... loading ...
کانگریسی لیڈر سلمان خورشیدآج کل ہندتوا بریگیڈکے نشانے پرہیں۔قصور یہ ہے کہ انھوں نے ایودھیا تنازعہ پر اپنی تازہ ترین کتاب میں جارحانہ ہندتوا کا موازنہ ’ بوکوحرام‘ اور ’ داعش‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے کیا ہے۔ان کی انگریزی تصنیفSunrise over Ayodhya(ایودھیا میں طلوع آفتاب)کا اجراء حال ہی میں سابق وزیرداخلہ پی چدمبرم کے ہاتھوں نئی دہلی میںعمل میں آیا ہے۔ کتاب ابھی پوری طرح بازار میں بھی نہیں آئی تھی کہ اس پر ہنگامہ شروع ہوگیا۔ عام طور پر سیاست داں جو کتابیں لکھتے ہیں، ان پر ایک تنازعہ تو وہ ہوتا ہے جو مصنف یا ناشر کی طرف سے جان بوجھ کر کتاب کی اچھی فروخت کے لیے پیدا کیا جاتا ہے، لیکن یہ تنازعہ اس قسم کا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے ایک ضمنی حصہ پر آسمان سرپہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اچانک اس کتاب کی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ظاہرہے اس کا مالی فائدہ مصنف اور ناشر دونوں کو پہنچے گا، مگر عین ممکن ہے کہ اس کا سیاسی نقصان سلمان خورشید اوران کی پارٹی کو پہنچانے کی کوشش کی جائے اور انھیں ہندومخالف قرار دے دیا جائے۔ اس کا سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے، کیونکہ بی جے پی نے اس کتاب کے حوالے سے سلمان خورشید کے ساتھ ساتھ سونیا گاندھی ، راہل اور پرینکا گاندھی کو بھی نشانے پر لے لیاہے۔بی جے پی ترجمان گورو بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ ’’یہ صرف سلمان خورشید کی لائن نہیں ہے بلکہ ا?ج یہی کانگریس کی ’ وچاردھارا‘ہے۔ سونیا اور راہل کے اشارے پر ایسا بار بار ہوتا ہے۔‘‘یہ الگ بات ہے کہ سلمان خورشید نے کانگریس پارٹی کے ’ نرم ہندتو‘ کو بھی اپنی کتاب میںنشانے پر لیا ہے۔
سلمان خورشید کی کتاب منظرعام پر آنے کے بعد سب سے زیادہ بے چینی ان حلقوں میں پھیلی ہے جو ہندتوا کو ہی اس ملک کی نجات کا راستہ تصور کرتے ہیں۔یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہندتو اکا نظریہ پہلے پہل آرایس ایس کے بانی گولوالکر نے تخلیق کیا تھا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک کے اصل اور وفادار باشندے وہی ہیں جن کے آباء واجداد کی جنم بھومی ہندوستان ہے اور وہ اس مذہب کے پیروکار ہوںجس کا جنم ہندوستان کی سرزمین پرہوا۔یعنی گولوالکر کی نگاہ میں ہندو مذہب کے ماننے والے ہی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں۔وہ لوگ جو اسلام اور عیسائیت کے پیروکار ہیں، ان کی وطن کے ساتھ وفاداری مشکوک ہے۔سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں ہندتو کے اسی فلسفہ پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے ہندتوا کے حوالے سے اپنی کتاب میں اس نکتہ پر زور دیا ہیکہ ’’ سادھو سنت جس سناتن دھرم اور کلاسیکی ہندتو اکے پیروکار ہیں، اسے درکنار کرکے ہندتوا کے ایک ایسے ورڑن کو فروغ دیا جارہا ہے، جو داعش اور بوکوحرام جیسی دہشت گرد تنظیموں کے مماثل ہے اور اس کا استعمال سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔‘‘حالانکہ انھوں نے اپنی کتاب میں ہندتوا کے ساتھ ساتھ مسلم انتہاپسندوں کو بھی نشانہ بنایا ہے ، لیکن اس کا ردعمل صرف ان حلقوں میں ہوا ہے ، جو جارحانہ ہندتواکے علمبردار ہیں اور جنھوں نے اس ملک میں اقلیتوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔اسی بریگیڈ کا حصہ سمجھے جانے والے سپریم کورٹ کے دووکیلوں نے سلمان خورشید کے خلاف براہ راست دہلی کے پولیس کمشنر کو تحریری شکایت دی ہے اوران کے خلاف قانونی کارروائی کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو بتادیں کہ سلمان خورشید کانگریس کے سینئر لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے نامور وکیل ہیں۔وہ مرحوم صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے نواسے اور سابق گورنر مرحوم خورشیدعالم خاں کے فرزند ہیں۔ انھوں نے برطانیا کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اوران کا شمار ملک کے دس بڑے وکیلوں میں ہوتا ہے۔وہ کئی بار یوپی کے فرخ آباد پارلیمانی حلقہ سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے ہیںاور کانگریس کے دور حکومت میں وزارت خارجہ اور اقلیتی امور کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ایودھیا تنازعہ سے ان کا تعلق یہ ہے کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں کئی بار اس مسئلہ پر مسلم فریق کی پیروی کی ہے۔ بابری مسجد بازیابی تحریک کے لیڈر سید شہاب الدین نے جوخود بھی سپریم کورٹ کے وکیل تھے، اس معاملے میں سلمان خورشید سے استفادہ کیا ہے۔ اس اعتبار سے ایودھیا تنازعہ پر ان کی یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے، جو قدرے تاخیر سے منظرعام پر ا?ئی ہے۔اس کتاب میں بابری مسجد ، رام جنم بھومی تنازعہ اور اس کے اثرات کاغیرجانبداری کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔انھوں نے اس کتاب میں ایودھیا تنازعہ کی قانونی لڑائی اور اس معاملے میں الہ ا?باد ہائی کورٹ وسپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی احاطہ کیا ہے۔
سلمان خورشید نے لکھا ہے کہ’’ ایودھیا تنازعہ دراصل دوسرے فرقہ کے عقیدے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا۔ وہ سناتن دھرم اور اور کلاسیکل ہندتو اجوکہ سنتوں اور بابائوں کی تپسیا سے عبارت ہے ، اسے ہندتو کے ایک طاقتور ورڑن نے درکنار کردیا ہے اور ہندتو کے اس طاقتور ورڑن کو سیاسی مقاصدکے لیے اسی طرح استعمال کیا گیا ہے، جیسا کہ جہادی اسلامی گروپوں اور بوکوحرام نے کیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں ہندتوا کے سوال پر خود اپنی پارٹی کے ان لیڈروں پر بھی تنقید کی ہے، جنھوں نے سیکولرازم سے انحراف کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ’’ ہماری پارٹی میں بھی ایک ایسا طبقہ ابھررہا ہے جو اس بات پر معذرت خواہانہ انداز اختیارکرتا ہے کہ پارٹی کی شبیہ اقلیت حامی بن گئی ہے۔‘‘ انھوں نے لکھا ہے کہ’’ یہی طبقہ پارٹی قیادت کو ’ جینودھاری‘ بننے کا مشورہ دیتا ہے اور اسی طبقہ نے ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہاں عظیم الشان مندر کی تعمیرکی حمایت کی تھی اور راہل گاندھی کو’ جینو دھاری ہندو‘ کہا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے سلمان خورشید کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’ہم سیاسی نظریہ کے طورپر ہندتوا سے اختلاف تو کرسکتے ہیں ، لیکن ہندتوا کا موازنہ داعش سے کرنا سراسر غلط اور مبالغہ آمیز ہے۔‘‘
جہاں تک ہندتوا کا موازنہ بوکوحرام یا داعش سے کرنے کا تعلق ہے تو اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ ایودھیا تنازعہ کی آڑمیں ہندتوا حامی طاقتوں نے ملک میں خوف ودہشت کا جوماحول پیدا کیا ہے ، وہ اس ماحول سے مختلف نہیں ہے جو داعش اور بوکوحرام نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے عالم عرب اور نائیجریا میں پیداکیا ہے۔ اگر آپ صرف بابری مسجد انہدام کو ہی لیں تو کس طرح عددی طاقت کے بل پر پانچ سو سالہ قدیم عبادت گاہ کو وحشت اور بربریت کے ساتھ زمیں بوس کیا گیا۔ اس کے بعد پورے ملک میںفرقہ وارانہ فسادات کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ، اس کی زد میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کی جانیں گئیںاور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے دن کے اجالے میں بابری مسجد کومنہدم کیا تھا اور جن کے خلاف ٹھوس ثبوت اور شہادتیں موجود تھیں، انھیں ’ باعزت ‘ بری کردیا گیا۔بابری مسجد انہدام اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کے کسی ایک بھی قصوروار کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی۔ یہاں تک کہ 1992-93میںبمبئی میں ہونے والی خوفناک قتل وغارتگری کے کسی ایک مجرم کو بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔حالانکہ ان فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں مجرموں کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا۔سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس سرکار جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنا چاہتی تھی، مگر اس وقت یہ کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کردیا گیاکہ کچھ زخم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی بھر جاتے ہیں۔
جہاں تک ملک میں ہندتوا بریگیڈ کی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو پورا ملک اس بات واقف ہے کہ کس طرح اس ملک میں اقلیتوں کا جینا حرام کردیا گیاہے۔جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کی لنچنگ کے واقعات مسلسل ہور ہے ہیں۔ انھیں کبھی ’ لوجہاد‘ کبھی ’ لینڈ جہاد‘ اور کبھی جبری تبدیلی مذہب کے نام پر مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقلیتوں میں خوف ودہشت کا ماحول ہے اور جو لوگ اس کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں، انھیں دہشت گردی مخالف قانون سے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔سلمان خورشید ان کوششوں کا تازہ شکار ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔