... loading ...
دوستو، اسینس آف ہیومر اور سائنس آف ہیومر میں بال برابر کا فرق ہے۔۔ سینس آف ہیومر قدرتی طور پر انسان سے منسلک ہوتا ہے لیکن سائنس آف ہیومر ہمارے خیال میں پریکٹس سے آجاتی ہے، یہ بالکل اسی طرح سے سمجھ لیں کہ جیسے بچے کو کرکٹ کھیلنا نہیں آتی لیکن وہ جب پریکٹس کرتا ہے تو اللہ پاک اسے ’’بال بوائے‘‘ سے ’’بابراعظم‘‘بناسکتا ہے۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنس آف ہیومر کی پریکٹس کیسے کی جائے؟؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر انسان میں سینس آف ہیومر کچھ نہ کچھ مقدار یعنی ’’ماترا‘‘ میں موجود ہوتا ہے،بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اسے اپنے اندر تلاش کیسے کیا جائے؟؟
بچوں میں حسِ مزاح ان میں بلند آئی کیو اور ذہانت کو ظاہر کرتی ہے، اب ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بہتر معلومات اور زبانی دلائل کے ماہر بچوں کی فطرت میں ہنسی مذاق کی حس پائی جاتی ہے۔اس ضمن میں ایک مطالعہ ترکی میں کیا گیا جس کی تفصیلات ہیومر نامی تحقیقی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بالغان کے مقابلے میں کمرہ جماعت کے مسخرے بچے ہی درحقیقت ذہین ہوتے ہیں اور یوں بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔انسانی تاریخ میں حسِ مزاح کو بلند ذہانت قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ برجستہ جملوں کا اظہار، ہوشیاری اور حاضر دماغی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے قبل بڑوں میں اسی طرح کی تحقیق ہوئی ہے لیکن اب پہلی مرتبہ بچوں پر اس کے اثرات معلوم کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں 200 بچوں میں سے ہر ایک کو دس کارڈ دیئے گئے جن میں کارٹون بنائے گئے تھے۔ تمام بچوں سے کہا گیا کہ وہ اسے دیکھتے ہوئے کوئی مضحکہ خیز جملہ یا عنوان لکھیں۔ اس کے بعد سات مختلف ماہرین نے ان جملوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے تحریر شدہ موضوع کو اول، دوم، سوم اور دیگر درجات دیئے۔اس کے بعد تمام بچوں کے معیاری آئی کیو ٹیسٹ بھی لیے گئے۔ جب بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ جن بچوں کی حسِ مزاح بلند تھی ان میں ذہانت کا معیار بھی اونچا تھا۔ 68 فیصد بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا واضح تعلق سامنے آیا۔ بالخصوص جو بچے معلوماتِ عامہ یعنی جنرل نالج اور زبانی دلائل (وربل ریزننگ) کی صلاحیت بلند تھی ان میں مزاح کا عنصر اتنا ہی زیادہ تھا۔تاہم ترک ماہرین کا خیال ہے کہ حسِ مزاح کی تعریف ہر معاشرے میں مختلف ہوتی ہے۔ ایک خطے کے لطیفے دوسرے علاقے کے لوگوں کے لیے نہیں ہوسکتے۔ اس کی وجہ ہے کہ حسِ مزاح کا تعلق معاشرے، رسوم اور اقدار پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے مطالعے مغربی ممالک میں ہوتے رہے ہیں لیکن اب ترکی میں یہ تحقیق ہوئی ہے جو مشرق اور مغرب کا سنگم ہے۔اناطولو یونیورسٹی کے پروفیسر یوغور سائک کہتے ہیں کہ حسِ مزاح سے بچے بڑوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس کا ذہانت سے گہرا تعلق بھی ہے۔
ایک جواں سالہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے بچے کے حوالے سے اسکول میں شکایات کا انبار لے کر تشریف لائیں، اسکول اسٹاف جب خاتون کو مطمئن نہیں کر پایا تو انہیں پرنسپل صاحب کے پاس بھیج دیا جو کہ ایک پروفیسر تھے۔۔خاتون اندر آئیں اور غصے میں شروع ہوگئیں۔۔ خوب گرجی، برسیں اور اپنے بچے کوا سکول میں درپیش مسائل کا بے باکانہ اظہار کیا۔۔ پروفیسر صاحب پرسکون بیٹھ کر خاتون کی گفتگو سنتے رہے اور ایک بار بھی قطع کلامی نہیں کی۔ جب خاتون اپنی بات مکمل کر چکیںتو پروفیسر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے۔۔دیکھئے خاتون!مت سمجھئے گا کہ میں آپ کے حسن کے رعب میں آ گیا ہوں، یا یہ کہ آپ کے چاند جیسے چہرے نے مجھ پر جادو کر دیا ہے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی جھیل جیسی نشیلی آنکھوں میں کھو گیا ہوں، اور نا ہی آپ کی ناگن جیسی زلفوں نے میرے دل کو ڈسا ہے، آپ یہ سوچئے گا بھی مت کہ آپ کے گال کے کالے تل نے میری دل کے تار بجا دئیے ہیں، اور آپ کی مترنم آواز نے میری دھڑکنیں تہہ و بالا کر دی ہیں، میں غالب نہیں ہوں جو آپ کے شیریں لبوں سے گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوں اور نہ ہی میں میر ہوں کہ آپ کی لبوں کی نازکی کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے دوں، نہ ہی میں نے آپ کی تمام تر گفتگو اس نیت سے سنی کہ آپ کو بولتے ہوئے سنتا رہوں، اور کچھ دیر آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں، میرا یہ مزاج نہیں ہے کہ میں کسی خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کروں۔میں اپنے اسٹاف سے پوچھوں گا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کو برہم کیوں کیا گیا؟خاتون جو اتنی دیر سے پروفیسر صاحب کو غور سے سن رہی تھی خاموشی سے اٹھی اور باہر چلی گئیں۔آج وہ خاتون پروفیسر صاحب کی بیوی اور اسکول کی وائس پرنسپل ہیں۔۔
بیوی پر یاد آیا۔۔جن گھروں کی بیویاں گھر کی خوبصورتی سے زیادہ اپنی خوبصورتی پر توجہ دیتی ہیں ،ان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ۔۔کپڑے کمرے میں کرسی پر ڈھیر تاروں پر لٹکے ہوئے،جہیز کا شو کیس مٹی سے اٹا ہوا،برتن میلے سجے ہوئے،گنتی کے چند برتن استعمال میں،کچن کی شیلف سیاہ،دیواروں پر تیل کی چھینٹوں کے نشان،الماریوں میں کپڑے ٹھونسے ہوئے،کہیں جانا ہے تو سوٹ نکالا،استری کیا،پہن لیا،کوئی پتہ نہیں خاوند کے کپڑے کہاں ہیں؟جرابیں،بنیان کہاں ہیں؟دھوتے وقت جو مل گئیں ،دھو دیں،نہ سلیقہ،نہ نفاست،جوتیوں کو گھنڈانا شان کیخلاف،پہلا سوال،کیا پہنوں؟ سب کچھ ہو کر بھی شکوے شکائتیں،ان کو کسی شادی میں دیکھیں تو بہترین میک اپ،بالوں کی لٹ سنہری،جیسے ڈیفنس کے بنگلے سے آئی ہوں،گھر جائیں تو بیٹھنے کی صاف جگہ بھی نہیں ہوتی،متلاشی آنکھیں،ٹی وی ڈرامے دیکھ دیکھ کر احساس محرومی،خاوند کی وقعت ہی کوئی نہیں،ایسی عورتیں صرف چند تحائف اور جھوٹی تعریف کی مار ہیں،کبھی ضمیر جاگ گیا تو نمازیں شروع کر دیں،پھر انتقاما” چھوڑ دیں،باہر کھانے کی شوقین،گھر میں سڑی سڑی سی،محفلوں میں قہقہے،سب سے خطرناک ا سٹیج وہ ہے جب بغیر کام سے بغیر بتائے گھر سے نکل جائیں،ان کو خود بھی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ ان کی زندگی میں سکون کیوں نہیں،اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گھر کی صفائی سے شروع ہوں،ہر چیز صاف ستھری اپنی جگہ پر موجود ہو،خاوند جیسا بھی ہے،شکر کریں،ٹی وی ڈراموں کو اپنی سوچوں پر حاوی نہ کریں،باقاعدگی سے نماز،قرآن شریف پڑھیں،ایک مہینے میں ہی گھر ہی جنت بن جائے گا انشاء اللہ۔۔ویسے یہ بات بھی سوفیصد درست ہی لگتی ہے کہ ۔۔فیس بک بنانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوسٹ میں شئیر کا آپشن ان عورتوں سے متاثر ہو کر بنایا ہے جن کو کسی کا راز پتہ چلنے پر اس وقت تک پیٹ میں درد رہتا ہے جب تک وہ یہ راز آگے کسی کو نا بتا دیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ رعایتی قیمت پر خریدی ہوئی غیر معیاری اشیاء کی خوشی عارضی اور غم مستقل ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔