... loading ...
نامورمغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے کہا تھا
بابر بعیش کرد کہ عالم دوبارہ نیست
ان کا کہنا دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے کہ انسان کو زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے کامیاب بنایا جائے اور وہ اتنی ترقی کرے کہ لوگ اس کی مثالیں دیتے پھریں۔ یہ اور بات ہے کہ کامیابی کا معیار ہر ایک کے نزدیک الگ الگ ہے فرض کرلیں کامیابی کے معیار کی 3بڑی اقسام ہیں، اول یہ کہ لوگ اس فانی دنیا میں عیش و عشرت، دولت اور آسائشوںکی زندگی ہی کو کامیابی کا معیار بنالیتے ہیں دوئم کچھ لوگ صرف عبادات پر ہی زور دیتے ہیں وہ سب کچھ اسی تناظرمیں دیکھتے ہیں مثلاً میرا ایک دوست کسی بیرون ِ ملک تبلیغ پر جانے کے لیے تبلیغی مرکز گیااسی اثناء میں اسے اطلاع دی گئی کہ اس کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اس نے کہا میں تدفین کے لیے نہیں جائوںگا میں تو اللہ کی راہ میں تبلیغ کے لیے جانے والا ہوں یہ رویہ جس پر مذہبی جذبات حاوی ہوگئے ہیں اکثردیکھنے میں آیاہے کہ ان کا گھر والوں خصوصاً بیوی بچوںیا ماتحتوں کے ساتھ سلوک انتہائی ناروا ہوتاہے اس عالم میں اخلاقیات نہ جانے چلی جاتی ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ بیوی ،بچوں یا ماتحت کے ساتھ نبی ٔ آخرالزماں ﷺ کا رویہ اور حسن ِ سلوک کیسا تھا؟ ایسے لوگ اپنی کامیابی کو اپنی محنت کی مرہون ِ منت قرار دیتے نہیں تھکتے۔تیسری قسم ان لوگوںکو ہوتی ہے جو دین کو دنیا اوردنیاکو دین کے ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں یقینا یہی لوگ کامیاب و کامران ہوتے ہیں کہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ اور خاص طور پر آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔اس کامیابی کے حصول کے بہت سے طریقے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے کامیابی کے جو طریقے بتائے وہی اعلی اور افضل ہیں نہ صرف دینی اعتبار سے کہ رسول اللہ ﷺ ہی ہمارے لیے معیار حق ہیں اور عقلی اعتبار سے بھی۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کی ہر تعلیم عقلی معیار پر سوفیصد پوری اترتی ہے اور اگر ہماری محدود عقل میں ان کی کوئی بات نہ بھی سمائے تو وہ ہوتی برحق ہے اور اس پر عمل کرکے ہی ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔اس کامیابی کے حصول کا اصل راز وقت کا دانشمندانہ استعمال ہے۔ کیونکہ کامیابی کے راستے میں بہت سے فرائض اور کام ہیں،اور اتنے کام ہیں کہ اگر کسی ایک طرف لگ جائیں تو دوسرے کا وقت نہیں ملتا اور عمر کا بہت سا قیمتی وقت ہم فضول کاموں میں ضائع کردیتے ہیں اور ہمیں عمر کے آخری حصے میں ہوش آتا ہے کہ پہلے ہم نے وقت کو ضائع کیا اور پھر وقت نے ہمیں ضائع کردیا۔لیکن اس وقت پچھتانے سے بہتر ہے کہ ابھی سے کچھ کرلیں۔یہ کلیہ ہر مذہب، مسلک، رنگ ونسل اور ہر نظریے کے ماننے والے پر صادق آتا ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ چاہے کوئی دولت اور ثروت کو کامیابی کا معیار بنائے، چاہے شہرت اور اقتدار کو یا چاہے آخرت میں کامیابی کو۔ اس مرحلے پر یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگر کوئی بھی فرد آخرت میں کامیابی کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کی دنیا خودبخود سنور جاتی ہے۔
ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ دنیا سنورنے کا مطلب دولت، شہرت یا اقتدار نہیں۔ بلکہ دنیا میں آپ کے جو بھی فرائض ہیں، مثلا حصول علم، روزگار، اپنے والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کی بخوبی ادائیگی۔ ان سب فرائض کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی فریضہ بھی ہے، وہ حقوق اللہ کی ادائیگی ہے۔ فرائض اور واجبات کے ساتھ ساتھ اللہ رحمن الرحیم سے قلبی تعلق، اس کی نعمتوں کا شکر، ہرلمحے اسی کا تصور۔نبی کریم ﷺ سے عشق، ان کی حیات طیبہ کا مسلسل مطالعہ کرکے ان سے محبت کو دل میں بڑھاتے جانا اور اس میں اتنا اضافہ کرلینا کہ جب بھی ذکر مصطفے ﷺ آئے، آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں۔یہ تمام کام ممکن ہیں، اگر وقت کے گھوڑے پر سوار ہوکر ہم اس کی لگام مضبوطی سے پکڑ لیں۔ وقت کی مثال برف کی طرح ہے، جو تیزی سے پگھل رہی ہے اگر اسے استعمال نہ کیا تو وہ پانی بن جائے گی۔ہمیں ہر روز ایک ہزار چار سو چالیس منٹ دئیے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان کا دانشمندانہ استعمال کریں اورثابت قدمی کے ساتھ کریں تو کار زار حیات میں ہم ہی کامیاب ہوں گے۔ایک ایک لمحے کو قیمتی بنانا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو کاغذ پینسل تھام کر تمام کاموں کو لکھ لینا اور باقاعدہ نظام الاوقات بنا کر کام کرنا انسان کو غیرضروری ایکسرسرائز سے بچاسکتاہے آپ غورکریں تو احساس ہوگا کہ دنیا کے تمام بڑے اور کامیاب لوگوں نے اسی فارمولے پر عمل کیاہے۔
ہمارے لیے تو نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات ہی ایسی مثال ہے کہ ہمیں ان ﷺ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے وقت کا بہترین استعمال کیا، رات کے تیسرے پہر میں اٹھ کر نوافل ادا کرنا، فجر کی نماز کے بعد صحابہ کرام کے ساتھ مجلس کرنا، نماز ظہر کے بعد قیلولہ فرمانا، شام کو ازواج مطہرات کے گھر وں میں جاکر ان کی خیریت دریافت کرنا۔بیماروں کی عیادت کرنا، جنازوں میں شرکت کرنا۔ امور مملکت نمٹانا، جنگوں میں شرکت کرنا، مقدموں کے فیصلے کرنا، بہت اہتمام سے عبادات کرنا، ذکر میں مشغول رہنا اوربہت سے کام انجام دینا۔جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ہمارے لئے حضور پرنور ﷺ کی ذات میں ہر طرح کی مثال ہے، ہم سیرت طیبہ ﷺ کا مسلسل مطالعہ کرکے اپنی زندگی کو بھرپور اور مثالی بناسکتے ہیں۔ان کے صحابہؓ کرام نے نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرکے اپنے وقت کا بہترین استعمال کیا اور اتنی کامیابیاں حاصل کیں کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں۔ لیکن اس کے لیے یکسوئی اور ثابت قدمی ضروری ہے۔رازِ حیات یہی ہے کہ وقت کا موثر اور بھرپور استعمال کیا جائے اور فرائض و واجبات کے علاوہ اتنے کام کئے جائیں جن کو مستقل طور پر جاری رکھا جاسکے۔ ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام کرہی ہم کامیابی کی ایسی منزلوں پر پہنچ سکتے ہیں جس کا تصور بھی محال ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم وقت کو فضول کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے ایسے کاموں میں صرف کریں جو ہمیں کامیاب بناسکیں۔ یہی رازِ حیات ہے اور یہی زندگی کا حاصل بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔