... loading ...
یورپ دوستی اور دشمنی دونوں حوالے سے مخمصے کا شکار ہے شاید سلامتی کولاحق خطرات کے ساتھ دیگراہم نوعیت کے مسائل درپیش ہیں حالانکہ یورپی یونین میں جرمنی اور فرانس جیسی مضبوط معیشتوں کے حامل ممالک شامل ہیں فرانس کے پاس تو ویٹو پاور بھی ہے علاوہ ازیں یورپ دنیا میں اسلحے کی پیدوار اور تجارت میں بڑے حصے کا مالک ہے اسلحے کی پیدوارکا بڑا حصہ ایشیا،افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ وغیرہ کو برآمد کردیاجاتا ہے پھر یورپ کیوں خوفزدہ ہے ؟ وجہ خطرات کی نوعیت بدل چکی ہے اب جنگوں سے نہیںسرمایہ کاری سے ملک فتح کیے جاتے ہیںلیکن اِ س کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کے پاس سرمایہ نہیں اور اُسے اسلحے کی ضرورت ہی نہیں رہی دیگر ممالک کو برآمد کیے جانے والے ہتھیاروں کی مناسب تعداد یورپی یونین میں شامل ممالک بھی خرید لیتے ہیں جبکہ مشرقی یورپ کے معاشی لحاظ سے غیر مستحکم ممالک امیر ملکوں سے ہتھیاروں کے ساتھ مالی امداد کے طلبگار رہتے ہیں جبکہ موجودہ یورپ مفاد ہر زک کی صورت میں دوستوں پربھی بڑھک اُٹھتاہے اور کچھ عرصے سے دوستوں کے حوالے سے بھی بداعتمادی کا شکار ہے جس کی واضح مثال امریکاسے بڑھتی دوری ہے آبدوزوں کے معاملے پر فرانس کی امریکا اورآسٹریلیا سے لفظی جنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیںلیکن یورپ کی دشمنی کِس سے ہے بظاہر اِس حوالے سے مخمصہ واضح ہے اسی لیے کسی دشمن کے تعین پر نااتفاقی کا شکارہے اور اسی بناپرکچھ عرصے سے مشرقی اور مغربی یورپ کی سوچ میں فرق نمایا ں ہے ۔
حال ہی میں یوکرائن اور پولینڈ نے روس کے حوالے سے ایسے خدشات کا اظہار کیاہے کہ وہ یورپ کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے پولینڈ نے بیلا روس کے ساتھ یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر نقل وحرکت اور پریس کی آزادیوں کو محدود کرنے کے قوانین بنا لیے ہیں پولینڈ اور سابق سوویت جمہوریہ بیلا روس کی سرحد پر کئی ماہ سے ہزاروں تارکینِ وطن جمع ہیں جو بہتر مستقبل کے لیے یورپ میں داخلے کے خواہشمند ہیں جنھیں روکنے کے لیے یورپی ممالک کا پولینڈ پر دبائو ہے اسی دبائو کی وجہ سے پولینڈ نے آمدورفت اور پریس کی آزادیوں کو محدود کی ہیں تارکین وطن یونان اور اٹلی کی سرحد وں سے بھی داخل ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن کو سختیوں کے باوجود روکنے میں یورپ کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے بڑھتی مہاجرت یورپی امارت کونگل سکتی ہے اسی لیے یورپ داخلے کے قوانین سخت کر رہا ہے پھربھی غریب ملکوں سے بہتر مستقبل کے متلاشی بڑی تعداد میں جانوں پر کھیل کرہر سال یورپ آتے ہیں جن میں سے محدود تعداد ہی داخل ہوپاتی ہے اورکچھ بیماریوں یاسمندری راستے کی سختیوں سے جان کی بازی ہار جاتے ہیںبرطانیہ کی علحدگی کے عوامل میں ایک جہ مہاجرت بھی ہے لیکن یہ سلسلہ رُکنے میں نہیں آرہایورپی اقوام کو وسائل کے تحفظ کا مسلہ بھی شدت اختیار کر چکا ہے پھر بھی یورپ تقسیم ہے ۔
یوکرائن کی سلامتی کو روس سے خطرہ ضرورہے لیکن دونوں ملکوں میں تنائو بڑھنے کے باوجود فوری براہ راست ٹکرائو کا امکان کم ہے کیف حکومت چاہتی ہے کہ روس کو مداخلت سے باز رکھنے کے لیے مغربی دفاعی اتحاد ایسی جامع حکمتِ عملی اپنائے جس سے روس کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل جائے یوکرائن کے وزیرِ خارجہ دیمتراکوئلیبان ملاقاتوں میں مسلسل یورپی سفارتکاروں کو آمادہ کرنے کی کوشش میں ہیں کہ روس کے جارحانہ عزائم روکنے کو پہلی ترجیح بنایاجائے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے یوکرائن کی سرحدوں پر روس نہ صرف تازہ دم فوجی دستے تعینات کررہا ہے جس سے یوکرائن دبائو میں ہے لیکن دبائو کم کرنے یا روس کو مداخلت سے روکنے کے لیے کیف حکومت نیٹو سفارتکاروں کو آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی یوکرائن خواہشمند ہے کہ نہ صرف روس پر پابندیا ں لگا ئی جائیں بلکہ بیرونی جارحیت کا سامنا کرنے کے لیے کیف کی دفاعی امداد میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ وہ روسی خطرے کا سامنا کرنے کے قابل ہو سکے ناروے کی لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے دوبار وزیرِ اعظم منتخب ہونے والے نیٹو فوجی اتحاد کے موجودہ جنرل سیکرٹری جنس ستلوتن برگ نے روس کو خبردار ضرور کیا ہے کہ وہ یوکرائن کے خلاف کسی فوجی کاروائی سے باز رہے وگرنہ بھاری قیمت چکانے کو تیاررہے انھوں نے روس پر پابندیوں کا عندیہ بھی دیا لیکن کیا یورپ عملی طور پر ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ شاید نہیںکیونکہ یورپ توانائی کا بڑا حصہ روس سے درآمد کرتا ہے پابندیوں کی صورت میں یورپ توانائی کے بحران کا شکار ہو سکتا ہے جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتالیکن اگر یورپ خاموش رہتا ہے تو روس کے جارحانہ عزائم کی حوصلہ افزائی ہو گی یہ اُسے فیصلہ کُن اقدامات سے بازرکھنے کا باعث ہیں ۔
برطانیا نے یورپی یونین سے علحدگی ضروراختیار کی ہے لیکن عسکری اتحاد نیٹو کی رُکنیت ترک نہیں کی وہ روس سے ذیادہ چین کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے لیکن اِس خطرے کی نوعیت فوجی نہیں حال ہی میں خفیہ ایجنسی آئی سکس کے سربراہ بننے والے رچرڈ مورنے گزشتہ دنوں اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چینی قرض اور ڈیٹا کے جال سے برطانوی خود مختاری اور قومی سلامتی کو خطرے کا سامنا ہے انھوں نے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے کیے دفاعی اقدامات کی بابت بھی بتایا مگر کیایورپ کے دیگر ممالک کو بھی ایسے خطرات کا سامنا ہے یا وہ ایسا کچھ محسوس کرتے ہیں؟ ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ کچھ عرصے سے کئی یورپی ممالک کساد بازاری کے نقصانات کم کرنے کے لیے چینی تجربات اور سرمایہ کاری سے فائدہ اُٹھانے کے لیے پُرعزم ہیں اِس لیے بادی النظر میں برطانیہ کے لیے چینی خطرے جیسی حساسیت دیگر ممالک کے لیے ویسی نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ یورپ میں چین پر اعتماد پر صادکرلیا گیا ہے بلکہ امیر یورپی ممالک چین کی سرمایہ کاری کے اثرات کم کرنے کے لیے سوچ رہے ہیں تاکہ پورپ کی مالی خود مختار ی برقرار رہے لیکن آیا وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوں گے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے انتظار کرنا مناسب رہے گا۔
چین کی طرح یورپ تین ارب یورو کے ایک منصوبے پرعمل کا اِرادہ رکھتا ہے جس کا نام گلوبل گیٹ وے رکھا گیا ہے جسے ماہرین چینی بیلٹ اینڈ روڈ کا توڑ قراردیتے ہیں حالانکہ گلوبل گیٹ وے منصوبے کی چودہ صفحات پر مبنی ابتدائی دستاویز میں کہیں یہ زکر نہیں کہ یہ منصوبہ چینی حکمتِ عملی کا مقابلہ کرنے کے عمل کاحصہ ہے ایسا دریافت کرنے کے باوجود چین کا نام لینے سے گریز کیاجارہا ہے جو یورپی ممالک کے خوف کوظاہرکرتا ہے مگر جرمن مارشل فنڈ کے بحراوقیانوس کے خطے کے ماہر اینڈریو ا سمال کہتے ہیں کہ منصوبے کے چینی پس منظر سے انکار نہیں کیا جا سکتا یورپی یونین کی صدر ارسلافان ڈربی رواں برس ستمبر میں اپنے سالانہ اسٹیٹ آف یونین کے خطاب میں کہہ چکی ہیں کہ ہمیں ایسے معیاری انفرا سٹرکچر کی ضرورت ہے جو سفر اور مال کی ترسیل میں آسانی پیدا کر سکے البتہ یورپی یونین کے زرائع کا کہنا ہے کہ توانائی ،ماحولیات ،مواصلات اورایسے ڈیجٹیل شعبوں میں کام کیا جائے گا تاکہ افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں چینی اثرورسوخ کی راہ روکی جا سکے مگر یورپی یونین کے رکن ملکوں کے مالی اِداروں اور نجی سرمایہ کاروں سے اِس منصوبے کے لیے کیسے اربوں یورواکٹھے کرنے کا منصوبہ یا طریقہ کار کیا ہوگا؟کی تفصیلات طے نہیں ہو سکیں جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یورپی یونین میں شامل ممالک کوایک جیسے نہیں بلکہ مختلف نوعیت کے خطرات درپیش ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ جس طرح یورپ میں روسی خطرے کا تذکرہ ہوتا ہے چین کا ایسا زکر نہیں ہوتا شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ کئی یورپی ملکوں کا چینی سرمایہ کاری پر انحصار بڑھتاجارہا ہے شایداسی لیے یورپی اقوام کو خطرات کاادراک نہیں اور وہ دوست و دشمن میں فرق روارکھنے میں مخمصے کا شکار ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔