وجود

... loading ...

وجود

ماں جیسی ر یاست اور فہیم۔۔۔

جمعرات 02 دسمبر 2021 ماں جیسی ر یاست اور فہیم۔۔۔

پرسوں کراچی میں ایک کمسن بچوں کے باپ فہیم نے خودکشی کرلی۔ایسے واقعات تقریباً روز ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہوتے،اور ایسے لوگ لاکھوں بلکہ کروڑوں ہیں جن کے حالات اسی نہج پر ہیں۔
ان حالات کی ایک واضح وجہ تو مہنگائی اور بے روزگاری ہی ہے۔کچھ لوگ حکومتوں کی پالیسی کو بھی اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ معاشرے میں خود غرضی اور اس سے جڑے لالچ اور کرپشن کو عام لوگوں کی موجودہ حالت کی وجہ مانتے ہیں۔لیکن اس مضمون میں ہم ان سانحات کی وجوہات سے جڑی کچھ ایسی وجوہات پر بات کریں گے جن کے تانے بانے داخلی راستوں سے شروع ہوکر سرحدوں کے پار چلے جاتے ہیں۔
اس سانحے کو اس انداز سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ آج ہماری ریاست نے عوام کو اپنانے سے انکار کردیا ہے۔ریاست ماں کے جیسی نہیں رہی ہے۔ریاست ماں کے جیسی کیوں نہ رہی؟ ان حالات کی وجہ جاننا بہت ضروری ہے۔لیکن اس سے بھی پہلے کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا کہ دنیا میں کئی غریب ترین ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کوئی کئی مہینوں بھی بیروزگار رہے تو بھی اسے کم از کم بچوں کے اسکول اور اسپتال کے خرچوں کی فکر نہیں ہوتی،اور جہاں بنیادی ضروریات جیسے اشیائے خوراک اور بجلی وغیرہ اس قدر سستی ہیں کہ ان کے حصول کیلئے اس کو اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرنا پڑتا۔۔اس کی وجہ وہ زبردست زرتلافی ہے جسے ان ریاستوں نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔کیونکہ ریاست تو ماں کے جیسی ہوتی ہے۔۔
اور وہ ، وہ ممالک ہیں جنہیں آج کی سرمایہ دار ریاستوں یا عالمی ساہو کاروں نے بلیک لسٹ کر رکھا ہے، ان ملکوں کو ظالم ، آمر اور انسانی حقوق کے دشمن جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں ان ملکوں پر اس قدر بین الاقوامی پابندیاں ہیں کہ عملا ان کا دانہ پانی تک بند کردیا گیا ہے۔ان ممالک میں کیوبا ، شمالی کوریا ، شام اور دیگر لاطینی امریکی ممالک شامل ہیں، ان ممالک کا قصور یہ ہے کہ یہ دنیا میں انسانی دکھ اور درد کی اصل وجہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیتے ہیں۔اور یہ ممالک اس نظام سے خود کو اس قدر سختی سے دور رکھتے ہیں کہ جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کو آگ سے دور رکھتی ہے۔۔
سرمایہ دار دنیا کہتی ہے یہ سوشلسٹ ممالک عوامی آزادی کے دشمن ہیں عوام کو جدت سے ناآشنا رکھنا چاہتے ہیں۔۔مغرب، سوشلسٹ کے لفظ کو گالی کی طرح پیش کرتا ہے۔
ہم اس تحریر میں فہیم کی خودکشی پر ہی بات کررہے ہیں لیکن یقین جانیں کہ صرف یہ بات کرنا بالکل بیکار ہوگی جب تک پس پردہ اصل وجوہات اور مقامی اور بیرونی قصور واروں کو آشکار نہ کردیں۔۔
مغرب یہاں تک تو بالکل ٹھیک کہتا ہے کہ یہ ان ممالک۔کے عوام کو وہ سہولیات حاصل نہیں جنہیں تعیشات میں شمار کیا جاتا ہے، البتہ بنیادی ضروریات وہاں نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ بنیازی ضروریات کے شعبوں کو وہاں تاجروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دیا ہی نہیں جاتا۔۔تاکہ اشیائے ضرورت عوام کے استحصال کا آلہ نہ بن جائیں اور سرمایہ دار ان سے اپنی جھولیاں نہ بھرنے لگیں ، اور اسی بات سے مغرب ان ممالک سے چراغ پا رہتا ہے کہ وہ ان شعبوں کو پرائویٹائز کیوں نہیں کرتے کیوں وہ ساہوکاری نظام کا حصہ بن کر عوام کے پیسے سے مغربی معیشتوں کو خراج نہیں دلواتے ؟ یہی بہت بڑا جرم ہے ان ریاستوں کا۔۔
یہاں ہم اس سوال کا جواب تلاش کررہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست ماں کے جیسی کیوں نہ رہی؟ اسی بات کو بیان کرنے کے لیے ہمیں سرحدوں کے پار جانا۔پڑرہا ہے اور ساتھ ہی آگے چل کرتھوڑا ماضی میں بھی جھانکنا ہوگا۔۔میں کوئی سرخا یا سوشلسٹ نہیں ہوں لیکن مجھے یہ بات اب بہت اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ عوام مفاد کے شعبوں پر ریاست کا کنٹرول کتنا ضروری ہے اور ریاست کی رٹ کے نفاذ کیلیے سخت اقدامات کی کس قدر اہمیت ہے۔
سوشلسٹ ممالک، سرمایہ دارانہ ممالک کی جانب سے بعض مہربانیوں کی پیشکشوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا مطلب ابھی طرح سے جانتے ہیں۔۔مثال کے طور پر ان کیملک میں سرمایہ کاری کی پیشکش۔۔لیکن کچھ شرائط کے بدلے۔۔یہ شرائط کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ اگر مان لی جائیں تو ریاست کو اپنا ماں کا روپ بدلنا پڑتا ہے۔۔مثال کے طور پر سرمایہ کار ملک کہے گا کہ میری کمپنی آپ کے ملک میں بچوں کے دودھ کا کارخانہ لگانا چاہتی ہے ، جس کے بدولت آپ کے ملک میں دو ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا، اور ہم آپ کے ملک میں ٹیکس بھی ادا کریں گے جس سے آپ کی معیشت کو بھی سہارا ملے گا،کتنا اچھا ہوگا نا! بس آپ کو کرنا یہ ہوگا کہ آپ کی حکومت کی سرکاری سرپرستی میں جو دودھ کا کارخانہ چل رہا ہے اسے پرائیویٹائز کردیں تاکہ ہمارا کارخانہ مقابلے کی فضا میں کام کرسکے،کیونکہ سرکاری کارخانہ زرتلافی کے ساتھ دودھ نہایت سستا فروخت کررہا ہے اور ایک پرائیویٹ کمپنی جو منافعے کیلیے کام کرتی ہے وہ سرکاری کارخانے کے ریٹ کا مقابلہ کیسے کرے گی۔۔
اگر کوئی ریاست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لالچ میں اس شرط کو مان جائے تو یہ ریاست ماں کا پہلا وار ہوتا ہے جو اس نے عوام پر کیا ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھنے لگتا ہے اور پرائیوٹائزیشن کا عمل ہر شعبے تک پھیلنے لگتا ہے۔
بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی،پھر غریب ملک کو اس کی کرنسی سے اپنا کنٹرول ختم کرنے کا کہا جاتا ہے،اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کنٹرول کی وجہ اپ کی برآمدات نہیں بڑھ پا رہیں ، غیر ملکی سرمایہ کاری بھی محدود ہے ، اس لئیآپ اپنی کرنسی کو ڈالر یا کسی بڑی کرنسی سے لنک کردیں تو آپ عالمی تجارتی نظام کا حصہ بن جائیں گے۔۔
اس طرح مطالبات کی یہ فہرست طوہل تر ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ان ملکوں کی معاشی خودمختاری کو ہدف بنایا جاتا ہے، ایسے معاہدے کرائے جاتے ہیں کہ خودمختاری گروی رکھنا پڑے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ یہ ممالک عملا عالمی ساہو کاروں کے غلام بن جاتے ہیں۔۔بدقسمتی ہم پچھلے تیس سالوں میں اپنے ملک میں یہ سب سانحات ہوتے دیکھ چکے ہیں۔
ہم نے شروع میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ ریاست پاکستان ماں کے جیسی کیوں نہ رہی؟ تو دوستو اس کی بھی وجوہات کچھ ایسی ہی ہیں ترقی اور خوشحالی کے لیے ہم نے جس سرمایہ دارانہ نظام کو چنا، آج وہ ہمارے گلے کا طوق بن گیا ہے،اور کبھی کبھی اس نظام کے متاثرہ لوگ اپنے گلے میں ہی پھندہ ڈال بیٹھتے ہیں۔فہیم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔۔
معاشی غلامی کی یہ کہانی 1990 سے شروع ہوتی ہے۔مغرب کے نظام کو اپنانے کے شوق میں ہم نے اپنی کرنسی کا کنٹرول چھوڑ دیا اور اسے ڈالر سے لنک کرنے کا فیصلہ کیا۔۔
اس سے بڑی خود فریبی کیا ہوگی کہ سائنسی اور صنعتی ترقی اور نظام معیشت دو الگ الگ شعبے ہیں لیکن ہمیں پٹی یہ پڑھائی گئی کہ ترقی کی وجہ آزاد منڈی والا سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے۔حالانکہ کوئی سادہ لوح انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ سائنسی اور صنعتی ترقی کی وجہ تعلیم ہے، جبکہ معاشی نظام کسی خطے اور قوم کے جغرافیہ ، وسائل اور ضروریات کی روشنی میں ترتیب دیا جاتا ہے۔
خیر۔۔ بات یہ ہورہی تھی کہ پاکستان میں کرنسی ، ڈالر سے لنک کرتے ہی اگلے کچھ گھنٹوں میں پندرہ فیصد ڈی ویلیو ہوگئی،یعنی ڈالر کا ریٹ 12 روپے سے یکدم 14 روپے ہوگیا،اس پر ہمیں تسلی دی گئی کہ گھبراؤ نہیں،اگے دیکھو کیا ہوتا ہے، اور پھر اس بات کو دو سال بیت گئے۔ڈالر اب 25 روپے کا ہوچکا تھا۔
یہاں میں اپ کو ایک دلچسپ بات بتانے جارہا ہوں کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام پر ہی یقین رکھتی ہے،اس طرح سے وہ لاکھ اپنے منشور الگ الگ انداز سے پبلش کرالیں ان کی پالیسیوں میں حقیقتاً کوئی فرق نہ ہوگا۔اور ایسا ہی ہے۔۔بلکہ یہاں یہ بات بھی کہہ کر آگے بڑھا جائے کہ ہماری کسی سیاسی جماعت کے پاس اپنا کوئی ریاستی معاشی نظام موجود ہی نہیں ہے۔۔
خیر سرمایہ دارانہ نظام سے جڑنے کی وجہ سے ایک طرف تو ہم سے کرنسی کا کنٹرول ختم کرایا گیا اور پرائیوٹائزیشن کا اندھا دھند سلسلہ شروع کرایا گیا،ساتھ ہی ہمیں یہ ترغیب بھی دی گئی کہ اب عالمی مالیاتی اداروں سے بھی رجوع کیا جائے تاکہ ہم اس امداد سے اپنے معاشی اہداف بھی حاصل کرسکیں،یہ ایک اور بڑا وار تھا۔جس کے منفی نتائج سے آج پاکستان کا تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔
ان مالیاتی اداروں کی نظریں ہمیشہ عوام کی جیب پر ہی رہیں کہ کیسے ان سے ٹیکسز ، سبسڈیز کے خاتمے اور دیگر ہتھکنڈوں کے زریعے رقم نکلوا کر قرض کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکے۔عوام کی جیبوں سے رقم نکل کر مغربی ساہوکاروں کی جیبوں میں جانے لگی۔مڈل کلاس کی تعداد میں کمی آئی ،لوئرمڈل کلاس کی تعداد بڑھی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ لوئر مڈل کلاس غربت کی لکیر میں داخل ہوگئی اور یوں تیزی سے ایک دو نہیں لاکھوں کروڑوں فہیم پیدا ہونے لگے۔
دوستو۔معاشی تباہی کے اس عمل میں کئی ذیلی عوامل بھی کارفرما ہوگئے،جن میں قانون کی عدم عمل داری اور کرپشن بھی پیش پیش تھے۔
دوستو پھر ہوا یوں کہ ریاست ماں کے جیسی نہ رہی،تمام دعوے کھوکھلے ہونے لگے۔۔ ماں کی آغوش اب ایک تپتی زمین بن چکی تھی۔
ہم نے شروع میں یہی سوال اْٹھایا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی کیوں نہ رہی ؟ اس کی کچھ وجوہات جو سامنے آئیں ان میں سے بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام سے جڑنا سمجھ میں آتی ہے،ورنہ ان غریب ملکوں میں،جن کا ذکر ہوا،غربت کے باوجود ایسی نفسا نفسی کیوں نہیں ہے؟ کیوں وہاں عوام ان معاملات کے لیے پریشان نہیں ہوتے جن کا زمہ ریاست اٹھا چکی ہے۔وہ ماں امیر تو نہیں لیکن عوام کو بھوکا نہیں مرنے دیتی،جو عوام سے منافع نہیں لیتی،جہاں بچے غریب سہی مگر پیدائشی مقروض نہیں ہوتے،اور ان کی غربت کو غربت کہنا بھی شاید ان کی توہین ہی کہلائے گی کیوں کہ وہاں بنیادی سہولتیں تو ان کو میسر ہی ہیں اور رہی تعیشات کی بات۔تو حقیقت یہ ہے کہ ان تعیشات سے دور رہنا ہی بھلا۔۔۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ اگر آپ نے اس مضمون کو پورا پڑھا ہے تو اس غاصب عالمی معاشی نظام پر ضرور بات کیا کریں تاکہ ہم اپنی تباہی کے معاملات کی اصل گہرائی تک پہنچ سکیں ، مجھے کمنٹ کرکے بھی بتائیں کہ کہاں مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی اور کیسے ہم اپنے اصل مسائل کو جاننے کی سمت سفر کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر