وجود

... loading ...

وجود

امریکی و چینی ہم منصب کی ورچوئل ملاقات ،کس نے کھویا ،کس نے پایا؟

اتوار 21 نومبر 2021 امریکی و چینی ہم منصب کی ورچوئل ملاقات ،کس نے کھویا ،کس نے پایا؟

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین ایک بڑی عالمی معاشی طاقت تو تھا ہی لیکن اَب بڑی تیزی کے ساتھ چین عالمی سیاسی طاقت بھی بنتا جارہا ہے ،جس کا اندازہ گزشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ مابین ہونے والے ورچوئل ملاقات میں چینی صدر کے اختیارکردہ جارحانہ لب و لہجہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان یہ ورچوئل ملاقات 3 گھنٹے تک جاری رہی لیکن اِس ساری نشست میں چین صدر شی جن پنگ نے سخت لب و لہجہ اختیار کیے رکھا جبکہ اُن کے ہم منصب امریکی صدر جوبائیڈن زیادہ تر دفاعی اور وضاحتی جملوںکا استعمال کرتے رہے ۔ مثال کے طور پر جب امریکی صدر نے بیجنگ پر انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو اُس کے جواب میں چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ ’’ چین بڑے صبر اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے اور بڑے خلوص اور کوشش کے ساتھ امریکا کے ساتھ ازسرنو پرامن اتحاد قائم کرنے کا خواہاں ہے لیکن اگر امریکا کی جانب سے بیجنگ میں انسانی حقوق کو بہانہ بناکر یا تائیوان کے علیحدگی پسند کو اشتعال انگیزی پر آمادہ کر کے ، یا چین کی کھینچی گئی کسی بھی ریڈ لائن کو عبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، تو پھر ہمیں فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے اور تائیوان میں وہ لوگ جو آزادی چاہتے ہیں اور امریکا میں ان کے حامی ہیں ،وہ سب ’’آگ سے کھیل رہے ہیں‘‘۔چینی صدر کے دو ٹوک موقف کو سننے کے بعد فوراً ہی جوبائیڈن نے کہا کہ ’’ مجھے لگتا ہے کہ چین اور امریکا کے رہنماؤں کے طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے ممالک کے درمیان تنازع نہ ہوں‘‘۔جس پر شی جن پنگ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ مجھے امید ہے کہ آپ واشنگٹن کی چین سے متعلق پالیسی کو ایک عقلی اور عملی راستے پر واپس لانے کے لیے سیاسی قیادت کا استعمال کر سکتے ہیں‘‘۔
بظاہر دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ورچوئل ملاقات کا کوئی فوری اور حتمی نتیجہ تو برآمدنہیں ہوا لیکن دنیا بھر پر یہ ضرور اظہر من الشمس ہوگیا کہ آہستہ آہستہ چینی قیادت کا لہجہ سخت جارحانہ جبکہ امریکی قیادت کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوتا جارہاہے۔ جبکہ مغربی ذرائع ابلاغ نے دونوں فریقین کی ملاقات کو اس لحاظ سے مثبت قرار دیا کہ دونوں رہنماؤں نے شمالی کوریا، افغانستان، ایران، توانائی کی عالمی منڈیوں، تجارت اور مسابقت، آب و ہوا، فوجی مسائل، وبائی امراض اور دیگر شعبوں پر بغیر کسی لگی لپٹی کے کھل کر تبادلہ خیال کیا۔حالانکہ کسی بھی مسئلے اور تنازع کے حل پر دونوں رہنما، اتفاق نہیں کرسکے مگر پھر بھی گفتگو میں تنازعات کا زیر بحث آجانا اس لحاظ سے ایک بڑی پیش رفت ہے کہ کم ازکم دونوں ممالک کی قیادت کو یہ معلوم تو ہوا کہ وہ آخر ایک دوسرے سے چاہتے کیا ہیں ؟بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اور امریکی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ورچوئل ملاقات میں امریکی صدر جوبائیڈن کچھ بجھے بجھے اور کمزور سے نظر آئے جبکہ اُن کے مقابلے میں چینی صدر شی جن پنگ اعتماد سے بھرپور شخصیت دکھائی دے رہے تھے۔
دراصل امریکی صدر جوبائیڈن افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد مختلف طرح کے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور وہ اس وقت کسی بھی عالمی پالیسی کو نافذ کرنے کے معاملے میں یکسو نظر نہیں آتے ۔جبکہ اُن کے برعکس چینی صدر شی جن پنگ غیر معمولی سیاسی استحکام رکھنے والے چین کے مقبول اور طاقت ور ترین صدر بن چکے ہیں ۔ واضح رہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی 100 سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کی تیسری قرارداد ہے جس سے صدر شی جن پنگ کا سیاسی رتبہ اور انتظامی طاقت عظیم چینی رہنما ماوزے تنگ اور ڈینگ زیاؤپنگ کے برابر بلکہ بعض اُمور میں اُن سے بھی کہیں بڑھ کر اور اقتدار پر ان کی گرفت ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو گئی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ شی جن پنگ کے بارے میں زبان زد عام ہے ،اُن کی زندگی میں اَب کوئی چینی رہنما اُن کی جگہ نہیں لے سکتا یعنی وہ دوسرے معنوں میں چین کے تاحیات صدر بن چکے ہیں ۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہواکے مطابق شی جن پنگ کے حق میں پیش کی گئی اس طویل ترین قرارداد میں ’’پارٹی کی تاریخ کے درست نقطہ نظر‘‘کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور چینی سماج اور اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صدر شی جن پنگ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلیں کیونکہ شی جن پنگ کی آئیڈیالوجی ’’چینی ثقافت اور روح کا نچوڑ ہے‘‘۔پیش کی گئی قرارداد کے متن کے مطابق’’ چینی قوم میں ایک نئی روح اور جوش پیدا کرنے کے تاریخی عمل کو فروغ دینے کے حوالے سے حکمراں جماعت کے’’قلب ‘‘میں شی جن پنگ کی موجودگی فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے‘‘۔علاوہ ازیں پارٹی کی اعلی ترین فیصلہ ساز سینٹرل کمیٹی نے پوری جماعت، پوری فوج اور تمام نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کامریڈ شی جن پنگ کی قیادت میں پارٹی سینٹرل کمیٹی کے ساتھ پوری طرح متحد ہوجانے کی اپیل کی تاکہ ’’چینی خصوصیات والے شی جن پنگ کے سوشلزم کے نئے دور کو مکمل طور پرنافذ کیا جاسکے‘‘۔
سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ’’ پارٹی کی اہم کامیابیوں اور تاریخی تجربات‘‘کے عنوان سے منظور اس قرارداد کی وجہ سے چینی صدر شی جن پنگ کا رتبہ چین کے عظیم انقلابی رہنما ماوزے تنگ نیز ڈینگ زیاوپنگ کے برابر ہوگیا ہے جنہوں نے 1978سے 1989تک ملک کی قیادت کی تھی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قرارداد کی وجہ سے شی جن پنگ کو اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے، چین کے حوالے سے اپنے نظریات کو نافذ کرنے اور سابقہ رہنماوں کے کرداروں کو کم تر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔یاد رہے کہ اس طرح کی پہلی قرارداد 1945 میں منظور کی گئی تھی جس سے کمیونسٹ پارٹی پر ماو زے تنگ کے اقتدار اعلیٰ کو مضبوط کرنے میں مدد ملی تھی۔ دوسری قرارداد سے ڈینگ زیا پنگ کو اقتصادی اصلاحات کی اجازت مل گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حالیہ قرار داد منظور کی گئی تھی تو اس میں چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ کا نام سات مرتبہ اور ڈینگ کا صرف پانچ مرتبہ لیا گیا ہے جبکہ چینی صدر شی جن پنگ کا ذکر سترہ بار کیا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال قارئین کے ذہن میں آسکتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ چینی صدر شی جنگ پنگ کو چین کے عوام اور سیاسی قیادت نے تاحیات اپنے رہنما کے روپ میں منتخب کرلیا ہے۔دراصل شی جن پنگ چیئرمین ماو ٔ زے تنگ کے سب سے بااعتماد جرنیل کے بیٹے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ انہیں چین کی سیاسی وانقلابی تاریخ میں ڈینگ زیاو پنگ کے بعد سے کسی بھی رہنما کے مقابلے میں سب سے زیادہ ذاتی اختیار کا حامل قرار دیا گیا ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی نے 2018 میں صدر کے عہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ 68 برس کی عمر کی حد بھی شی جن پنگ کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ہی ختم کی تھی ۔ اور اَب چینی کمیونسٹ پارٹی نے اِن کے لیے اپنی برسوں پرانی روایت کو توڑتے ہوئے مدتِ اقتدار میں بھی غیر معینہ مدت کے لیے توسیع کردی ہے تاکہ چینی صدر شی جنگ پنگ کو پرانی روایت کے مطابق جنرل سیکریٹری کی دوسری پانچ سالہ مدت کے اختتام پر اگلے برس انہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا نہ پڑے اور وہ تاحیات چین کے صدر رہ سکیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ شی جن پنگ کے سیاسی نظریات آج چین کے تمام تعلیمی اداروں میں نصاب کا بھی حصہ ہیں اور سات برس کی عمر سے ہی بچوں کو ان کے نظریات کے بارے میں پڑھا نا شرو ع کردیا جاتا ہے۔
شی جن پنگ کے مقابلے میں امریکی صدر جوبائیڈن تو انتظامی طور پر اس قدر کمزور ہیں کہ اگر افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے موضوع پر اِن کے خلاف مواخدے کی ایک کاغذی تحریک پیش کردی جائے تو اس چھوٹی سی تحریک کی منظوری سے اُن کا اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے رخصت ہوسکتاہے ۔ جبکہ امریکا میں سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے جاں نثار حامی بھی جوبائیڈن کے لیئے ایک بڑا سردرد بنے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ جس انداز سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی کی اندرونی سیاست میں آج کل مصروف نظر آرہے ہیں ،اُس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امریکا میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات کے لیے ایک مضبوط صدارتی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئیں گے۔ کیا اگلے انتخابات میں جوبائیڈن اور اُن کی جماعت امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مل کر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ سے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے روک سکیں گی؟۔یہ اور ایسے نہ جانے کتنے اَن گنت داخلی مسائل امریکی صدر ، جوزف بائیڈن کی سب سے بڑی سیاسی کمزوری بن چکے ہیں ۔ یاد رہے کہ جب تک جوبائیڈن اپنے اندرونی مسائل اور کمزوری سے جان نہیں چھڑالیتے اُس وقت تک وہ چینی صدر شی جن پنگ کے سامنے بھیگی بلی بنے ہی دکھائی دیں گے۔
یہ تو اچھا ہوا دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات مکمل طور ورچوئل تھی اگر خدانخواستہ جو بائیڈن اور شی جی پنگ ایک دوسرے کے ساتھ دو بدو ملاقات کرتے تو امریکی صدر کی ’’سیاسی کمزوریاں‘‘ مزید عیاں ہونے کا بھی اندیشہ تھا۔بہرحال عالمی بالادستی کی جنگ جیتنے کے لیئے چینی قوم پوری طرح سے سنجیدہ اور یکسو ہوچکی ہے اور اسی لیئے چینی عوام نے ’’گریٹ ورلڈ گیم ‘‘ کا مکمل طور پر اختتام ہونے تک اپنا کپتان یعنی چینی صدر شی جن پنگ کو تبدیل نہ کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا ہے۔ قیادت کا تسلسل جہاں چین کی سب سے بڑی طاقت و قوت بنتا جارہاہے وہیں امریکی نظام ہائے سیاست میں قیادت کا بحران عالمی محاذ پر امریکی عوام کے لیے شکست و شرمندگی کی نت نئی داستاتیں رقم کر رہا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر