... loading ...
کوئی دن گزرتا ہے کہ یہ نظام ڈھے پڑے گا۔ نظام کے محافظ” جن” منہ دیکھتے اور ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
اپنا آدمی لانے کا دوطرفہ جنون اب ختم ہو جانا چاہئے! یہی وقت ہے کہ پوری بات کی جائے، اور پوری بات سمجھی جائے!!وہ گاہے جنات کے زیرِ اثر دِکھنے والا شاعر جون ایلیا کیا بات کہہ گیا
حالت ِ حال کے سبب حالت ِحال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
سب سے پہلے یہی مسلم لیگ ہی تختہ مشق بنی تھی۔ خواجہ ناظم الدین کنارے لگادیے گئے۔ پاکستان پر سب سے کراہیت آمیز کردار غلام محمد گورنر جنرل بن کر آدھمکا! پھر ناتراشیدہ سیاست دانوں کی”تخلیق ” کا نامناسب عمل شروع ہوگیا۔ ا ب قابو سے باہر ہیں، مگر نوازشریف بھی اُسی ذہن کی پیداوار تھے۔ وہ پہلے نہ تھے۔ اُن سے بھی پہلے ایک قطار چلی آتی ہے۔ کراچی میں الطاف حسین کا تجربہ تو سب سے بھیانک مثال ہے۔ کراچی آج بھی جس کی سزا بھگت رہا ہے۔ وہ جن پراسرار قوتوں اور حالات میں پیدا کیا گیا، ٹھیک اُسی پراسرار طریقے پر منظر سے ہٹا دیا گیا۔ مگر اُس کے انڈے بچے اب بھی کراچی میں کسی اُجلی سیاست کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ بنے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ وہی گندی ذہنیت !بوقت ضرورت استعمال کیے جائیں گے۔ مرکزی سیاست کوگرفت میں رکھنے کے نامناسب ذہن نے جگہ جگہ گملوں میں ایسی پنیریاں جما رکھی ہیں۔سیاست دان تو بہت ادنیٰ مثال ہے۔ مذہبی اور لسانی عصبیت کی لہروں تک کی حفاظت کی جاتی ہے۔ طاہر القادری خود تو نہ اُبھرے تھے، اُبھارے گئے۔ علامہ خادم حسین رضوی کی مثال بھی سامنے ہے۔ اپنے ذہنوں کو ٹٹولیں۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ابتدائی سرپرستی کے بعد جنرل ضیاء کے دور میں شیعہ سنی لڑائیاں کیسے اُبھریں اور ماند ہوئیں۔ ا س کھیل میں مجرم تک سرپرستی میں لیے جاتے ہیں۔ سب کچھ آشکار ہے مگر جرم کی دنیا کا ”توازن” رکھنے کے لیے عزیر بلوچ کو قانون سے تحفظ دیا جارہا ہے۔ یہ ذہنیت ردِ عمل کی نفسیات میں اس سے کہیں زیادہ خطرناک نتائج لاتی ہے۔ آلۂ کار ، اپنے کردار کو بڑھاتے ہیں تو زیادہ بڑی طاقتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔الطاف حسین کو ملک کم پڑگیا، دشمن ملک بھارت سے رسم وراہ بڑھائی۔ برطانوی اور امریکی اداروں سے بھی نَین مٹکا کرتا رہا۔ تاحال اُن کے تحفظ میں ہے۔ قومی ادارے بے بس!!عزیر بلوچ ایرانی اداروں کے رابطے میں آگیا۔ کاغذات تک سے بھانڈا پھوٹ گیا۔ مگر پھر بھی ایک ہی ساخت کی فرسودہ ذہنیت سے سوچے جانے والے اس کھیل میں کچھ نیا نہیں ہوپارہا!!دل بار بار طوافِ کوئے ملامت کو جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پنیری لگانے والوں کی امیدِ نازاپنی بارگاہ ِعالیہ پر حاشیہ برداروں سے عمر گزارنے کی توقع پوری نہیں کراسکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ استعمار کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ آلہ کاروں کی خواہشات بھی کچھ ”نوآبادیاں” رکھتی ہیں، جو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔عمران خان کے باب میں بھی مضمون واحد ہے۔
سیاست اس نوع کی کھیپ کے ہاتھوں میں ہوگی ، تووہی مناظر اُبھریں گے، جو ہمارے گلی کوچوں میں نظر آتے ہیں۔دھرنے ، مظاہرے، کٹا چھنی، آپا دھاپی، مار کٹائی، ہاہا کار ، ہرکوئی دوسرے سے برسرِ پیکار۔ مرکزی سیاست میں بہنے والے سیاست دان اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر طرح کے کھیل میں پڑنے لگے ہیں۔ عدم تحفظ، اقتدار چھن جانے کا خوف ، اُنہیں اندیشوں میں مبتلا رکھتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے پہلے ایک بندوبست کا حصہ بنتی ہے، تب انتخابی عمل کا پلڑا اُن کے حق میں جھکنے لگتا ہے۔ پنجاب کی مقبول سیاسی جماعت نون لیگ او رکراچی کی سب سے بڑی انتخابی طاقت ایم کیوایم بھی اپنے بھاری” مینڈیٹ”کے لیے رہین منت ہوتے تھے۔ پھر کسی بھی اقتدار کو لپیٹنے کا اُسلوب بھی نہایت عریاں ہو چکا ہے۔ پہلے حب الوطنی پر اُنگلیاں اُٹھتی ہیں۔ پھر کچھ مسائل سر اُبھارتے ہیں ، تب طاہر القادری ایسے میدان میں اُترتے ہیں۔ توہینِ رسالت کا حساس ترین موضوع بھی اِسی سیاست کا ہدف رہتا ہے۔
یوں یہ سیاسی کھیل ایک خطرناک ”منطقے” میں داخل ہوجاتا ہے۔پاکستان بوجوہ عالمی قوتوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ ازلی دشمن موقع کی تاک میں ہے۔ نریندر مودی خوامخواہ نواز شریف کے گھر شادی میں خلافِ توقع نہیں آجاتا۔ سیاست دان بھی ایسے اقدامات کرگزرتے ہیں، جو اُنہیں طاقت ور دکھاتے ہوں تاکہ وہ اندرونی طور پر کسی ”ایڈونچر” سے محفوظ رہیں۔ مینڈیٹ جعلی ہواور اقتدار” طفیلی” ہو تو بھی طول دینے کی خواہش کسے نہ ہوگی؟عزیر بلوچ لیاری کی سلطنت کی حفاظت کے لیے ایرانی رابطوں میں جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، تو پھر ایک ملک پر حکومت قائم رکھنے کی للک کیا قیامتیں نہ ڈھاتی ہونگیں !! عدم تحفظ عالمی قوتوں کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایک اور رجحان بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔ کچھ لوگ اب پیروں ، جنوںاور علم الاعدادکا سہارا بھی لینے لگے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں آصف علی زرداری نے ایک پیر کو مستقل ایوانِ صدر میں بٹھائے رکھا۔ کالے بکرے ایوانِ صدر لائے جاتے۔ پیر صاحب طے کرتے کہ صدرِ مملکت کو ایوانِ صدر سے نکلنا چاہئے یا نہیں؟اُنہیں کب پہاڑوں کے قریب اور کب سمندروں کے قریب رہنا چاہئے؟ اب بھی اقتدار کا پورا ڈھانچہ چند توہمات ، خرافات اور جنات کی حرکات پر انحصار کرنے لگا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس کھیل میں سب سے بدترین تجربہ ثابت ہوئے۔وہ آکسفورڈ کے پڑھے ہیں، مگر اُن کا ذہن بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں کے آگے سجدہ ریز ہوگیا۔
مقتدر ڈھانچہ اب مسخ ، نحوست زدہ اوریبوست آلودہ ہو چکا ہے۔ اِسے ایک نیا آہنگ درکار ہے۔ اپنا آدمی لانے کا جنون نظام کو تلپٹ کررہا ہے۔ دشمنوں میں خوف بھرنے والے ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کا منصب چاند کے نامعلوم حسابوں ، گرہنوں کے اُلٹ پھیر اور خوابوں کے تاریخ وایام کے تختۂ مشق پر مشقِ ستم بنارہا۔پہلے ”اپنا آدمی” پھر” اپنی تاریخ” کا جنون اِس منصب کے مقام سے ایک کھلواڑ کا باعث بنا رہا۔ دباؤ کی متوازی لہروں کا آزمودہ طریقہ بھی سر اُٹھاتا رہا۔کیا تین برس کے یکساں صفحے اور اس سے قبل کے احتجاجی بندوبست میں تال میل کی کہانی کا یہ مستقبل تھا! کیا قومی وقار اسے کہتے ہے؟ اپنا آدمی لانے کا جنون سب کچھ داؤ پر لگارہا ہے۔پہلے سیاسی بندوبست ”اپنا” لانے کا جنون سراُٹھاتا ہے۔ پھر سیاسی بندوبست کا” اپنا ”جنون تین سال میں بے قابو ہونے لگتا ہے۔ یہ جنون اداروں سے کھلواڑ بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کھلواڑ سے قومی سیاست میں غیر ہموار لہریں جنم لینے لگتی ہیں۔ایک طرف وہی دھرنے، مظاہرے،جلوس اور جلسے۔ دوسری طرف بیرون کے سہارے، خوابوں کے اشارے اور جنوں کے پہرے!! کیا یہ کہانی باربار دُہراتے ہوئے کوئی بوریت محسوس نہیں ہوتی۔ سیاست دان تو ناکام ہی رہیں گے، مگر سیاست میں اپنی پنیریاں لگانے کا دائمی اور دقیانوسی جنون بھی برگ وبار کے بجائے خاروخس لا رہا ہے۔ یہ دائرے کا سفر ہے۔ منحوس گرداب ہے۔ سیاست اور مقتدر ڈھانچے کو کچھ اُصولوں پر استوار رہنا چاہئے۔ ایک ایسا ڈھانچہ جس میں افراد کی وجہ سے اُصول توڑے اور موڑے نہ جائیں بلکہ اُصولوں پر افراد کو تاریخ میں دفن ہونا پڑے۔ بالادستی اُصولوں کی ہو، افراد کی نہیں۔ ورنہ یہ نظام ڈھے پڑے گا۔ دھرنے کام دیں گے اور نہ جن ۔ کوئی ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہوگا کہ بیس کروڑ کے ملک میں طاقت کے مراکز نادیدہ ہیں۔ یہ ملک خلائی مخلوق اور جناتی مخلوق کے درمیان کشمکش کامیدان ہے۔ کہیں اس خلائی اور جناتی مخلوق کی لڑائی کا کولیٹرل ڈیمیج عمران خان کی حکومت نہ ہو جائے!! خطرات دہلیز پر دستک دے رہے ہیں۔
٭٭٭٭