنی بھی مشکل نہیں اگر صحیح مثال دے کر سمجھایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔