... loading ...
بلوچستان کے اندر ستمبر سے شروع کی جانے والی اقتدار کی بازی اکتوبر2020ء کو اس طرح اختتام پذیر ہوئی کہ عبدالقدوس بزنجو دوسری بار صوبے کے وزیراعلیٰ بناد یے گئے۔ اسمبلی کے65ارکان میں سے 39نے انہیں قائد ایوان چنا ہے مقابل کوئی امیدوار نہ تھا۔30اکتوبر کو ہونے والے اسپیکر کے انتخاب میں بھی دوسرا امیدوار نہ تھا ۔ سو بی اے پی کے جان محمد جمالی اسپیکر منتخب ہوئے۔ بزنجو نے29اکتوبر کو حلف اُٹھالیا ۔ذہن و زبان ایک جگہ نہ تھی۔ حلف کے الفاظ ادا کرنے میں فاش غلطیاں کیں۔ وہیں گورنر ہائوس کے اندر بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے کئے گئے تھے۔ معززین و اراکین اسمبلی آ تے تو ان کے لئے اندر سے کرسیاں اُٹھا اُ ٹھا کر لگائی جاتیں ۔ حلف برداری کے دوران گورنر اور وزیر اعلیٰ کے پیچھے اور دائیں بائیں لوگوں کا ہجوم تھا۔ گورنر ہائوس کے اندر یہ سارے مناظر پہلے نہیں دیکھے گئے ہیں۔ افراتفری اور بد نظی کی کیفیت تھی۔تقریب ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے اس لیے شروع ہوئی کہ عبدالقدوس بزنجو صفائی مہم شروع کرنے گئے تھے۔ بہر کیف نواب جام کمال خان اسمبلی ک اِن اجلاسوں میںشریک نہ ہوئے۔ جام کمال کے استعفے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے باقی ارکان بھی عبدالقدوس بزنجو کے حلقے کو لپکے۔نیزتحریک انصاف کے وہ اراکین جو بظاہر جام کمال کے ساتھ تھے، سمیت تمام ارکان ، عوامی نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی کے گہرام بگٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے نئی حکومت کو دستِ تعاون بڑھایا۔ قدوس بزنجو کے انتخاب کے وقت متحدہ حزب اختلاف ایوان میں موجود نہ تھی۔ انتخاب ہوا تو اسمبلی اجلاس کا حصہ بنی۔ سبھی نے عبدالقدوس بزنجو کو تہہ دل سے جیت پر مبارکباد پیش کی۔ ظہور بلیدی وزارت اعلیٰ کی اُمید بھر نہ آ نے پربُجھے بُجھے سے تھے ۔ اس روز جام کمال کے ترقیاتی کام کا پھر سے اعتراف کیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے اسد بلوچ اور سید احسان شاہ قدوس قبیل کے ساتھ ہیں۔ سید احسان شاہ کا میاب بی این پی عوامی کی ٹکٹ پر ہوئے ہیں۔ اسد بلوچ سے اختلاف کی بنا پر پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی جماعت بنا ڈالی ہے۔ وزیر اعلی کے انتخاب میں حصہ نہ لے کر دراصل متحدہ حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے گرگٹ کی مانند رنگ بدلنے کی کوشش کی ہے ۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ عوام اور اہلِ سیاست پریہ سارا منظر عیاں ہے۔اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پورے تناظر میں ان جماعتوں کی ترجیح اور پالیسی کیا رہی ہے۔ گویاحزب اختلاف اس سارے مکروہ کھیل سے بری الذمہ ٹھہرائی نہیںجا سکتی۔
حزب اختلاف جلی و خفی طور کنگز اور مقتدرہ کے عمل میں شریک رہی ہے۔اور متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تک اس ہی کی کڑی تھی۔ ما بعد11 اکتوبر کو کنگرز پارٹی کے چند ارکان نے ان کے تعاون سے دوبارہ نواب جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرادی۔ نواب اسلم رئیسانی بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے عبدالقدوس کے وزارت اعلیٰ کے معاملے سے خود کو الگ رکھا ہے ،اور یہ کہ بی اے پی کی مدد کرنا اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے مترادف ہے ۔تو سوال یہ ہے جام کمال کو ہٹانے کے سوا حزب اختلاف نے بدلا کیا ہے ؟بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نواب اسلم رئیسانی نے صوبے کے اندر بنے والی قبیح روایات میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔ حکومت میں بالواسطہ شرکت کے فریب کی بجائے بہتر ہوتا کہ یہ جماعتیں حکومت کا ہی حصہ بنتیں۔ بلاشبہ یہ اشتراک سیاسی خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔لہذا اب مزید پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی ان جماعتوں کو وفاقی اور صوبائی حکومت کو سلیکٹڈ کہہ کر پکارنا زیب نہیں دیتا ہے ۔ یقینی طور پر حزب اختلاف سلیکٹرز اور سلیکٹیڈ کی ہم رکاب بن چکی ہے ۔ عبدالقدوس بزنجو حلف برداری کے بعد وزیراعلیٰ ہائوس پہنچے تو باپ اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے ارکان نے انہیں کرسی پر بٹھایا۔حیرت ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کے بعد بھی ان جماعتوں کے لبوں سے سلیکٹرز اور سلیکٹیڈ کے الفاظ نکلتے ہیں۔ سردار یار محمد رند کا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جام کمال کے ساتھ تھے ۔ وہ کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ باپ پارٹی کے ساتھ ہیں ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ سردار رند تحریک انصاف کے اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ہونے کے باوجود پارٹی کے اراکین اسمبلی ان کے ساتھ نہ تھے۔ اور اس دوران سردار رند کو بار بار سبکی کا سامنا رہا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی کوئٹہ موجودگی کے باوجود ان سے نہ ملے۔ یہ دو حضرات جام مخالف مہم پر تھے۔ سنجرانی آئندہ صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ پرویز خٹک اور چند دوسرے اس لابی کے کہنے پر متحرک تھے، جس نے اس کھیل کا نقشہ بنایا۔ نقشہ تیار کرنے میں بھاری سرمایہ لگا ہے۔اوپر سے نیچے تک مختلف سطح و مقام کے افراد کا حصہ طے ہوچکا ہے۔ غرضیکہ پرویز خٹک، عبدالقدوس بزنجو اور دیگر کے ہمراہ تب محض اتمام حُجت کی خاطر سردار رند کے پاس جاکر تحریک انصاف کی حمایت کی محض رسم پوری کرلی ۔ سردار رند وزارت اعلیٰ کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر ان کے لئے آئندہ بھی کوئی موقع و حمایت دستیاب نہ ہوگی۔ مناسب ہوتا کہ نواب ثناء اللہ زہری بھی کوئٹہ نہ آتے۔ بیشک جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کو بطور نمائندہ بھیجتے ۔ نواب زہری نے اس سب کے لیے پیپلز پارٹی قیادت کے فیصلے کا جوازپیش کیا ہے۔حالانکہ اس کے برعکس جب خود ن لیگ میں تھے تو پارٹی فیصلہ تسلیم نہ کیا تھا۔یعنی جب انہیں کوئٹہ میں پی ڈی ایم جلسہ میں دعوت نہ دی گئی کہ سردار اختر مینگل شریک ہوں گے ۔ چناں چہ خفا ہوکر ن لیگ سے علیحدہ ہو گئے۔ حالاں کہ پیش ازیں نواز شریف کے کہنے پر نواب زہری نے بیٹے، بھائی اور بھتیجے کے بم دھماکے میں قتل کی ایف آئی آر سے سردار عطاء اللہ مینگل ، سردار اختر مینگل و دیگرکے نام نکلواد یے تھے۔ یہ تب ہوا جب نواب زہری وزیراعلیٰ بننے جارہے تھے۔عبدالقدوس بزنجو کی رہائشگاہ میں قائم کیے گئے کیمپ بھی گئے، جہاں بی این پی کے اراکین اسمبلی بھی مقیم تھے۔
یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ سردار اختر مینگل کی حکومت گرا نے پر نواز شریف نے برملا اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنوری 2018ء میں عدم اعتماد اور منتخب حکومت گرا کر صوبے کی تذلیل میں شریک پارلیمنٹرینز اور سیاسی جماعتیں نادم ہیں ؟۔ یا اِس بار کی سیاہ سیاست و گراوٹ پر کوئی شرمند ہوا ہے۔ ؟ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس صورتحال کی تفہیم یہ کی ہے کہ ’’ غیر جمہوری عناصر اپنے مفادات کے لئے ہر غیر جمہوری عمل بلوچستان سے شروع کرتے ہیں۔ عدم اعتماد سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن سیاست میں اصول و نظریات سب سے مقدم ہیں ۔اگر غیر جمہوری عناصر کی مفاد اتی کشمکش کے لئے اپنے سیاسی نظریات کو قربان کرنا پڑے تو وہ عدم اعتماد نہیں بلکہ کارندے کا کردار کہلائے گا۔‘‘ بلاشبہ اس بار بھی سیاسی لوگوں اور جماعتوں نے کارندے کا کردار ادا کیا ہے اور جس سطح کی تبدیلی بلوچستان میں یہ کارندے لاچکے ہیں سے ان کی ترجیحات اور سیاسی ظرف کا اندازہ ہوا ہے ! ۔اور پھر اس سب کو تبدیلی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔آزمائے ہوئے کے لیے اقتدار کا راستہ صاف کیا گیا ہے ۔یعنیستر کی دہائی سے اب تک 45سالوں کے دوران ہونے والے 9 انتخابات میں7بار عبدالقدوس بزنجو، ان کے والد عبدالمجید بزنجو اور والد کے چچا کریم بزنجو آواران سے بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔ یہ خاندان پاکستان کے اس پسماندہ ترین ضلع کی تقدیر نہیں بد ل سکا ہے۔ چھ اضلاع سے سرحدیں لگنے کے باوجود ایسی کوئی پختہ سڑک نہیں جو آواران کو کسی دوسرے ضلع سے ملائے۔پورے ضلع میں بجلی صرف ضلع اور تحصیل ہیڈ کوارٹر میں جنریٹرسے چند سو گھرانوں کو بجلی مل رہی ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ ا سٹینڈرڈ میژرمنٹ سروے 2019-20ء میں معیار زندگی اور سہولیات کے حوالے سے آواران کو بلوچستان کے تین بد ترین اضلاع میں سے ایک قرار دیا گیاہے۔چناں چہ یقینا صوبے کے عوام پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جام کمال کو ہٹاکر صوبے کو متبادل کیا دیا گیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔