... loading ...
شمعو نہ صدف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروین شاکر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ، میٹرک تک تعلیم رضویہ سوسائٹی ناظم آباد (رضویہ گرلز ہائی اسکول) سے حاصل کی۔سر سید گرلز ڈگری کالج ناظم آباد سے بی اے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے پہلے انگریزی ادب جب کہ اس کے بعد انگریزی لسانیات میں ایم اے کیا اور پہلے عارضی طور پر سر سید گرلز کالج میں طالبات کو پڑھایا بعد ازاں عبد اللہ گرلز کالج کراچی میں مستقل بنیاد پر آپ کا بحیثیت لیکچرر تقرر ہوگیا۔پروین شاکر کا حصول تعلیم سے استاد بننے تک کا سفر ۱۹۷۴ء تک ۱۸ سالوں پر محیط ہے اسی دوران سر سید گرلز کالج میں ایک طرحی مشاعرہ بیگم بلقیس کشفی کی صدا رت میں منعقد ہو تھا جس میں پر وین شاکر نے بحیثیت ایک طا لبہ پہلی با ر اپنی شا عری پیش کی تھی جس پر انہیں پہلا انعام دیا گیا تھا ۔پروین شاکر کا گھرانہ چونکہ خوشحال تھا لہٰذا اسے مفلسی اور بے زری اور محرومی کے دور سے نہیں گزرنا پڑا لیکن اس کا وژن(vision) اس قدر وسیع تھا اور اس میں ادراک کی اس قدر قوت تھی کہ اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں موجود لڑکیوں اور خواتین کے ہر طرح کے جذبات و احساسات کو پوری طرح سے محسوس کرلیا تھا اسی لیے جب یہ نازک اندام شاعرہ ناز و نعم میں پل کر جوان ہوئی تو اس کی شاعری محبتوں،امیدوں اور خوشبوئوں کا حسین امتزاج بن گئی اور یوں ’’خوشبو‘‘ جیسی شاہکار کتاب نے جنم لیا۔
کوبہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
٭٭٭٭٭
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جائوں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
مرے چہرے پر تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
پروین شاکر کی اولین شاعری پر رومانیت چھائی ہوئی ملتی ہے مگر یہ رومانیت مجنونانہ رومانیت نہیں ہے جو جذبوں کو دیوانگی سے ہم کنار کردے اور فکر کو پابہ زنجیر کرکے رکھ دے بلکہ اس رومانیت سے زندگی سے پیار بڑھتا ہے اور انسانی شعور و ادراک کو مہمیز لگتی ہے یہ رومانیت پھیل کر جب کائنات پر محیط ہوجائے تو شاعری پیغمبری کا ایک جز بن جاتی ہے کیونکہ بڑا شاعر کبھی بھی داخلیت کے حصار میں مقید نہیں رہ سکتا ، وہ ہمیشہ اپنے ناموافق ماحول اور معاشرے کے کھوکھلے پن سے شاکی بھی رہتا ہے اور اسے اپنی شاعری کا حصہ بھی بناتا ہے۔وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی کو اپنے خیالات ، خوابوں اور تصورات کی مانند پاک و صاف اور حسین و جمیل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے پروین شاکر کے عصری شعور نے اسے اس اجتماعی کرب سے ہمیشہ ہی دوچار رکھا۔شاعر کا قلم اس کاطاقتور ہتھیار ہوتاہے اور اس کی تحریر ایک ہمہ گیر صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے تو پورے عہد کی آواز بن جاتی ہے پروین شاکر کے اس معاشرتی شعور اور آشوب آگہی کی یہ تصویر انسانی احساس کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے۔
دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے
تو مجھ کو کرب ذات کی سچی کمائی دے
میں عشق کائنات میں زنجیر ہوسکوں
مجھ کو حصار ذات کے شر سے رہائی دے
٭٭٭
مسافرانِ شب غم اسیر دار ہوئے
جو راہنما تھے ، بکے اور شہریار ہوئے
٭٭
باہر سے نئی سفیدیاں ہیں
اندر سے مکاں ڈھ رہا ہے
٭٭
اہرام ہے یا کہ شہر میرا
انسان ہیں یا حنوط لاشیں
سڑکوں پر رواں، یہ آدمی ہیں
یا نیند میں چل رہی ہیں لاشیں
پروین شاکر کی پہلی کتاب ’’ خوشبو‘‘ ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی جبکہ دیگر تین مجموعائے کلام” صدبرگ” ،” خود کلامی” اور” انکار” اگلے سات آٹھ برسوں میں چھپ گئے ۔شاید قدرت ان سے ان کے حصے کا کام جلدی جلد ی لے رہی تھی جبکہ اس کے آخری مجموعہ کلام ’’انکار ‘‘ کی اشاعت کے چند سال بعد عین اسی سال جو اس دنیا سے اس کی رخصتی کا سال تھا اس نے اگلا کوئی شعری مجموعہ شائع یا مرتب کرنے کے بجائے اپنے سابقہ چاروں شعری مجموعوں کو کلیات کی شکل میں ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے اپنی وفات سے چند ماہ قبل شائع کردیا۔شعری تخلیقی سفر کا آگے جاری نہ رہنا اور سابقہ شعری سرمایہ حیات کو سمیٹ کر مرتب کرنا اس بات کی طرف کلی اشارہ تھا کہ
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
سینیٹر اعتزاز احسن کے مطابق پروین شاکر سے انہوں نے ماہ تمام کی ترتیب کی وجہ پوچھی تو جواب ملا ’’زندگی کا کیا بھروسہ کب ساتھ چھوڑ جائے لہٰذا میں چاہتی ہوں کہ اپنی حیات میں ہی اپنے کلام کو یکجا کرکے شائع کردوں۔‘‘بھارتی رائٹر و استاد محقق و دانشور ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپالی) ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’۱۹۹۴ء میں ان کی تمام تخلیقات کاایک ضخیم مجموعہ ’’ماہ تمام‘‘کے نام سے شائع ہوا اور اس کے کچھ ماہ بعد ہی ۴۲ برس کی عمر میں (جو مرنے کی نہیں ہوتی) وہ اچانک ہم سے رخصت ہوگئیں۔اردو دنیا میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کا آخری مجموعہ ’’ماہ تمام‘‘ جس کی قیمت ہندوستانی روپوں میں اس وقت(1994) میں چھ سو روپے بنتی تھی دبئی میں ایک ادبی محفل میں فروخت ہوا تو ان کے پرستاروں نے طویل قطار میں کھڑے ہوکر اسے خریدا اور وہاں موجود دوسری ادبی شخصیات حیرانی کے ساتھ اس منظر کو دیکھتی رہیں۔‘‘انہوں نے آگے لکھا ہے کہ ۱۹۸۶ء میں پروین شاکر جب ہندوستان آئیں تو نئی دہلی کے ہوٹل” جن پتھ ” میں ٹہریں جہاں ان کی جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ لگی رہی اتنی مقبولیت اگر کسی فلمی اسٹار یا فلمی شاعر کو ملے تو حیرت نہیں ہوتی لیکن اردو کی کسی ۳۵ سالہ شاعرہ کو یہ مقبولیت حاصل ہونا معمول کی بات نہیں کہ اس کی شاعری کے بیشتر حصے کا ترجمہ خود ان کی زندگی میں تمام عصری زبانوں میں ہوجائے اس لحاظ سے تو وہ اپنے معاصر مرد و شعراء سے بھی کافی آگے نظر آتی ہیں۔‘‘پروین شاکر نے ۱۹۸۱ء میں سی ایس ایس کا امتحان دے کر ملک بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے کسٹم کے محکمے کو جوائن کرلیا تھا جس سے وہ اپنی ناگہانی و حادثاتی وفات تک منسلک رہیں بلکہ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ء کی صبح وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ اسلام آباد میں واقع اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کا ایکسڈنٹ ہوگیا۔ زخم اتنے شدید تھے کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں اور یہ کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہوگئیںکہ:۔
ساتھ میرا زمیں دیتی مگر
آسماںکا ہی اشارہ اور ہے
حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
٭٭٭