وجود

... loading ...

وجود

سجدوں میں پڑے رہناعبادت نہیں ہوتی!

پیر 06 دسمبر 2021 سجدوں میں پڑے رہناعبادت نہیں ہوتی!

ذکی ابڑو
۔۔۔۔۔

30 نومبرکی صبح انچولی کراچی کارہائشی زوہیر ہاتھ میں گھڑی باندھے،پینٹ،کوٹ پہنے سوٹ بوٹ میں جب گھرسے نکلاتوگھروالوں کو یقین بھی نہ تھا کہ شام کو واپسی پرکفن میں لپٹی اس کی لاش گھر پہنچے گی؟روزانٹرویوکے لیے دفتروں کے چکرکاٹنے والے بے روزگاری سے تنگ زوہیرکاحسب معمول سوٹ بوٹ پہن کرانٹرویو دینے کے لیے اس کا انتخاب آج کوئی دفترنہیں تھا؟زوہیر نے بے روزگاری جیسے ناسورسے ہمیشہ سے چھٹکارے پانے کو آج راشہد منہاس روڈ پرواقع لکی ون شاپنگ مال کاانتخاب کیاتھا،40 سالہ زوہیر نامی اس شخص نے اپنے جسم کوایک ہوا سے بھرے غبارے کی مانند سمجھ کر شاپنگ پلازہ کے تیسری مالے پر موجود فوڈ کورٹ ایریا سے چھلانگ لگادی اس کا بھاری بھرکم جسم شاپنگ مال کی سفید ٹائلوں سے ٹکرایااوراس کے خون میں لت پت ہوکر ہوکرلال ہوگیا،پولیس نے لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال بھجوادیا۔ متوفی سہراب گوٹھ پرواقع انچولی کے بلاک 20 کا رہائشی تھا،چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا اورخود کو ایک ذمہ دارفرد سمجھنے والا مالی پریشانیوں کاشکارمتوفی زوہیر اور اس کا ایک اور بھائی بھی ایک عرصے سے بے روزگار تھے؟زوہیر کی والدہ ایک اسکول ٹیچر ہیں، آخرکب تک وہ اپنی ماں کے ناتواں کاندھوں پربوجھ بنارہتا؟بھائیوں کے سامنے پیسوں کے لیے روزہاتھ پھیلاتا؟ اسی مایوسی نے زوہیر کوخودکشی جیسے راستے کا انتخاب کرنے پرمجبورکیا؟
ایک اورخودکشی کا اندوہناک واقعہ اسی لکی ون مال سے چند قدم کی مسافت پر 26 نومبر کی شام دوکمروں پر مشتمل فیڈرل بی ایریاکے ایک فلیٹ میں پیش آیا؟چھ بچوں کاباپ فہیم نامی نوجوان ایک بڑے صحافتی ادارے سے منسلک رہنے کے بعد اایک عرصہ سے روزگارکی تلاش میں تھا،بچوں کاپیٹ بھرنے کے لیے دردرکی ٹھوکریں کھانے کے بعد معاشی تنگ دستی نے اسے رکشہ چلانے پرمجبورکیامگرزندگی کا پہیہ پھربھی نہ چلا؟ بے کس و مجبور فہیم آخر دلبرداشتہ ہوگیا۔گلے میں بیوی کا دوپٹہ ڈال کر پنکھے سے جھول گیا؟پولیس کا کہنا ہے کہ متوفی 6 بچوں کا باپ تھا جس میں 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔ فہیم دوسال قبل کراچی کے ایک موقر روزنامہ اخبار میں کام کرچکا ہے ۔وہاں سے بیدخلی کے بعد بقایاجات کے لیے پریشان رہتا؟ وہ روز دفتروں کے اس جنگل میں اپنے روزگارکے لیے چکر لگاتا۔ تھک ہارکر گھرکے گزارے کو ایک رکشہ چلارہاتھا لیکن اس کے باوجود مالی تنگ دستی تھی کہ ختم ہونے کانام نہ لیتی؟ ساٹھ،سترہزارروپے کامقروض فہیم اپنی سترپوشی تو خیر کیاکرتا ،آئے روزکی مہنگائی اورپیٹرول کی دن بدن بڑھتی قیمتوں سے بھی عاجزآگیا؟ آخرایک روزاس کے روزگارکا واحد وسیلہ یہ رکشہ بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصرہوگیا،رکشہ کا پہیہ کیا رکا؟ جیسے فہیم کی زندگی کا پہیہ بھی ہمیشہ کے لیے جام ہوگیا؟ سگے کام آئے نہ اس کے دوست
یار؟ کرائے کے فلیٹ میں اپنی بیوی کے دوپٹے سے چھ بچوں کے سامنے فہیم کی پنکھے سے جھولتی لاش؟ جہاں نجی دفاترمیں اجارہ داری قائم رکھنے والی ورکز تنظیموں پرانگلیاں اٹھاتی ہیں؟ وہیں روٹی،کپڑااورمکان کانعرہ لگانے والی سائیں سرکارسے لے کرکروڑوں پاکستانیوں کے لیے مفت گھربناکردینے کاخواب دکھانے والے کپتان کی حکمرانی پربھی ایک سوالیہ نشان بناتی ہے؟
مخلوق خداجب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہناعبادت نہیں ہوتی
کراچی کے مقامی اخبارسے دھتکارے گئے گرافکس ڈزائنرفہیم کی بیوہ اپنے شوہرکی خودکشی کے بعد سے دُہرے عذاب میں مبتلا ہے؟ اس کے بھوک سے بلبلااتے بچے پیٹ بھرنے کواب کھانا نہیں مانگتے؟کیونکہ ان کی نظروں کے سامنے روزکمرے میں باپ کی گھنٹوں پنکھے سے جھولتی لاش سامنے آجاتی ہے؟ بچے دن بھربھوکے بھی ہوں تواس ڈرسے کھانے کی التجا نہیں کرتے کہ کہیں ان کا واحد سہارا ان کی ماں بھی کہیں پھندے سے نہ جھول جائے؟ بچوں کوبھوک سے بلکتے دیکھتی ایک ماں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بے حس حکمرانوں اورمعاشرے میں انسانیت کادم بھرتی تنظیموں سے روزسوال کرتی ہیں؟کہ وہ یہ سب کیسے برداشت کرے؟ہے کوئی مسیحا جوفوٹوسیشن سے مبراہوکراس کی دادرسی کو آئے؟ماناکے دنیا کی حاصلات خودکشی کاایک سبب ہیں مگرہمیں بحیثیت مسلمان اللہ کی پکڑسے ڈرناچاہیے جو خودکشی کاسبب بننے والوں کی پہنچ سے کبھی دورنہیں ہوتی؟پب جی کے ٹاسک پربندوق کنپٹی سے لگاکرخودکواڑادینا،نفس کی خواہشات پوری نہ ہونے پرچھری گلے پرپھیردینا، زہرکی بوتل کوکوکولا سمجھ کرپی جانا،پسندکی شادی نہ ہونے پررسے سے جھول جانااوربے روزگاری سے مایوسی کاشکارہوکر اپنے جسم کوغبارہ سمجھ کرعمارت سے چھلانگ لگادیناجیسے خودکشی کے ان گنت واقعات ایسے ہیں کہ تھمنے کانام ہی نہیں لیتے؟خودکشی صرف پاکستان میں ہی نہیں عالمی سطح پربھی ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے،خودکشیوں کی جن بڑی بڑی وجوہات کی دنیا بھر کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے وہ کم و بیش ایک جیسی ہیں مگر پھر بھی یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ دنیا بھر میں ہونے والی خود کشیوں کی وجہ ایک جیسی ہوتی ہیں کیونکہ ہر خودکشی کے واقعے کی اپنی ایک کہانی اور ایک وجہ ہوتی ہے؟
عالمی سطح پر خود کشی کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن قرار دیاجاتا ہے لیکن اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں،مالی پریشانیاں، گھریلو جھگڑے، بے روزگاری، امتحان میں ناکامی اور پسند کی شادی نہ ہونا وغیرہ کے باعث انسان کی قوت برداشت ختم ہونے کے سبب اس رحجان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور انسان کی پوری نہ ہوتی خواہشات اسے خودکشی جیسے سنگین راستے کاانتخاب کرنے پرمجبوردیتی ہیں دیکھا جائے تو ہر طبقہ اقدام خودکشی کا حریص نظر آتا ہے کیونکہ انسان اپنی نفسانی خواہشوں کا غلام بن چکا ہے بچے ہوں یا نوجوان چاہے بوڑھے افراد غرض ہرشخص کسی نہ کسی طرح اپنی خواہشات کے حصار میں قید ہے،طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر مریض کی بروقت نشاندہی کی جائے تو اس کا علاج ممکن ہے، اس کی بہترکونسلنگ کرکے اسے خودکشی جیساسنگین اقدام اٹھانے سے بچایا جاسکتا ہے۔ میری نظرمیں اگر آپ سے حقیقی محبت کرنیوالے لوگ جب تک اس دنیامیں موجودہیں تویقیناآپ خودکشی جیساسنگین قدم اٹھانے پرہرگزمجبورنہیں ہوں گے؟ آپ سے محبت کرنیوالے آپ کو اپنے حصارمیں باندھ لیں گے، ایسے رشتوں میں سے ایک مضبوط رشتہ ماں کابھی ہے۔ آپ جب بھی کبھی
مایوسی کاشکارہوں ، تھوڑی سی دیرکو اپناکاندھا ماں کوگود میں رکھ کرسوجایاکریں ۔ماں دونوں ہاتھ خالی ہوتے ہوئے بھی آپ کومایوسی کا شکار نہیں ہونے دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر