وجود

... loading ...

وجود

نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا؟

جمعرات 11 نومبر 2021 نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار  بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا؟

47 سال قبل نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا،کیا11 نومبر کی تاریک رات میں سینئروکیل احمد رضاخان قصوری کے والد کے قتل کی اس واردات کے اصل محرکات پر کبھی روشنی پڑے گی؟یہ سوال آج بھی جواب کا منتظر ہے ،برطانوی نشریاتی ادارے نے اس بارے میں ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے ،رپورٹ کے مطابق آج سے ٹھیک 47 برس قبل، یعنی 10 اور 11 نومبر 1974 کی درمیانی شب، ایک مارک ٹو کار لاہور کے علاقے شادمان کالونی میں ایک گھر کے باہر بنی پارکنگ سے سڑک پر نمودار ہوئی۔اس گاڑی میں چار لوگ سوار تھے جو شادمان کالونی سے ماڈل ٹائون میں واقع اپنے گھر کی جانب طرف جا رہے تھے۔ رات کے تقریبا ساڑھے بارہ بجے کا وقت ہو چکا ہے اور ہر طرف ہو کا عالم اور اندھیرا تھا۔

نوجوان احمد رضا قصوری ( احمد رضا قصوری سابق صدر پرویز مشرف کے سنگین غداری کیس میں وکیل رہے)اس کار کو ڈرائیو کر رہے تھے جبکہ ان کی برابر کی نشست پر ان کے والد یعنی نواب محمد احمد خان قصوری بیٹھے تھے۔ عقبی نشستوں پر احمد خان قصوری کی اہلیہ اور سالی موجود تھیں۔یہ سب لوگ شادمان کالونی میں تحریک استقلال گجرات کے ضلعی صدر بشیر حسین شاہ کی شادی کی تقریب میں شرکت سے واپس لوٹ رہے تھے،نواب محمد احمد خان کے لیے یہ تقریب اس لحاظ سے بھی خاص رہی کیونکہ اس میں قوالی کا اہتمام بھی تھا۔ نواب احمد خان اگرچہ مغربی طرز زندگی کے دلدادہ تھے لیکن آج انھوں نے قربان حسین قوال سے بلھے شاہ کا کلام ‘میرا پیا گھر آیا’ دومرتبہ فرمائش کر کے سنی۔جیسے ہی گاڑی شادمان کالونی سے کچھ فاصلے پر واقع شاہ جمال کے راونڈ آباوٹ (گول چکر) پر پہنچتی ہے تو اس پر تین اطراف سے مسلح حملہ آور گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔کار میں سوار تمام افراد اس اچانک حملے اور گولیوں کی گھن گرچ سے سٹپٹا جاتے ہیں، کئی گولیاں گاڑی کو آ کر لگتی ہیں۔ احمد رضا قصوری گاڑی روکنے کی بجائے سر نیچے کر کے اسے چلاتے رہتا ہے تاکہ اس میں سوار تمام افراد کو اس جگہ سے دور لے جائیں۔ حملہ آور چلتی گاڑی پر پیچھے سے گولیاں برساتے رہے، لیکن گاڑی آگے بڑھ گئی۔اسی اثنا ء میں ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے محمد احمد خان قصوری گاڑی چلانے والے اپنے جوان بیٹے کے کندھے پر آن گرتے ہیں۔ بیٹے کا ہاتھ اچانک باپ کے جسم پر پڑتا ہے اور خون سے لال ہو جاتا ہے۔باپ کے خون سے آلود ہاتھ دیکھ کر بیٹا غم سے چلانا شروع کر دیتا ہے۔ محمد احمد خان کے سر میں گولیاں لگ چکی تھیں اور وہ اپنے ہی خون میں لت پت ہو چکے تھے۔عقبی نشست پر بیٹھی پریشان حال ماں بیٹے کو تنبیہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے حواس پر قابو رکھے اور گاڑی فورا گلبرگ میں واقع یونائیٹڈ کرسچیئن ہسپتال لے چلے۔ڈرائیور کار دوڑاتا ہوا مسلسل گاڑی کے شیشے سے پیچھے دیکھتا رہا کہ حملہ آور ان کا تعاقب تو نہیں کر رہے۔ ایف سی کالج کا پل عبور کر کے گاڑی گلبرگ میں واقع اس ہسپتال میں پہنچ جاتی ہے جس کے متعلق ماں نے تاکید کی تھی۔ہسپتال پہنچ کر نوجوان احمد رضا قصوری سب سے پہلا فون اپنے بڑے بھائی کو اس واقعہ کی اطلاع دینے کے لیے کرتے ہیں، دوسرا فون ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر کو اور تیسرا فون اس وقت کے ایس ایس پی لاہور اصغر خان کو۔اس وقت تقریبا رات کے پونے ایک بج چکے تھے،تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آ جاتے ہیں اور آپریشن شروع ہو جاتا ہے اور اسی دوران تین، چار سو پولیس اہلکاروں کی ٹرکوں میں سوار نفری بھی ہسپتال پہنچ جاتی ہے۔ ایس ایس پی لاہور، ڈی آئی جی لاہور سردار محمد عبدالوکیل خان اور ڈپٹی کمشنر لاہور بھی اطلاع ملنے پر فوری ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ایک طرف آپریشن چل رہا ہے اور دوسری طرف پولیس اہلکار احمد رضا خان کے پاس جاتے ہیں تاکہ ابتدائی معلومات لے کر قانونی کارروائی شروع کی جا سکے۔اس وقت کے ایس ایچ او تھانہ اچھرہ عبد الحئی نیازی نے ایف آئی آر کے لیے درخواست لکھنا شروع کی۔ ابتدائی معلومات کے اندارج کے بعد جب بات آپ کو کسی پر شک ہے کی ہوئی تو احمد رضا قصوری نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا۔انھوں نے ایس ایچ او سے کہا کہ دراصل یہ ذوالفقار علی بھٹو نے کروایا ہے جو انھیں مروانا چاہتے ہیں تاہم والد صاحب حادثاتی طور پر فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے،وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام سن کر ایس ایچ او کے ہاتھ سے پینسل نیچے گر گئی اور وہ چونک کر کہنے لگا کہ ایف آئی آر وزیر اعظم پر درج کروانی ہے آپ نے؟ جواب ملا: جی ہاں۔احمد رضا قصوری بولے کیونکہ وہ(بھٹو)مجھ پر پہلے بھی کئی حملے کروا چکے ہیں۔ جب ذمہ دار وہی ہیں تو پھر پرچہ بھی انہی کے خلاف کٹے گا۔ بی بی سی کے مطابق احمد رضا قصوری نے اس رات پیش آنے والے واقعات کو یاد کرتے ہوئے اس رپورٹ کے مصنف شاہد اسلم کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا کچھ لمحے بعد میں نے دوبارہ عبارت لکھوانا چاہی، تو وہ (ایس ایچ او) باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایس ایس پی اور ڈی آئی جی دونوں آ گئے، کہنے لگے کے آپ اپنے ارد گرد دیکھیں جس نے نواب صاحب پر حملہ کیا ہو، آپ سیدھا وزیر اعظم کا نام لے رہے ہیں۔’انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑا چکے ہیں لیکن کوئی نہیں ملا جو یہ حملہ کروا سکتا ہو، اس لیے ایف آئی آر کا متن وہی ہو گا جو وہ بتائیں گے اور اگر پولیس نے ایسا کرنے میں لیت و لال سے کام لیا تو وہ کل صبح ہائی کورٹ کی مدد لیں گے۔احمد رضا قصوری کے ایک ماموں، جو کہ فوج میں بریگیڈیئر تھے، بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے، پولیس والوں نے انھیں بھی بھیجا تاکہ وہ قصوری صاحب کو سمجھائیں لیکن وہ بضد رہے کہ ان کے والد پر حملہ بھٹو نے ہی کروایا ہے۔تقریبا صبح کے تین بج چکے تھے اور ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ ڈاکٹر نے آ کر احمد رضا خان کو بتایا کہ ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔وہ بتاتے ہیں کہ میں یہ سن کر پھٹ پڑا اور آپے سے باہر ہو گیا۔ پاس ہی ڈنڈا پڑا ہوا تھا میں نے اٹھایا اور ایس ایس پی کو جو کہ یونیفارم میں تھا اس کی پیٹھ پر تین، چار مار د ئیے۔ اس کے بعد ڈی آئی جی کو بھی بھاگتے ہوئے پیچھے سے ایک لات مار دی، وہ بھی گرتا ہوا پولیس اہلکاروں کے پیچھے جا چھپا۔دوبارہ بات چیت کے بعد بالآخر پولیس نے کہہ دیا کہ وہ درخواست لکھ کر دے دیں تاکہ وہ ایف آئی آر درج کریں۔ تقریبا رات تین بج کر 20 منٹ پر احمد رضا قصوری نے اپنے ایک ہمسائے کی مدد سے درخواست تحریر کی اور خود پر ہوئے ماضی کے حملوں کا ذکر بھی کیا اور اپنے والد کے قتل کا الزام وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر لگایا۔پھر بالآخر اسی سال فروری میں ذوالفقار علی بھٹو کو انہی کی پارٹی کے ایک ایم این اے کے والد کے قتل کی سازش کے الزام میں ایک مقدمہ میں نامزد کر دیا گیا ۔محمد احمد خان کا پوسٹ مارٹم ڈپٹی سرجن میڈیکو لیگل لاہور ڈاکٹر صابر علی نے کیا۔اگلی صبح یعنی 11 نومبر کو پولیس نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور گولیوں کے 24 خالی خول اکھٹے کیے، اور گول چکر پر واقع ایک گھر کی دیوار پر بھی گولیوں کے نشان ملے۔ کار کے معائنے سے بھی پتہ چلا کہ اس کی ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے بھی کچھ گولیاں پھنسی ہوئیں تھیں جن سے احمد رضا خان بھی بال بال بچے تھے۔حملہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کا پتہ لگوانے کے لیے گولیوں کے خالی ہول اس وقت کے ڈائریکٹر فرانزک سائنس لیبارٹری لاہور نادر حسین عابدی کے حوالے کے گئے جنھوں نے تجزیے کے لیے وہ آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی بھجوا دئیے،جنرل ہیڈ کوارٹرز نے تجزے کے بعد بتایا کہ وہ خول سات ایم ایم کے ہیں جو چائنہ کے بنے ہیں، جنھیں ایل ایم جی اور ایس ایم جی رائفلز سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر تحقیقات کی نگرانی ڈی ایس پی عبدالاحد کے سپرد کی گئیں لیکن چونکہ وہ سنہ 1975 میں فوت ہو گئے تب سپیشل برانچ کے ملک محمد وارث کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جج شفیع الرحمن پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ پنجاب حکومت کو 26 فروری 1975 کو جمع کروا دی لیکن وہ رپورٹ عام نہ کی جا سکی۔اکتوبر 1975 میں تحقیقاتی افسر ملک محمد وارث کی سفارشات پر کیس یہ کہہ کر داخل دفتر کر دیا گیا کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔جیسے ہی پانچ جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا تب سے اس کیس پر تنازعات کی وہ گرد پڑنی شروع ہوئی جو آج تک چھٹنے کا نام نہیں لے رہی اور وہ تنازعات ملک کی سیاسی، قانونی اور عدالتی تاریخ کا آج بھی ایک آسیب کی طرح پیچھا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔11 نومبر کی تاریک رات کو ہونے والی قتل کی اس واردات کے اصل محرکات پر کبھی روشنی پڑے گی، یہ سوال آج بھی جواب کا منتظر ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد وفاقی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پیرا ملٹری فورس یعنی فیڈرل سکیورٹی فورس کے ہاتھوں مبینہ سیاسی قتل اور اغوا جیسے سنگین معاملات کی تفتیش ایف آئی اے کے حوالے کی۔مارچ 1975 میں تحریک استقلال پارٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان پر لاہور ریلوے سٹیشن پر ہونے والے بم حملے کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبد الخالق کو شک ہوا کہ فیڈرل سکیورٹی فورس ہی نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث ہو سکتی ہے اور اسی شک کی بنیاد پر 24 اور 25 جولائی 1977 کو یعنی مارشل لا کے ٹھیک 20 دن بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کے سب انسپکٹر ارشد اقبال اوراسسٹنٹ سب انسپکٹر رانا افتخار احمد سے اس کیس کے متعلق تفتیش ہوتی ہے اور دونوں کو اس کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔26 جولائی 1977 کو مجسٹریٹ ذوالفقار علی طور کے سامنے یہ دونوں اہلکار اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں جس کے بعد ڈائریکٹر آپریشنز و انٹیلیجنس میاں محمد عباس اور انسپکٹر غلام مصطفی کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے اور سب مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ انسپکٹر غلام حسین بھی ملزمان میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔مسعود محمود جنھیں مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا وہ بھی قید کے دو ماہ بعد بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس کیس میں تین ستمبر کو گرفتار کر لیا گیا۔بھٹو کی گرفتاری کے دس روز بعد جسٹس کے ایم اے صمدانی نے بھٹو کو ضمانت پر رہا کر دیا جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر جسٹس صمدانی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا اور تین دن بعد بھٹو کو دوبارہ اسی کیس میں مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔اسی دوران ہائی کورٹ میں نئے ججز تعینات ہوئے اور مولوی مشتاق حسین کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا، جن کا تعلق جنرل ضیا الحق کے آبائی شہر جالندھر سے تھا۔مولوی مشتاق سنہ 1965 میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے تو ان کے سیکریٹری خارجہ کے طور پر ذمہ داری نبھا رہے تھے۔11 ستمبر 1977 کو کیس کا نامکمل چالان مجسٹریٹ کی عدالت میں جمع کروایا جاتا ہے اور13 ستمبر کو سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی درخواست پر کیس لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے لیے منتقل کر دیا گیا۔کیس کا حتمی چالان 18 ستمبر کو ہائی کورٹ میں داخل کروا دیا جاتا ہے جس کے بعد کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوتا ہے جس میں استغاثہ نے 41 گواہان کو پیش کیا۔ یہ ملک کی عدالتی تاریخ کا غالبا واحد کیس ہے جس میں ہائی کورٹ ٹرائل کورٹ بن گئی۔دوران ٹرائل میاں محمد عباس اپنے اعترافی بیان سے یہ کہتے ہوئے مکر گئے کہ ان کا پہلا بیان مجسٹریٹ کے سامنے دباو کے تحت لیا گیا تھا۔انھوں نے بیان دیا کہ اسے ایسی کسی سازش کا علم نہیں اور نہ ہی انھوں نے وعدہ معاف گواہ غلام حسین یا فیڈرل سکیورٹی فورس کے کسی بھی اہلکار کو اس مقصد کے لیے کوئی اسلحہ مہیا کرنے کی ہدایات دیں تھیں۔غلام مصطفی، ارشد اقبال اور رانا افتخار احمد اپنے اعتراف جرم پر قائم رہے کہ انھوں نے اس رات حملہ اپنے سینیئرز غلام حسین اور میاں محمد عباس کے کہنے پر کیا تھا جس سے احمد رضا خان کے والد کی موت ہوئی تھی۔دو مارچ 1978 کو ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے اور 18 مارچ کو کیس کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے جس میں ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شواہد کی موجودگی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سکیورٹی فورس مسعود محمود کے ساتھ مل کر احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی اور فیڈرل سکیورٹی فورس کے حملے کے نتیجے میں ہی ان کے والد محمد احمد خان قصوری مارے گئے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کو اس کیس میں موت کی سزا سنائی گئی۔ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ملزمان نے سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کیا جہاں پر نو ججز تھے۔ ایک جج جولائی 1978 میں ریٹائر ہو گئے جبکہ ایک بیماری کی وجہ سے رخصت پر بھیج دیے گئے۔ باقی سات ججز نے فروری 1979 کو اپیل پر فیصلہ سنا دیا۔ سات میں سے چار ججز نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جبکہ تین نے ذوالفقار علی بھٹو کو الزامات سے بری کر دیا۔سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق احمد رضا قصوری نے بتایا کہ جب پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا ء لگا تو انھوں نے ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی کہ اس کیس میں چونکہ طاقتور لوگ ملوث ہیں اس لیے سیشن جج شاید صحیح ٹرائل نہ کر پائے اس لیے ہائی کورٹ بحیثیت ٹرائل کورٹ اس کیس کا ٹرائل خود کرے۔انھوں نے کہا کہ ان کی درخواست پر عدالت نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل راشد عزیز خان، جو بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج بھی بنے، کو طلب کیا وہ پیش ہوئے اور دو ہفتے کا وقت مانگا کہ ‘میں حکومت سے پوچھ کر بتاتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔’دو ہفتے بعد انھوں نے ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کو بتایا کہ حکومت اس کیس کا چالان لے کر آ رہی ہے اور اس کیس کو شروع کیا جا رہا ہے۔احمد رضا قصوری کے مطابق پرائیویٹ پارٹی کے لیے اتنا بڑا کیس چلانا مشکل تھا اس لیے انھوں نے اپنے وکیل سے کہہ کر اس کیس کو حکومت کے چالان کے ساتھ نتھی کروا دیا۔وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اس کیس کو دوبارہ کھولنے اور پیروی کرنے کے لیے انھیں اس وقت کی فوجی قیادت نے کہا تھا۔ تاہم وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ مارشل لا لگنے کے بعد یہ کیس دوبارہ کھلا تو اس وقت کی مارشل لا حکومت اس کیس میں فریق بن گئی تھی۔مارشل لا کے نفاذ تک کیس کی سست روی کے متعلق انھوں نے کہا کہ بھٹو اس وقت ایک طاقتور وزیر اعظم تھے اور ان کے ہوتے ہوئے تفتیش کہاں ہونی تھی، اس لیے جو نہی وہ منظر سے ہٹے، میں نے بھی اپنی کوششیں تیز کر دیں۔کیا ذوالفقار علی بھٹو نے معاملات سلجھانے کی کوشش کی، اس کے جواب میں احمد رضا قصوری بتاتے ہیں کہ انھوں نے سنہ 1976 میں اپنی اہلیہ نصرت بھٹو کو ان کے گھر بھیجا تھا۔ میں نے انھیں بڑی عزت دی تھی اور کہا تھا کہ وہ میری بہنوں کی طرح ہیں اور یقین دلایا تھا کہ وہ ماضی کے معاملات کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔ تاہم انھوں نے کیس واپس نہیں لیا۔انھوں نے مزید بتایا کہ سات جنوری 1977 کو جس روز نئے الیکشن کروانے کے لیے بھٹو نے اسمبلی توڑی تھی تو اس وقت انھوں نے ایف آئی آر واپس لینے کے لیے آخری بار انھیں کہا تھا۔بھٹو نے کاغذ پر لکھی تحریر مجھے دی اور کہا کہ سائن کر دو۔ اس پر لکھا تھا کہ میں نے اپنے والد کے قتل کے الزام میں بھٹو کا نام سیاسی مخالفین کے کہنے پر ڈلوایا تھا اور اب چونکہ حقیقت کھل چکی ہے اس لیے میں اسے واپس لیتا ہوں۔میں نے کہا کہ سر میں اس بیان پر دستخط کر دیتا ہوں لیکن جب یہ خبر چھپے گی تو اس سے میرا امیج بری طرح متاثر ہوگا۔ برادری والے بھی سوالات کریں گے کہ تم نے کیا ذلالت کی۔ عوام کی فکر نہیں کہ کیا کہیں گے لیکن اپنی برادری کی فکر ہے کہ انھیں کیا جواب دوں گا، اس لیے میں نے انکار کر دیا تھا۔احمد رضا قصوری کے مطابق بھٹو اپنی انا میں مارے گئے۔ انھوں نے سوچا ہو گا کہ اگر وہ احمد رضا قصوری کے گھر گئے اور معافی مانگی تو اس سے ان کی شان کم ہو جائے گی۔ بھٹو اگر گھر آ جاتا اور بات کرتا تو معاملہ اور ہو سکتا تھا، کیونکہ حادثات ہوتے بھی ہیں لیکن بات چیت بھی ہوتی ہے لیکن بھٹو کبھی بھی اس غرض سے میرے پاس نہیں آئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے والد کے قتل کو اس بات سے جوڑنا کہ جس جگہ بھگت سنگھ کو پھانسی لگائی گئی تھی وہیں ان کا قتل اس لیے کیا گیا چونکہ انھوں نے اس کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کیے تھے ایک لغو اور فضول بات ہے کیونکہ ان کے والد کے پاس قتل کا کیس کیوں آتا کیونکہ وہ تو محض ایک اعزازی مجسٹریٹ تھے اور وہ بھی قصور میں۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماء اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن چوہدری منظور کہتے ہیں کہ 11 نومبر ایک بدقسمت حادثہ ہوا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا پاکستان کی عدالتی تاریخ کا یہ پہلا کیس تھا جس کا ٹرائل ہائی کورٹ میں ہوا جہاں باقاعدہ وٹنس باکس بنائے گئے تھے۔انھوں نے کہا کہ قتل کے کیسوں کا ٹرائل ہمیشہ سیشن کورٹ میں ہوتا ہے لیکن اس کیس کا ٹرائل ہائی کورٹ میں ہوا جہاں بھٹو صاحب کی اپیل آنا تھی لیکن وہ اپیل کا مرحلہ ہی کھا گئے۔چوہدری منظور نے دعوی کیا کہ جج مولوی مشتاق نے بعد میں یہ بیان دیا تھا کہ یہ فیصلہ انھوں نے غصے میں دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور اس بینچ کے ممبر نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب اور ٹی وی انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہم (ہائی کورٹ) نے یہ فیصلہ دبا ومیں دیا تھا۔سپریم کورٹ میں فیصلے کی اپیل کے متعلق انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت نو ججز تھے، ایک ریٹائر ہو گئے، ایک کو بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹی پر بھیج دیا گیااور یہ سپریم کورٹ کے تین کے مقابلے میں چار ججز کا فیصلہ تھا۔چار ججز نے سزائے موت کو برقرار رکھا جبکہ تین ججز نے بھٹو صاحب کو بری کر دیا تھا اس طرح کے منقسم فیصلے میں سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔چوہدری منظور کے مطابق احمد رضا خان اور بھٹو صاحب کے درمیان صلح ہو چکی تھی مگر دوبارہ جھگڑا تب ہوا جب سنہ 1977 میں انھیں ٹکٹ نہیں ملا۔ احمد رضا خان کی خاندانی لڑائیاں بہت تھیں، جھگڑے تھے اور ہو سکتا ہے ان پر وہ حملہ ان کے کسی مخالف نے ہی کروایا ہو۔چوہدری منظور نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 109 کے تحت آج تک کسی بندے کو سزائے موت کی سزا نہیں دی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بنانا پڑا اور وعدہ معاف گواہ جیسے کیسوں میں قانونی طور پر ایسی سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب مزاج کے سخت ضرور تھے اور اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے بھی تھے لیکن بندے مارنے یا مروانے جیسی بات کا حقیقت سے تعلق نہیں، اگر بھٹو صاحب اس طرح کے سیاستدان ہوتے تھے تو ان پر کتنے ایسے کیسز ان کے آبائی علاقے میں بھی درج ہوتے لیکن ایسا نہیں تھا۔چوہدری منظور نے کہا کہ اس کیس کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور سپریم کورٹ میں پڑے ہوئے صدارتی ریفرنس پہ فیصلہ آنا چاہیے تاکہ اس کیس پر پڑی تنازعات کی دھول چھٹ سکے۔دیکھیں بھٹو صاحب نے تو واپس آنا نہیں، لیکن حقائق کی درستگی کے لیے اس ریفرنس پر فیصلہ آنا چاہیے تاکہ بھٹو صاحب کے دامن پہ لگا یہ الزام دھل سکے۔حافظ نور محمد قصوری، جو کہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں ان کے مشیر بھی رہے، کہتے ہیں کہ قتل سے چند روز قبل وہ اور سردار احمد رضا خان شیزان میں بیٹھے ہوئے تھے اور انھوں نے مجھے ایک کارڈ دکھایا کہ بھٹو صاحب نے عید کارڈ بھجوایا ہے، جس پر بھٹو صاحب کے دستخط بھی تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں گھرانوں میں بڑا محبت اور عزت والا رشتہ تھا۔انھوں نے کہا کہ ان کی احمد رضا قصوری سے پہلی ملاقات سنہ 1969 میں کمرہ نمبر 63 فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں ہوئی تھی اور وہ کافی عرصہ ساتھ بھی رہے، اور اسی لیے وہ جانتے ہیں کہ احمد رضا قصوری کو بہت شوق تھا مشہور ہونے کا اور وہ سمجھتے تھے کہ بھٹو جیسے قد آور بندے پر اگر تنقید کریں گے تو ان کی خبریں بھی چھپیں گی اور وہ مشہور بھی ہوں گے۔وہ بتاتے ہیں کہ بھٹو اور احمد رضا قصوری کی اصل میں لڑائی تب شروع ہوئی جب سنہ 1970 کے الیکشن کے بعد جنرل یحیی نے اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ سب دوست احمد رضا قصوری کو لاہور ریلوے سٹیشن پر تیز گام میں بٹھانے کے لیے گئے جہاں احمد رضا قصوری نے انھیں کہا کہ وہ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ نہیں جا رہے بلکہ کراچی میں اپنے خالو جمیل الدین عالی کے پاس جا رہے ہیں۔انھوں نے اپنے دوستوں کو تاکید کی کہ وہ یہ بات پارٹی کے لوگوں کو بتا دیں۔ میں ان کے گھر ہی ٹھہروں گا، اگر پارٹی نے فیصلہ کیا تو جاں گا ورنہ ادھر ہی ٹھہروں گا۔ جاتے ہوئے وہ مجھے باقاعدہ جمیل الدین عالی کے گھر کا نمبر بھی دے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ دو تین روز بعد جب پنجاب ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو وہاں بھی یہ بات ہوئی کہ احمد رضا قصوری ڈھاکہ اجلاس کے لیے نہیں گئے۔انھوں نے کہا کہ چونکہ وہ پیپلز پارٹی قصور کے جنرل سیکریٹری اور احمد رضا صدر تھے اس لیے ان کا احمد رضا کے گھر بہت زیادہ آنا جانا تھا اور انھوں نے جنرل یحیی کے بھائی آغا محمد علی خان کو جو اس وقت انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ تھے سے ملنے کے لیے ان کے ماڈل ٹاون والے گھر میں کئی چکر لگائے تھے، جس کے بعد ہی احمد رضا نے ایک فاروڈ بلاک بنایا تھا۔حافظ نور محمد کے دعوی کے مطابق احمد رضا قصوری کو اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں گھر اور مارک ٹو گاڑی کا پرمٹ بھی بھٹو صاحب نے ہی دیا تھا۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سینیئر صحافی عارف نظامی نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ 11 نومبر 1974 کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اعتبار سے ایک بڑا افسوسناک دن تھا۔عارف نظامی کے بقول بھٹو صاحب کے اردگرد کافی لوگ تھے جو یہ کام کروا سکتے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ احمد رضا قصوری کے والد کو مارنا ہی مقصد تھا یا وہ حادثاتی طور پر مارے گئے لیکن لگتا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی تو تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بھٹو صاحب میں خوبیاں بھی بہت تھیں اور خامیاں بھی کیونکہ ان کا رویہ ایک فیوڈل لارڈ والا تھا جو اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ احمد رضا قصوری چونکہ بھٹو صاحب کے بدترین مخالف تھے اور وہ ان پر ذاتی قسم کی نکتہ چینی اور تنقید بھی کرتے تھے یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کو پسند نہیں تھا۔ایک سوال کے جواب میں عارف نظامی کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب نے احمد رضا قصوری کے والد کو مروایا یا نہیں لیکن مارشل لا کے دور میں اس کیس کو بھٹو صاحب کو مروانے کے لیے ضرور استعمال کیا گیا۔انھوں نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ جو سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے بھٹو صاحب کی سزا کے خلاف اپیل رد کی تھی اور وہ بھی اپنی وفات سے قبل یہ اقرار کر چکے تھے کہ اس فیصلے کے حوالے سے اس وقت کی فوجی قیادت کا دبا ئوتھا اس لیے ریکارڈ کی درستگی کے لیے سپریم کورٹ میں اس کیس کے حوالے سے پڑے ہوئے ریفرنس کا جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ اگر ماضی میں کہیں کوئی غلطی، کوتاہی ہوئی ہے تو اسے درست کیا جا سکے۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر