وجود

... loading ...

وجود

ایڈمنسٹریٹر کراچی ۔۔۔ اختیاری و بے اختیاری

جمعه 05 نومبر 2021 ایڈمنسٹریٹر کراچی ۔۔۔ اختیاری و بے اختیاری

 

مرتضی وہاب جب سے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوئے ہیں ، تب سے لے کر اَب تک انہیں ایک دن کے لیے بھی اُنہیں کامل سکون اور اطمینان کے ساتھ بلدیہ عظمی کراچی میں انتظامی اُمور انجام دینے کا موقع میسر نہ آسکا۔ ابتداء میں اُن کی تعیناتی کے معاملہ پر کراچی کی جملہ سیاسی جماعتوں نے خوب سیاسی شوروغوغا مچا کر پاکستان پیپلزپارٹی کو مرتضی وہاب کی بطور ایڈمنسٹریٹر باز رکھنے کی کوشش کی ۔لیکن جب ان کے مخالفین کو اپنے اِس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو پھر مرتضی وہاب کی انتظامی صلاحیتوں کی بابت طرح طرح کے سوالات اُٹھائے جانے لگے۔ جب’’ذاتی تنقید‘‘ کے نشتر بھی مرتضی وہاب پر بے اثر رہے تو پھر ایڈمنسٹریٹر کراچی میونسپل کارپوریشن(کے ایم سی )کے لامحدود اختیارات کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان نے مرتضی وہاب کی سیاسی تعیناتی کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کے خلاف دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’’ کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے اپنا سیاسی ایڈمنسٹریٹر تعینات کرکے اسے افسران کے تبادلوں کے بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔ چونکہ سیاسی ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کی نگرانی میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہوگا ، اس لیے عدالت عالیہ کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پابند کیا جائے کہ وہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے قبل کراچی کے سیاسی ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات کا واضح تعین کرے۔ تاکہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو متنازعہ ہونے سے بچایا جاسکے‘‘۔
بظاہر سننے میں اور پڑھنے میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر سیاسی نہیں بلکہ انتظامی بنیاد پر تعینات ہونا چاہئے ، تاکہ وہ تمام تر سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے انتظامی اُمور انجام دے سکے ۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس بابت آئین اور قانون کیا کہتاہے اگر آئین میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ چیف ایگزیکٹیو ہیں اور یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی شخص کو بھی کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنا سکتے ہیںتو پھر چہ معنی دارر کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ ایک سیاسی ایڈمنسٹریٹر لگاتے ہیں یا پھر انتظامی ایڈمنسٹریٹر تعینات کرتے ہیں ۔ویسے بھی ایڈمنسٹریٹر سیاسی ہو یا انتظامی ہوگا تو وہ وزیراعلی کا منظور نظر، پسندیدہ اور منتخب کردہ ہی تو ایسے ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ سیاسی کی پخ نہ بھی لگی ہو تب بھی کام تو سارے وزیراعلیٰ کے سیاسی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ ہی انجام دیا کرے گا۔
ہاں ! ہمارا یہ مطالبہ ضرور ہونا چاہئے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی ) کا انتظامی سربراہ ،ہمیشہ منتخب میئر کو ہی بنایا جائے لیکن اس مشکل کام کی انجام دہی کے لیے باقاعدگی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے ہوں گے ۔ جس کے لیے کراچی کی کوئی بھی سیاسی جماعت شاید ہی تیار ہوسکے۔ واضح رہے کہ آج کراچی کی جو سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی کو بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر برا بھلا کہہ رہی ۔ماضی میں اِن سیاسی جماعتوں کے پاس صوبے کا اقتدار اعلیٰ تھا تو انہوں نے کب صاف ،شفاف اور منصفانہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) یا بلدیہ عظمیٰ کراچی میں 1972 سے لے کر اَب تک فقط گنتی کے چار منتخب میئر، عبدالستار افغانی ، ڈاکٹر فاروق ستار، نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال رہے ہیں جبکہ ایڈمنسٹریٹر 17 رہے ہیں۔یاد رہے کہ ان 17 ایڈمنسٹریٹرز میں سے دو پاکستان فوج کے ریٹائرڈ افسران، بریگیڈیئر (ر) پیر بادشاہ گیلانی اور بریگیڈیئر (ر) عبدالحق تھے۔باقی کے تمام کے تمام ایڈمنسٹریٹرز کو سیاسی بنیادوں پر ہی تعینات کیا گیا تھا، جن میں اپریل 1994 سے اپریل 1996 تک ایڈمنسٹریٹر رہنے والے فہیم الزمان خان کی تعیناتی سابق وزیر اعظم پاکستان بینظیر بھٹو کی سفارش پر ہوئی، جبکہ اگست 1999 سے اکتوبر 1999 تک ایڈمنسٹریٹر رہنے والے مشاہد اللہ خان کی تعیناتی اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی سفارش پر ہوئی۔ باقی 15 افراد بیوروکریٹ تھے لیکن اُن کی تعیناتی تھی سیاسی ہی۔
اِن اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کراچی کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو منتخب میئرز کے بجائے سیاسی ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ کتنا زیادہ ’’سیاسی لگاؤ ‘‘رہاہے۔ دراصل ایڈمنسٹریٹر سیاسی ہو یا انتظامی چونکہ اُس سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا ہر سیاسی جماعت کے لیئے زیادہ آسان اور سہل ہوتاہے۔ اس لیئے صوبے پر حکمرانی کرنی والی ہر سیاسی جماعت کی اولین کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی ) کا تمام انتظام و انصرام صرف ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے سے چلایا جائے۔ اگر اَب یہ ہی کام پاکستان پیپلزپارٹی کررہی ہے تو کراچی کی باقی سیاسی جماعتوں کو اس پر حیرانگی کیوں ہوتی ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کے پاس موجود لامحدود اختیارات کو کم کیا جائے ۔ تو جناب پہلے ایک بار یہ تو جان لیں کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کے پاس واقعی اختیارات ہیں بھی یا نہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب میئر کراچی وسیم اختر میڈیا پر دہائیاں دیا کرتے تھے کہ ’’اُن کے پاس تو کچھ کرنا کا اختیار ہی نہیں ہے‘‘۔یاد رہے کہ مرتضی وہاب کے پاس بھی اُسی ادارے کا انتظام و انصرام جسے کل وسیم اختر چلایا کرتے تھے، جب وسیم اختر کے دور میں اختیارات کا قحط پڑا ہوا تھا تو اچانک مرتضی وہاب کے ایڈمنسٹریٹر تعینات ہونے سے کیا آسمان سے ’’لامحدود اختیارات ‘‘ کی بارش ہورہی ہے کہ جو ایم کیو ایم پاکستان اُنہیں کم یا محدود کروانے کے لیے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹارہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اچھے اور سنہرے زمانے ہوا ہوگئے ،جب واقعی ایڈمنسٹریٹر کے کراچی کے پاس ،شہر کراچی کی تمام ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز (ڈی ایم سیز)، کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی)، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ سمیت سارے شعبوں کا مکمل اختیار ہوتا تھا اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر نہ ہونے کی صورت میں یہ ہی انتظامی اختیارات ایڈمنسٹریٹر کے پاس ہوتے تھے۔لیکن سرِ دست ان میں سے ایک بھی اختیار میئر یا ایڈمنسٹریٹر کراچی کے پاس موجود نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ اس وقت کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی یا کے ڈی اے دو دیگر اتھارٹیز لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹی اور ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ کراچی شہر کے ترقیاتی کاموں کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ حالانکہ2011 سے پہلے یہ ادارہ شہری حکومت اور کراچی کے میئر کے زیرانتظام آتا تھا، مگر 2011 میں سندھ حکومت نے شہری حکومت سے انتظام لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی شہر سات اضلاع پر مشتمل ہے، جن کی اپنی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن بنی ہوئی ہیں اور یہ بھی میئر یا ایڈمنسٹریٹر کراچی کے زیر انتظام نہیں آتیں، بلکہ ان کے اپنے چیئرمین ہیں اور بجٹ بھی علیحدہ ہے۔ دوسری جانب کراچی شہر کو پینے کا پانی فراہم کرنے اور نکاسی آب کا ذمہ دار ادارہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ 2001 میں میئر یا ایڈمنسٹریٹر کے ریز انتظام تھا، جسے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 کے تحت علیحدہ کردیا گیا اور اب یہ ادارہ بھی میئر یا ایڈمنسٹریٹر کے زیرانتظام نہیں آتا۔ ماضی کے ایک اور ادارے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی سے اے) کو ختم کرکے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے زیرانتظام کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شہر سے کچرا ، اٹھانے کے لیے سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا، جو ایک خودمختار ادارہ ہے اور یہ بھی میئر یا ایڈمنسٹریٹر کے زیر نتظام نہیں آتا۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ عوامی خدمت کے یہ سب ادارے تکنیکی طور پر ایڈمنسٹریٹر کراچی کے زیر انتظام نہیں آتے۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کے پاس فقط بلدیہ عظمی کے دفتر میں آزادی کے ساتھ بیٹھنے کا اختیار ہے اور اَب لگتاہے کہ ایم کیوایم پاکستان یہ اختیار بھی بے چارے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے واپس لینا چاہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر