وجود

... loading ...

وجود

وفاقی محتسب واقعی کام کرتاہے

جمعرات 02 دسمبر 2021 وفاقی محتسب واقعی کام کرتاہے

 

دنیا بھر میں جمہوری و عوامی حکومت کا بنیادی وظیفہ ہی عوام کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انتظامی سہولیات بہم پہنچانا ہوتاہے اور اس اہم ترین ذمہ داری کی ادائیگی کے لیئے ہر جمہوری حکومت شہر،ضلع ،تحصیل سے لے کر یونین کونسل کی نچلی سطح تک مختلف محکمہ جاتی سرکاری ادارے قائم کرکے اُن میں موزوں اور اہل سرکاری اہلکاروں کو تعینات کرتی ہے۔ تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اُن اداروں سے رجوع فرما سکیں اور وہاں موجود حکومتی اہلکار اپنے اختیارات کو بروئے کار لاکر آئین و قانون کی روشنی میں عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں ۔ لیکن اگر بدقسمتی سے حکومت وقت کے قائم کردہ محکموں میں متعین سرکاری اہلکار و افسران عام افرادکو درپیش انتظامی مسائل کو حل کرنے میں بُری طرح سے ناکام ہوجائیں یا پھر وہ اپنے ذمہ واجب لاداکام کا معاوضہ،تنخواہ کے علاوہ بھی بصورت رشوت اعلانیہ و غیر اعلانیہ سائلین سے طلب کرنا شروع کردیں تو پھر اِن بدعنوان عناصر سے باز پرس کرنے کے لیے چند احتسابی ادارے بھی ہر حکومت کے زیرنگیں ضرور موجود ہوتے ہیں ، جن سے متاثرہ افراد،رجوع فرما کر بدعنوان سرکاری اہلکار و ا فسران کے خلاف اپنی شکایات درج کرواسکتے ہے۔
مثا ل کے طور پر محکمہ اینٹی کرپشن کا قیام وطن عزیز پاکستان کے طول و عرض میں عمل میں لایا ہی صرف اس لیے گیا تھا کہ یہ احتسابی ادارہ ،سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانی کو بے نقاب کرکے بدعنوانی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزائیں دے گا ۔ مگر افسوس صد افسوس، خالص انسداد ِ کرپشن کے لیئے وجود میں آنے والا یہ ادارہ ،کرپشن کی بہتی گنگا کے گند کو سرکاری اداروں سے صاف کرنے کے بجائے خوداس کا ایک جزولاینفک بن کر رہ گیا اور اَب عوام کا اس احتسابی ادارے پربد اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ وہ سرکاری اہلکاروں کی زیادتی کے خلاف ، محکمہ اینٹی کرپشن سے رجوع کرنا تو درکنار، اُلٹا اپنی نجی محفلوں میں اُس پر ’’محکمہ آنٹی کرپشن ‘‘کی پھبتی کس کر کے بھد اُڑاتے ہیں۔
یاد رہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن جیسے احتسابی اداروں کے یکسر ناکام اور غیر موثر ہونے کے بعد ہی وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں ناکہ دودھ کا جلا ،چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور سانپ کے ڈسے ہوئے کو ،راہ میں پڑی ہوئی رسی پر بھی اکثر سنپولیے کا ہی گمان ہونے لگتاہے۔ کچھ ایسی ہی بدگمانی ،ناکام احتسابی اداروں کا شکار عوام کو وفاقی محتسب کے متعلق ناصرف کل تھی بلکہ آج بھی لاحق ہے۔ دوسروں کاتو خیر ذکر ہی کیا کریں ،خود ہم بھی ایک مدت سے یہ ہی فرض کیے بیٹھے تھے کہ وفاقی محتسب بھی عوامی شکایات پر کاغذی کارروائیوں کا ملمع چڑھاکر انہیں داخلِ دفتر کرنے کے لیے قائم کیا گیا ،دیگر سرکاری احتسابی اداروں کی مانند ایک روایتی سا محکمہ جاتی ادارہ ہی ہوگا ۔ مگر ہماری یہ خام خیالی اُس وقت انتہائی خام اور سراسر فضول ثابت ہوئی جب گزشتہ دنوں ہمارا، اپنا واسطہ ایک مسئلے کے سلسلے میں وفاقی محتسب سے پڑگیا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حیسکو ،حیدرآباد کے خلاف ایک شکایت وفاقی محتسب کی ویب سائٹ پر آن لائن اندراج کرائی تو ،چند لمحوں بعد ہی موبائل فون پر پیغام موصول ہوا کہ’’ آپ کی شکایت زیرسماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے لیے وفافی محتسب کے ریجنل دفتر حیدرآباد کو ارسال کردی گئی ہے‘‘۔ نیز چند روز بعد وفاقی محتسب کی جانب سے ایک خط بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک موصول ہوا، جس میں میری شکایت کی سماعت اور اُس کے حل کے لیے حیسکو حکام کو وفاقی محتسب کے ریجنل دفتر، حیدرآباد میں طلب کیا گیا تھا۔ یہاں تک تو بات پھر بھی اچھی طرح سے سمجھ میں آگئی تھی کہ وفاقی محتسب ادارہ واقعی ایک متحرک احتسابی ادارہ کے طور پر کام کر رہاہے لیکن جب شکایت کے سماعت سے ایک دن پہلے متعلقہ دفتر سے یاد دہانی کا فون موصول ہوا اور فون کرنے والے نے انتہائی مہذب انداز میں گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف میری شکایت پر اَب تک ہونے والی پیش رفت کی جملہ تفصیلات سے آگاہ کیا بلکہ ساتھ ہی تاکیدکی کہ اگر آپ بھی اپنی شکایت کے سماعت کے وقت موجود ہوں گے تو ہمارے ادارے کو آپ کی شکایت جلد ازجلد حل کرنے میں خاص سہولت ہوگی‘‘۔کسی سرکاری احتسابی ادارے کی جانب سے سائل کی شکایت کے ازالے کے لیے اس قدر دلچسپی کا اظہار کم ازکم میرے لیے تو انتہائی خوش گوار اور حیران کن تجربہ تھا۔
لیکن ابھی تو مزید حیرتیں وفاقی محتسب کے دفتر میں میری منتظر تھیں ۔ پہلا مقام ِ حیرت تو یہ مشاہدہ میں آیاکہ وفاقی محتسب کے ریجنل دفتر حیدرآباد میں کام کرنے والا تمام ہی عملہ ’’ دوستانہ طرز عمل‘‘ کی ایک تصویربنا ہوا تھا۔ نیز سائلین کے لیے انتظار گاہ میں موسم کی مناسبت سے ہر ضروری سہولت مہیا کر دی گئی تھی۔ جبکہ تعلیم یافتہ یااَن پڑھ، شہر سے آئے ہوئے یا دور دراز دیہات سے آنے والے سائلین کو بلاکسی تفریق و لحاظ برابری کی بنیاد پر بھگتایا جارہا تھا۔ علاوہ ازیںوفاقی محتسب کی جانب سے عوامی شکایات کی جانچ پڑتال کے لیے مقرر کیے گئے ایسوسی ایٹ ایڈوائزر، جناب ڈاکٹر ریاض صدیقی صاحب ہر سائل کی شکایت نہ صرف پوری توجہ سے سُن رہے تھے، بلکہ متعلقہ حکام سے باز پرس کرتے ہوئے اہم نکات ضبط تحریر میں بھی لارہے تھے۔ جب خاکسار کی باری آئی تو ڈاکٹر ریاض احمد صدیقی نے شکایت پر حیسکو حیدرآباد سے فقط پانچ منٹ میں ریلیف گرانٹ کروادیا ۔ ویسے تو مسئلہ کا حل ہونا ہی ایک بڑی بات ہوتی ہے لیکن شکایت کا فوری طور پر چند لمحوں میں حل ہوجانا، وہ بھی ایک بڑے سرکاری ادارے کی وساطت سے ،یہ ایک ایسی سر خوشی ہے ،جسے لفظوں سے زیادہ سائلین کے چہرے بیان کرسکتے ہیں اور بلاشبہ میں نے اُس دن بے شمار سائلین کے چہرے ریلیف ملنے کے بعد ستاروں کی مانند دمکتے ہوئے دیکھے۔
عام طور پر تو یہ ہی سمجھا جاتاہے کہ اہلِ صحافت کا کام حکومتی اداروں کی بدانتظامی ،نااہلی اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنا ہوتاہے لیکن میری دانست میں اگر کوئی سرکاری ادارہ خاص طور پر احتسابی ادارہ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہر کررہاہے تو اُس کے بارے میں بھی ضرور عوام کو آگاہ کرناچاہئے ۔تاکہ عام آدمی جس کا اعتماد روز بروزحکومت کے قائم کردہ احتسابی اداروں پر سے اُٹھتا جارہا ہے ،دوبارہ سے بحال ہوسکے ۔ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ سرکاری اداروں سے نالاں اور مایوس افراد کو کم ازکم ایک بار اپنے مسئلہ اور شکایت کے حل کے لیے وفاقی محتسب سے ضرور رجوع کرنا چاہئے ۔خاطر جمع رکھیے کہ سائل کی ہاتھ سے لکھی گئی یا وفاقی محتسب کی ویب سائٹ پر درج کروائی گئی آن لائن درخواست پر وفاقی محتسب کی جانب سے بلاکسی تاخیر کارروائی شروع ہوجاتی ہے اور شکایت کنندہ کو ایس ایم ایس کے ذریعے اسکی شکایت کا نمبر او رتاریخ سماعت کی اطلاع کر دی جاتی ہے ۔جبکہ زیادہ سے زیادہ 60 یوم کے اندر ہر شکایت کو نمٹا بھی دیا جاتاہے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگلے برس سے وفاقی محتسب کے صدر دفتر کی طرح تمام علاقائی دفاتر میں بھی آن لائن سماعت کی سہولت فراہم کردی جائے گی ۔ یعنی مستقبل قریب میں کوئی بھی شکایت کنندہ سکائپ،IMOاور انسٹا گرام پراپنے گھر یا دفتر میں بیٹھ کر اپنی شکایت پر ہونے والی سماعت میں براہ راست شریک ہوکر اپنا موقف پیش کرسکے گا۔یاد رہے کہ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر کوئی بھی فریق نظر ثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے ،جس کا فیصلہ 45دن میں کر دیا جاتا ہے۔نیز فیصلوں کے خلاف اپیل صرف صدر پاکستا ن کو ہی کی جا سکتی ہے اور صدر پاکستان بھی عموماً وفاقی محتسب کے فیصلوں کو بحال رکھتے ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی محتسب کے قیام سے لے کر آج تک ،اس احتسابی ادارے کی طرف سے جاری کردہ فیصلوں کے خلاف کی گئی اپیلوں میں سے فقط 2 فیصد اپیلیں ہی سماعت کے لیے قبول کی گئی ہیں اور وہ بھی تمام شکایت کنندگان کی تھیں ۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ملک کا کوئی اور احتسابی ادارہ عوامی اُمنگوں کے مطابق کام کرے یا نہ کرے بہرکیف ’’وفاقی محتسب واقعی کام کرتاہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر