... loading ...
یقینا بلوچستان اسمبلی اور صوبے کا تقدس ایک بار بھر پامال ہوا ہے ، دغا ، ضمیر فروشی اور ناشائستگی کی ایک اور تمثیل تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔نواب جام کمال خان عالیانی وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہو گئے ۔جام کمال کنگز پارٹی سے وابستہ ضرور ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ کئی اچھی صفات کے حامل یہ شخص بلا شبہ ارادے کے پکے ثابت ہوئے ہیں۔ جام کمال خان نے ان نوابوں، سرداروں، خوانین اور دوسرے سیاسی بڑوں کی لاج رکھ دی ہے، جو اُجلے کردار اور کھرے مؤقف کے حامل رہے ہیں۔ عوام یقینا یکسر مایوس نہ ہوئے ہیں کہ ابھی تک ہر ایرے غیرے کے سامنے نہ جھکنے والے بڑے نا پید نہ ہیں۔20اکتوبر2021ء کی عدم اعتماد اعتماد کی قرارداد والے اجلاس میں جام کمال خان دیر تک اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بی این پی عوامی کے اراکین اسمبلی کی توہین آمیز، ناشائستہ اور تبرا بازی پر مشتمل تقاریر سنتے رہے ۔آخر میں ان سب کے جواب کمال حوصلے ، شائستہ گفتار کے ساتھ دیے۔ بلکہ اس روز اور اس پورے عرصہ اعصابی اور اخلاقی طور پر ان سب پر حاوی رہے ہیں۔ سنجاوی کے ایک شخص نور محمد دمڑ جن کے پاس پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی وزارت تھی اور سینئر پارلیمنٹرین سید احسان شاہ 20اکتوبر کے اجلاس سے چند لمحے قبل پی ڈی ایم اور جام مخالفین کی صف میں شامل ہوئے۔ اجلاس کے روز باپ پارٹی کی تین خواتین بشریٰ رند، لیلیٰ ترین ، ماہ جبین شیران ، اکبر آسکانی اور لالہ رشید بلوچ شریک نہ ہوئے۔ تاہم لالہ رشید تاخیر سے اسمبلی پہنچے ۔ کہا کہ وہ بوجہ علالت دم کرانے گئے تھے۔ باقی چار اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ حزب اختلاف اور جام مخالفین نے شور بلند کیا کہ ان اراکین کو جام نے اغوا کرایا ہے۔ اور انہیں حبس بے جا میں ر کھ کر تشدد کیا گیا ہے ۔پھر چیف سیکریٹری ، آئی جی پولیس کو لاپتہ ارکان کو منظر عام پر لانے کے لیے خطوط لکھے گئے ۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں گمشدگی کی درخواست دی گئی جو عدالت عالیہ نے مسترد کردی۔ اِسی رات مخالف ارکان نے ظہور احمد بلیدی کی بطور پارلیمانی لیڈر تقرر کے لیے درخواست دی،جو اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے آناً فاناً منظور کرلی۔ عبدالقدوس بزنجو کھلے عام جام مخالف مہم چلاتے رہے۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں جام سے مستعفی ہونے کا کہتے ۔مقام تاسف ہے کہ دستور اور اسمبلی قاعدے اور ضابطوں کی اس صریح خلاف ورزی کی کسی مجاز مقام سے باز پرس نہ ہوئی۔ پھر پی ڈی ایم اورجام مخالفین نے اسمبلی اجلاس کی رات عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ جاکر پڑاو ڈالا،جواز لاپتہ کر دیے جانے کا گھڑا ۔ وہاں طرح طرح کی محفلیں سجتی رہیں۔ بالآخر 23 اکتوبر کی رات کو اکبر آسکانی اور تین خواتین شرف و ضمیر کی اتھاہ پستی کا نمونہ بنے دکھائی دیے ، ایک قطار میں بیٹھے ویڈیو پیغام جاری کیا۔ بالکل ایسے جیسے کسی اشتہاری و مفرور ملزم سے ا قرار جرم کرایا جاتا ہو ۔ کہا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا اسلام آباد گئے تھے اور اپنے گروپ کے ساتھ ہیں ۔ چناں چہ اگلی صبح حکومت بلوچستان کے خصو صی طیارے میں عبدالقدوس بزنجو کی رہائشگاہ پہنچ گئے۔ جام مخالفین میں با پ پارٹی کے عبدالقدوس بزنجو، ظہور احمد بلیدی، جان محمد جمالی، سردار عبدالرحمان کھیتران، سردار صالح محمد بھوتانی، نور محمد دمڑ، محمد خان لہڑی،سکندر عمرانی،لالہ رشید،اکبر آسکانی، بشریٰ رند، لیلیٰ ترین، ماہ جبین شیران سمیت سینیٹر منظور کاکڑ، سینیٹر سعید ہاشمی، سینیٹر احمد خان خلجی، سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سینیٹر کہدہ بابر،سینیٹر ثناء جمالی، ممبر قومی اسمبلی سردار اسرار ترین ہیں۔ ان کے ساتھ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی بھی شامل ہیں۔ بی اے پی کے صوبائی ارکان اسمبلی میں نوابزادہ طارق مگسی، سردار سرفراز ڈومکی، عارف جان محمد حسنی، سلیم اللہ کھوسہ،ضیاء اللہ لانگو، محمد خان طور اتمانخیل، مٹھا خان کاکڑ، سردار مسعود لونی اور ربابہ بلیدی اسی طرح سینیٹر انوار الحق کاکڑ ، سینیٹر سرفراز بگٹی، سینیٹر آغا عمر احمد زئی، سینیٹر دھنیش کمار، اسی طرح پی ٹی آئی کے سردار بابر موسیٰ خیل، عمر خان جمالی، مبین خان خلجی ،اے این پی کے چاروں ارکان اسمبلی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی جام کمال خان کے ساتھ کھڑی رہیں ۔ بے اے پی کے جان محمد جمالی نے اس عرصہ کئی رنگ بدلے ۔ تحریک انصاف کے پرویز خٹک بھی جام مخالف تھے۔ بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں مختار نہ ہیں۔پارلیمانی اراکین پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے فیصلوں کے پابند ہوتے تو سردار رند بہر طور جام مخالفین کی صف میں ہوتے۔ سردار یار محمد رند مشکل کی اس گھڑی میں واشنگٹن چلے گئے۔ وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش لیے واپس پہنچے ۔ نواب ثناء اللہ زہری بھی23اکتوبر کو کوئٹہ پہنچ گئے۔ حیرت انگیز طور پر عبدالقدوس بزنجو کی رہائشگاہ گئے ، ہمراہ عبدالقادر بلوچ بھی تھے۔ اسی عبدالقدوس بزنجو نے ان کی حکومت کے خلاف جنوری2018ء میں عدم اعتماد کی تحریک کی قیادت کی ۔ نواب زہری نے مستعفی ہونے کے بعد کہا تھا کہ اللہ نہ کرے کہ عبدالقدوس بزنجو ان کے سا منے آجائیں۔ حیرانگی اس بات پر بھی ہے کہ قدوس بزنجو کی رہائشگاہ پر نواب زہری کی پریس کانفرنس میں سردار اختر مینگل کی جماعت کے اراکین اسمبلی بھی موجود تھے۔ جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری بھی پہنچ گئے تھے۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو جام کمال کوئی اچھی گھڑی ہی تحفہ کرتے تو شاید وہ ان کے لیے اپنی حد تک لابنگ کرلیتے۔ غرضیکہ بلوچستان کے اندر ہیئت حاکمہ سارے کھیل بنانے والا ہے۔ جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی شعوری طور پر اس صف میں کھڑی ہوئیں ۔ پیپلز پارٹی کا اس ضمن میں کردار بھی مثبت نہیں۔ خاص کر صوبے کی ان تین جماعتوں پر بخوبی عیاں ہے کہ جام کے مقابلے میں جن لوگوں سے ہاتھ ملاچکی ہے وہ کس فکر ، طرز سیاست اور کردار کے حامل ہیں!۔ دو ہزار اٹھارہ میں ن لیگ، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرائی گئی تو محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں بریگیڈیئر خالد فرید کا نام لے کر آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ ان کا صوبے سے فوری تبادلہ کردیں۔
چناں چہ محمود خان اچکزئی کی جماعت بھی تضاد کا شکار ہوئی ۔کسی کے تبادلے کا مطالبہ کے بجائے الٹی زقند لگائی ۔ میں اپنی ذات تک اس رائے کا حامل ٹھہرا ہوں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کسی طور اسٹیبلشمنٹ سے جدا نہیں ہے۔ جس نے چھ نکات کا ذنبیل بنا رکھا ہے۔ ان چھ نکات کی حجت کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میں تعاون کیا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع میں حمایت دلائی ۔ اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی کامیابی میں ساتھ دیا۔ عبدالقدوس بزنجو کی رہائشگاہ پر 20اکتوبر سے25اکتوبر تک میلہ غیبی تعاون اور حمایت کے بغیر کسی صورت ممکن نہ تھا۔ عبدالقدوس بزنجو وغیرہ کی ہمت کہ وہ خود سے کوئی قدم اُٹھائیں؟۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہو کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے مراسم کا آغاز بلوچستان سے ہوچکا ہے۔ ۔ وزیر دفاع پرویز خٹک23اکتوبر کو کوئٹہ آئے تھے۔ جام کمال خان سے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے ہمراہ طویل ملاقات کی۔مفاہمت کی بجائے پوری سعی جام کو ہٹانے کی رہی ۔جام کمال نے انہیں کھری کھری سنائی اور پھر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان پر بھی واضح کیا کہ تحریک انصاف کے وفاقی ارکان، بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ،یہ کہ انہیں روکیں ۔جام کمال نے آنے والی ایک اور شخصیت سے ملاقات نہیں کی۔جام کمال نے 24 اکتوبر کی رات استعفا پارٹی کے حامی پارلیمانی ارکان، اتحادی، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کی مشاورت سے دیا ہے۔ بلکہ جام کمال پہلے کہہ چکے تھے کہ پارٹی کے حامی ارکانِ اسمبلی اور اتحادی جو فیصلہ کرلیں انہیں قبول ہوگا۔ البتہ اچھا یہ ہوا کہ ان دو ماہ میں ان پر کئی گوشے واضح ہوئے ہیں اور کئی چہروں پر سے تضادات کے نقاب اُتر ے ہیں ۔ جام کمال خود بھی کہہ چکے ہیں کہ کئی با اصول اچھی ساکھ والے افراد لالچی ،طاقت کے بھوکے اور سازشی نکلے ہیں ۔ جام مخالفین اور دوسرے جمہوریت کے دعوے داروں پر سبقت لے گئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کن بینچوں پر بیٹھیں گی۔ یادو ہزار اٹھارہ کی طرح حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے بلواسطہ ہی حکومت کا حصہ رہیں گی؟۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا منفی کھیل کھلوانے والوں نے ایک لمحہ کے لیے سوچا ہے کہ جام کی عناد میں کو ئٹہ کے اندر یکے بعد دیگرے دو دھرنوں کے لیے کس نے معاونت و حوصلہ افزائی کی ؟ جہاں ببانگ دہل فوج اور اداروں کو گالیاں دی جاتی رہیں؟ ۔ بہر کیف صوبائی کابینہ 24اکتوبر کی رات تحلیل ہوگئی۔ مزید اللہ بلوچستان کی عزت رکھے، اس غریب صوبے اور عوام کی دولت راہزنوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔