... loading ...
افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء اور طالبان کے زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد اَمن و اَمان کی صورت حال میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے ۔گو کہ ابھی بھی داعش کی جانب سے امارات ِ اسلامی افغانستان یعنی طالبان کی حکومت کے خلاف خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے واقعات وقفے وقفے سے ہوتے رہتے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اِن پرتشدد،واقعات کی تعداد ماضی کے مقابلے میں خاصی کم ہوچکی ہے۔جبکہ طالبان نے ملک بھر میں حکومتی نظم و نسق بھی اشرف غنی کی حکومت کے مقابلے میں کافی بہتر انداز میں قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ مگر ایک شئے جس کی ابھی تک طالبان حکومت کو افغانستان میں شدت کے ساتھ تلاش ہے ۔وہ دیرپا معاشی استحکام کا حصول ہے۔ جی ہاں! جہاں امارات اسلامی افغانستان بہت سے اہداف کے حصول کی جانب اپنے قدم تیزی سے بڑھا چکی ہے ،وہیں معیشت کے میدان میں طالبان حکومت کو اپنے قدم جمانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ طالبان افغانستان میں معاشی استحکام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے لیکن ایک بات طے ہے افغان معیشت کو بہتر بنانے کے لیئے طالبان کوہر ایک قدم پر عالمی برادری کا بھرپور تعاون بہر صورت درکار ہوگا۔یعنی افغانستان سے معاشی عدم استحکام کا خاتمہ کرنا تنہا طالبان حکومت کے بس کا کام دکھائی نہیں دیتا۔
یقینا طالبان کی مرکزی قیادت کو بھی اِس نازک مسئلہ کا پوری طرح سے ادراک ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اُن کی جانب سے بار بار عالمی برادری کی جانب سے دست تعاون دراز کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر مغربی ممالک طالبان کی طرف دستِ تعاون بڑھانے سے پہلے اُن سے اپنے من پسند مطالبات منوانا چاہتے ہیں ۔ جن میں سرفہرست افغانستان میں انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کی بحالی ہے۔ بظاہر طالبان کو افغانستان میں انسانی حقوق کی بحالی پر کوئی خاص اعتراض نہیں ہے ،سوائے اس کے کہ انسانی حقوق اور حقوق ِ نسواں کی آڑ میں خلاف ِ شریعت ’’مادر پدر آزادی ‘‘ کا مطالبہ اُن سے نہ کیا جائے ۔ مثال کے طور پر طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان کے صوبے ہرات میں 7 سے 12 ویں جماعت تک کی طالبات کے لیئے اسکول دوبارہ سے کھول دیئے گئے ہیں۔ اس بارے میں ہرات ٹیچرز کونسل کا کہنا ہے کہ 7ویں سے 12ویں جماعت کی طالبات کے اسکول کھولنے کا فیصلہ محکمہ تعلیم کیساتھ مل کرکیا گیا ہے۔یاد رہے کہ طالبان کے اِس اقدام کے بعد صوبہ ہرات میںتقریباً 3 لاکھ سے زائد طالبات اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی۔
دوسری جانب طالبان حکومت نے اپنی وزارت صحت کے ماتحت افغانستان میں 4 روزہ ملک گیر انسداد پولیو مہم کے آغاز کا اعلان بھی کردیا ہے، جس کے دوران 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔واضح رہے کہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل تین برسوں سے طالبان نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اقوامِ متحدہ کی ویکسی نیشن ٹیموں کو گھر، گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا ہوا تھا۔ کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پولیو ٹیموں کے اراکین اشرف غنی کی حکومت یا مغرب کے لیے اُن کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔یوں پابندی اور جاری لڑائی کے سبب گزشہ 3 برسوں میں 33 لاکھ سے زائد بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہے تھے ۔ماضی میں پولیو مہم کے متعلق اختیار کیئے گئے طالبان کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت مثبت قدم ہے جو طالبان نے عالمی برادری کے ایما پر اُٹھایا ہے۔
چونکہ افغانستان اور پاکستان دنیا کے وہ دو ممالک ہیں جہاں پولیو اب بھی موجود ہے ۔اس لیے ماہرین کے نزدیک افغانستان میں پولیو مہم کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ افغانستان اور پاکستان قومی اور علاقائی سطح پر پولیو وائرس کے کامیابی کے ساتھ خاتمے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھائیں اور حفاظتی ٹیکوں کی مہم کے نظام الاوقات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرلیں۔اس معاملہ پر سب سے بڑی پیش روفت یہ ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کے حکام کا ماہرین کی تجویز سے کامل اتفاق کرتے ہوئے پولیو وائرس کی منتقلی سے مؤثر طریقے سے نپٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے کا منصوبہ مکمل جزیات کے ساتھ طے پاگیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان کی تخمینہ شدہ ہدف آبادی 5 سال سے کم عمر کے ایک کروڑ بچوں پر مشتمل ہے جن میں 33 لاکھ سے زیادہ وہ بچے بھی شامل ہیں جن تک 2018 کے بعد سے رسائی نہیں ہوسکی تھی۔لیکن اس بار انہیں بھی پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جاسکیں گے۔
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ طالبان تو اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن عالمی برداری اُ ن کی جانب دستِ تعاون دراز کرنے میں کوئی خاص لچک کا مظاہر ہ نہیں کررہی ۔کتنی بدقسمتی کی با ت ہے کہ ہرات میں بچیوں کے اسکول کھولنے اورملک گیر پولیو مہم کا آغاز کرنے کے بعد بھی رواں ہفتے سربراہ عالمی بینک نے افغانستان کی روکی گئی امداد بحال کرنے کا امکان رد کردیا ہے۔ورلڈ بینک چیف ڈیوڈ مالپاس کا کہنا تھا کہ ’’افغانستان کی تباہ حال معیشت میں وہ کام کرنے کا تصور نہیں کر سکتے ،اس لیئے ہماری جانب سے طالبان کو افغانستان کے9 ارب ڈالر کے ذخائر کی رسائی بھی روک دی گئی ہے‘‘ ۔ واضح رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے قریب آتے ہی افغانستان کے اثاثے منجمد کردیے گئے تھے ،جس کی وجہ سے افغان معیشت میں مسلسل واضح ابتری آنا شروع ہوگئی تھی ہے۔ صرف رواں برس مارچ کے مہینے میں افغانستان میں افراط زر، یا قیمتوں میں اضافے کی شرح 4.4 فیصد تھی جو اپریل 2021ء میں اچانک بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔نیز پاکستان کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے ہونے والی سرحدوں کی بندش سے ملک بھر میں اشیا ضروریہ کی قلت کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں اضافہ کا بڑھتا رجحان بھی خطرنا ک حد تک بڑھا ہے۔ذہن نشین رہے کہ افغانستان میں بنیادی ضرویات کی اشیا زیادہ تر درآمد کی جاتی ہیں اس وجہ سے رواں سہ ماہی افغانستان کے مالیاتی کھاتوں میں خسارہ جی ڈی پی کا 24.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور برآمدات 2 فیصد اور درآمدات 5 فیصد تک کم ہوگئی ہیں۔
دراصل 3 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی کے ملک افغانستان کی نصف آبادی 15 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ وہ لوگ جو خطِ غربت سے اوپر کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں بھی بنیادی شہری سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ 2050ء تک ملک کی آبادی دگنی ہوجائے گی۔اس لیے عالمی برادری کو افغانستان کی معیشت اس قدر ضرور بہتر بنانا ہوگی تاکہ یہ ملک بھی دنیا کو اپنی خدمات اور مصنوعات برآمد کرسکے نہ کہ دہشت گردی، منشیات اور غیر قانونی اشیا فروخت کرنے والا ملک ہی بنا رہے۔ یاد رہے کہ افغان سرزمین قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ قدرتی وسائل جنوبی ایشائی بیلٹ اور وسطی ایشیائی ملکوں اور افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں سے امیر ملکوں کو ایندھن کی فراہمی کی پائپ لائن تو بن جاتی ہے مگر غریب ملکوں کو وسائل فراہم کرنے کے منصوبے جیسا کہ کاسا 1000 اور ٹاپی گیس پائپ لائن سالوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ امیر ملکوں کی مداخلت کے علاوہ بھارت کی رخنہ اندازی بھی شامل ہے۔
عالمی برادری کی اسی بے ا عتناعی پر افغانستان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللّٰہ مجاہد نے دنیا کو خبردار کرے ہوئے کہا ہے کہ’’ افغانستان سے لاحق خطرات سے بچنے کے لیے عالمی برادری کو طالبان کو جلد ازجلد تسلیم کرنا ہو گا۔وگرنہ ہم امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی خطرے سے بچاؤکی ذمے داری نہیں لے سکیں گے، ہم نے امریکا سے جنگ کی کیونکہ انہوں نے ہمیں تسلیم نہیں کیا تھا۔اگر اَب ہماری حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا تو افغانستان، خطے اور دنیا کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے، طالبان کو تسلیم کرنا دو طرفہ ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔یاد رہے کہ ہم بحسن و خوبی طالبان حکومت تسلیم کرنے کے عوض عالمی برادری کی تمام شرائط پوری کر چکے ہیں،اب تمام ممالک افغانستان میں اپنے سفارتی مشن کو فعال کریں‘‘۔ اس جارحانہ بیان کے سیاق سباق سے لگتا یہ ہے کہ مغربی و یورپی ممالک کے رویے سے طالبان قیادت بُری طرح سے تنگ آچکی ہے اور اَب چاہتی ہے کہ اُسے صاف صاف بتا دیا جائے کہ عالمی برادری اُن کی حکومت کو تسلیم کر کے اُن کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں ۔
غالب گمان یہ ہے کہ افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی وفد کے ہمراہ ہونے والا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی تھا اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی دورۂ پاکستان کے دوران معاشی صورتِ حال، ٹرانزٹ اور پڑوسی ممالک سے نقل و حمل میں آسانی پر تفصیلی گفت و شنید کرنے ہی آئے تھے۔واضح رہے کہ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی پاکستان کی خصوصی دعوت پر آئے تھے۔پاکستان نے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کو اسلام آباد میں شیڈول ٹرائیکا پلس اجلاس میں شرکت کی خصوصی دعوت دے تھی۔ اجلاس 11نومبر کو ہوا۔جس میں پاکستان، روس، چین اور امریکا سے افغانستان کے خصوصی نمائندگان شریک ہوئے۔
افغانستان کے معاملے پر ہونے والے دی ٹرائیکا پلس اجلاس میں طالبان حکومت کی جانب سے اختیار کیے گئے اعتدال پسندانہ رویے اور مبنی بر انصاف دانش مندار پالیسیوں کے نفاظ کی خوب ستائش کی گئی اور تمام فریقین نے طالبان حکومت کو استحکام فراہم کرنے کے لیے مل جل کر عملی اقدامات پر کرنے پر کامل اتفاق کا بھی اظہار کیا گیا۔ نیز اجلاس میں طالبان وفد سے افغانستان میں انسانی حقو ق کے معاملے پر مزید آگے کی جانب پیش قدمی کرنے کا کہا گیا۔ ٹرائیکا پلس اجلاس کا جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ سے یہ اُمید لگائی جاسکتی ہے کہ بہت جلد خطے کے بڑے ممالک افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا باضابطہ سرکاری اعلان فرمادیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭