وجود

... loading ...

وجود

کے ڈی اے،کےایم سی،ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا،سپریم کورٹ برہم،وزیراعلیٰ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب

پیر 25 اکتوبر 2021 کے ڈی اے،کےایم سی،ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا،سپریم کورٹ برہم،وزیراعلیٰ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب کر لیا جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعلی سندھ سے استفسار کیا ہے کہ ہم یہاں مسائل سننے نہیں آئے حل بتائیں، آپ ہر بات میں وفاقی حکومت کی بات کر رہے ہیں، اگر وفاق یہاں آکر بیٹھ گیا تو پھر آپ کیا کریں گے۔ پیرکوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل بینچ نے تجاوزات کے خاتمے، سرکلر ریلوے، اورنگی اور گجرنالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ نسلہ ٹاور سے متعلق بھی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس چیف جسٹس نے کہا کہ وہ حیدرآباد سے ہو کر آئے ہیں، دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، بہتری نظر نہیں آتی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے گجر نالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا جی بتائیں کیاپیش رفت ہوئی؟ گجرنالہ متاثرین کی بحالی کے لئے ابتک کیاکیا؟ عملی طورپرگراؤنڈپرکیاہورہاہے ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا وزیراعلیٰ سندھ نے رپورٹ جمع کرادی، کچھ مالی ایشوزآرہے ہیں۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا ہورہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سے کہیں فوری پہنچیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ بلائیں وزیراعلیٰ سندھ کوابھی ان سے ہی پوچھیں گے، آپ لوگ عدالت کامذاق اڑارہے ہیں؟ یہ کیارپورٹ پیش کی ہے آپ نے؟عدالت کے طلب کرنے پر پروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ پارکوں ،کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہوچکا ہے، سڑکوں پر سائن نہیں ہیں، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ ٹوٹا ہوا ہے، آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟۔چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سے استفسار کیا کہ اتنے عرصے سے شہر کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں،کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کیسے بہتر ہوگا، کوئی ایک چیز نہیں جس میں بہتری آرہی ہو، سہراب گوٹھ سے جاتے ہوئے کیا حالات ہیں، کیا لوگ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں،آپ کہیں گے یونیورسٹی روڑ بنا دی، یونیورسٹی روڈ پر سب رفاہی پلاٹوں پر قبضہ ہوچکا، آپ قصبہ مافیا سے کسی قسم کی رعایت نہ کریں، ان پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے، آپ کا وزیر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے ماتحت اداروں میں کیا ہو رہا ہے؟ ماسٹر پلان مانگ رہے ہیں وہ نہیں مل رہا، وزیراعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا کہ انتظامی مسائل ہیں، کے ڈی اے با اختیار ادارہ ہے،قانون موجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کراچی کون چلا رہا ہے، کیونکہ سبھی ادارے مفلوج ہیں، کے ڈی اے، کے ایم سی اور ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا، کیا کراچی خود ہی چل رہا ہے، سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے، آپ کا کام تو صوبے چلانا ہوتا ہے، آپ کے ماتحت شہری اداروں کا کام ہے جو وہ نہیں کر رہے، جس کو بلاتے ہیں سب یہی کہتے ہیں کوئی کام نہیں کرنا،شہر میں کثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، آپ دوسرا بڑا صوبہ ہیں، آپ حکومت ہیں، پیسے لانے کے سیکڑوں راستے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ صاحب یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، میں کل حیدر آباد سے ہو کر آیا ہوں دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ابھی ہم انڈونیشیا گئے تھے کراچی سے بڑا ہونے کے باوجود سرسبز تھا۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟ ہماری سڑکیں دیکھیں کہیں سائن وغیرہ کچھ نہیں ہے،کچھ دن پہلے میں گلستان جوہریونیورسٹی روڈ سے آیا سارے روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نالہ متاثرین کو متبادلہ جگہ دینے کا کہا تھا،سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کرلیے ہیں، اتنے سارے کاموں کے لیے پیسے ہیں متاثرین کے لیے؟ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں عدالت کا شکر گزار ہوں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں،میں بتانا چاہتا ہوں 6 سال سے وزیر اعلیٰ ہوں،میں اس شہر میں ہی پیدا ہوا ہوں،ہم نے جو روڈ بنائے انکی فٹ پاتھ پر دکانیں الاٹ کردی گئی تھیں،ہمیں تجاوزات کے لیے ویسے ہی کام کرنا چاہیے،اس سال کچھ بہتری ہوئی ہے بارشوں میں بھی دیکھا ہوگا، انتظامی مسائل ہیں، مجھے ٹائم دیں میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں شارع فیصل بنایا ہے یونیورسٹی روڈ بنایا ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ادارے ہونے چاہئیں جو اس شہر کو چلا سکیں،ادارے ہوں جو اس شہر کو دیکھ سکیں، کے ڈی اے، کے ایم سی وغیرہ،حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کام کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کے ڈی اے کاڈی جی آیا کہ میں نے حکم امتناع لیا ہوا ہے تب ہی عہدے پر ہوں۔وزیراعلی سندھ نے کہاکہ یہ ادارے با اختیار ہیں، قانون موجود ہے،چیف جسٹس نے ا س پر کہا کہ ویل، بہتری نظر نہیں آتی،جواب میں وزیر اعلی نے کہاکہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ سول اداروں کے پاس اختیارات نہیں، ہم نے اداروں کو اختیارات دے رکھے ہیں، ہمیں اکیس گریڈ کے افسران درکار ہیں، وفاق سے سولہ میں سے چار افسران تعینات ہیں، ایک ایک آفسر سے تین تین عہدے چلوا رہے ہیں، وفاق کو متعدد بار کہہ چکے کہ افسران تعینات کریں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ گزشتہ سال تاریخی بارش ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی، نالہ متاثرین کی بحالی کا کام ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کیا ہے،انہوں نے کہاکہ ہم بھی متاثرین کی بحالی چاہتے ہیں، وفاق سے 36 ارب روپے آباد کاری کے لیے مانگے،ہمیں وفاق کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا،پہلی بار ہوا تاریخ میں وفاق سے کم ریونیو ملا ہے، ریاستوں کے لیے وسائل کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، واقعی دس ارب سندھ حکومت کے لیے کوئی مسلہ نہیں، متاثرین کے لیے پی سی ون بن چکا، ایک ارب روپے شروع میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے، دو سال میں متاثرین کو بحال کر دیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیس چالیس سال سے سندھ حکومت نے کسی ہائوسنگ اسکیم کا اعلان نہیں کیا،مراد علی شاہ نے بتایا کہ اس سال کچھ بہتر ریونیو آ رہا ہے وفاق سے گزشتہ مالی سال میں کم پیسے ملے ،ہمیں پتہ ہے لوگوں کے کیا مسائل ہیں لوگوں کو مہنگائی کا سامنا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ابھی وہ پیسے آئے نہیں ہیں آپ پیسے مانگ رہے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سندھ حکومت آٹھ ارب ایک دن میں جنریٹ کرسکتی ہے، مراد علی شاہ نے کہاکہ دس ارب روپے کی ضرورت ہے کابینہ نے ایک ارب کی فوری منظوری دی ہے۔چیف جسٹس نے مراد علی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم یہاں مسائل سننے نہیں آئے حل بتائیں،گرائونڈ پر کچھ ہے تو بتائیں،وزیر اعلی نے بتایا کہ پی سی ون بنا لیا ہے، عدالت جیسے حکم دے گی ہم عمل درآمد کریں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں پلان دیں کرنے کیا جارہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہمیں کوئی رپورٹ نہیں دی گئی،مراد علی شاہ نے کہاکہ دس ارب صوبے کے لئے کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپکے پیچھے وزیر بلدیات کھڑے ہیں انہیں بلا کر پوچھ سکتے ہیں،مگر ان کے پاس کچھ ہے نہیں بتانے کو سوائے ٹی وی پر بیان دینے کے،وہ اختیارات پتہ نہیں آپ کے پاس بھی ہیں یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت افسوس کی بات ہے متاثرین کی بحالی کے ہمارے پاس فنڈ نہیں ، جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں مگر آپ شرائط عائد نہیں کرسکتے،ہم پورے ملک کی سپریم کورٹ ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنھیں جرائم پیشہ لوگوں نے وہاں بٹھایا،ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جوان بچیاں ہیںآپ وزیر اعلی ہیں آپ سکون کی نیند کیسے سو سکتے ہیں۔مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ ہم کریں گے دس ارب کوئی مسئلہ نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کا بیان ریکارڈ کریں گے کہ متاثرین کی بحالی کا کام کریں گے،کوئی اگر مگر نہیں بس بحالی کا کام کریں۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن تین ماہ سے غیر فعال ہے،سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ اس کیس کا نمبر دے دیں دفتر میں ہم لگوا دیتے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ بہت ساری چیزیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کہہ سکتا، چیف جسٹس پاکستان نے اس پر کہاکہ پھر کبھی موقع ملا تو سنیں گے،ہم سب کچھ قانون کے مطابق ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہاں لوگوں نے سڑکوں پر قبضہ کرلیا ہے انتظامیہ کہاں ہے ؟کیا یہ گورنمنٹ آف لا ہے؟ہم عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہر مسئلے کا حل ہے آپ دیکھ لیں آپ کچھ نہیں کر رہے،آپ وفاقی حکومت وفاقی حکومت کہہ رہے ہیں وہ آکربیٹھ جائے گی توآپ کہاں جائیں گے،مراد علی شاہ بولے کہ میں وہ بات کرنا نہیں چاہتا، سیاسی بات ہوجائے گی۔جسٹس گلزار نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب ، وزیراعلی سندھ کہہ رہے ہیں کہ وفاق تعاون نہیں کر رہا،آپ وفاقی حکومت سے ہدایت لے کر بتائیں۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ جو افسران انہیں چاہئیں ان کو دیں،چیف جسٹس پاکستان بولے کہ ایسا لگ رہا ہے وفاقی حکومت بھی مفلوج ہے، بڑی تقریریں کرتے تھے گراس روٹ لیول کی حکومت کی،گراس روٹ لیول کی حکومت کہاں ہے؟کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے مراد علی شاہ سے کہاکہ ڈی جی کے ڈی اے تین ماہ پہلے آیا تھا تبادلہ کردیا ہے کیا کام کرے گا وہ؟ کے ڈی اے کے ڈائریکٹر آپکے پیچھے کھڑے ہیں ان سے پوچھ لیں،وزیر اعل نے کہاکہ میں دیکھ لیتا ہوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اور بھی کئی افسران ہیں جن کیایک ایک دو دو ماہ میں تبادلے کر دئیے جاتے ہیں۔وزیر اعلی نے کہاکہ ڈی جی کے ڈی اے کے پاس دو چارج ہیں،وزیر تعلیم مکمل فعال سیکریٹری تعلیم چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری بھی پرابلمز حل کریں لوگوں کی پرابلم حل کریں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جتنی بھی سوک ایجنسیز ہیں سب غیر فعال ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ جی بالکل ہمیں لوگوں نے منتخب کیا ہے،سماعت مکمل ہونے کے بعد وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سپریم کورٹ سے واپس روانہ ہوگئے۔ضیاء الدین اسپتال کے وکیل انور منصور خان بھی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آپ کے اسپتال کے اطراف تو سب قبضے ہو چکے ہیں۔ کے ڈی اے کے علاقے کا یہ حال ہے۔وکیل انور منصور خان نے بتایا کہ ہم نے قبضہ نہیں کیا، لوگ وہاں گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہی ہمارا موقف ہے کہ اردگرد قبضے ہیں۔چیف جسٹس نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ یہ بتائیں، سٹرک پر گھر کیسے بنے؟ یہ سب 3 سال کے اندر اندر ہوا۔ گلستان چلے جائیں، 90 فیصد کراچی گرے اسٹرکچر پر ہے۔جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کراچی تو کسی بھی وقت گر جائے گا۔ آپ لوگ دفتر میں صرف چائے پینے جاتے ہیں ، یہ ہے میٹرو پولیٹن سٹی؟۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ پھر آپ کر کیا رہے ہیں؟۔ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن نے عدالت کو بتایا مسئلہ یہ ہے کہ عہدوں پر کوئی رہتا نہیں، محمد علی شاہ او پی ایس افسر کو ڈی جی بنا دیا تھا۔ لوگ سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے کر آجاتے ہیں۔چیف جسٹس نے آصف میمن سے پوچھا کلفٹن میں کتنے رفاعی پلاٹس ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ کلفٹن میں 3 ہزار کے قریب رفاعی پلاٹس ہیں۔سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے جاری حکم امتناع ختم کردیے، عدالت نے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ جعلی لیز پر قائم مکانات، کمرشل تعمیرات فوری گرائی جائیں۔


متعلقہ خبریں


پی ٹی آئی مرکزی قیادت کے خلاف وائٹ پیپرکی تیاری، عمران خان کوبھیجنے کا فیصلہ وجود - منگل 03 دسمبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مرکزی قیادت کے خلاف وائٹ پیپر تیار کر کے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ سمیت مرکزی قیادت پر الزامات عائد کیے ہیں، پارٹی قائدین کا کہنا ہے کہ...

پی ٹی آئی مرکزی قیادت کے خلاف وائٹ پیپرکی تیاری، عمران خان کوبھیجنے کا فیصلہ

وفاقی کابینہ اجلاس، انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی بنانے کی منظوری وجود - منگل 03 دسمبر 2024

وفاقی کابینہ نے وزارت داخلہ کی سفارش پر پُرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی 2024 کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے موصول اعلامیے کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ جس پر مختلف منصوبوں اور سفارشات کی منظ...

وفاقی کابینہ اجلاس، انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی بنانے کی منظوری

جامشورو، تھل ، ساہیوال کے پاور پلانٹس تھرکول پر شفٹ کرنے کا فیصلہ وجود - منگل 03 دسمبر 2024

حکومت نے جامشورو، تھل اور ساہیوال کے کول پاور پلانٹس کو تھرکول پر شفٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت 28واں تھرکول اینڈ انرجی بورڈ کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں صوبائی وزیر توانائی ناصر حسین شاہ، رکن قومی اسمبلی شازیہ مری، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، وزی...

جامشورو، تھل ، ساہیوال کے پاور پلانٹس تھرکول پر شفٹ کرنے کا فیصلہ

وفاقی حکومت پر تحفظات کے حوالے سے حکمت عملی پر غور ، بلاول زرداری کے زیر صدارت اجلاس وجود - منگل 03 دسمبر 2024

پاکستان پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ صدارت بلاول ہائوس میں ہوا، جس کا مقصد موجودہ سیاسی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر غور و خوض کرنا تھا۔ اجلاس میں سینٹرل پنجاب، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ سمیت وفاقی سطح پر سیاسی، پالیسی...

وفاقی حکومت پر تحفظات کے حوالے سے حکمت عملی پر غور ، بلاول زرداری کے زیر صدارت اجلاس

پاک فوج کا پی ٹی آئی مظاہرین سے کوئی ٹکرائو نہیں ہوا،وزارت داخلہ وجود - اتوار 01 دسمبر 2024

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں پاک فوج کا پرتشدد ہجوم سے براہ راست کوئی ٹکرا نہیں ہوا اور نہ ہی وہ اس کام کیلئے تعینات تھی۔وزارت داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پرتشدد احتجاج میں تربیت یافتہ شر پسند اور غیر قانونی افغان شہری بھی شام...

پاک فوج کا پی ٹی آئی مظاہرین سے کوئی ٹکرائو نہیں ہوا،وزارت داخلہ

عمران خان جیل سے منتقل نہیں کیے گئے، ذرائع اڈیالہ جیل وجود - اتوار 01 دسمبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان اڈیالہ جیل میں ہی ہیں اور ان کی صحت بالکل ٹھیک ہے، ان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔یہ خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب عمران خان کی صحت کے حوالے سے تشویش ناک دعوے کیے جا رہے تھے اور یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اُنہیں کسی نامعلوم ...

عمران خان جیل سے منتقل نہیں کیے گئے، ذرائع اڈیالہ جیل

حکومتی مطالبے پر مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکارہوئے،لطیف کھوسہ وجود - اتوار 01 دسمبر 2024

مرکزی رہنما تحریک انصاف سردارلطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ حکومتی مطالبے پر مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکارہوئے۔ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سردارلطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی احتجاج میں بشری بی بی کی موجودگی سے کارکنان میں جوش وجذبہ پیدا ہوا، علی امین گنڈا پور چاہتے تھے بشری بی بی ...

حکومتی مطالبے پر مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکارہوئے،لطیف کھوسہ

دھرنے سے قبل اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں رابطوں کا انکشاف وجود - اتوار 01 دسمبر 2024

اسلام آباد میں 24 نومبر کے دھرنے سے قبل اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔تحریک انصاف کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اجلاس کے ارکان کو 24 نومبر سے قبل اور بعد کی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا۔احتجاج کی ...

دھرنے سے قبل اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں رابطوں کا انکشاف

ہماری حکومت میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی،علی امین گنڈا پور وجود - اتوار 01 دسمبر 2024

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ہماری حکومت میں امن و امان کی صورتحال بہترہوئی۔ پشاور میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈکوارٹرز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ اپیکس کمیٹی میں وزیراعظم نے کہا تھا خیبرپختونخوا میں سی ٹ...

ہماری حکومت میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی،علی امین گنڈا پور

یکم جنوری 2028سے سود کا نظام ختم ہوجانا چاہیے، فضل الرحمان وجود - اتوار 01 دسمبر 2024

جمعیت علما ئے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ یکم جنوری 2028 سے ملک سے سود کا نظام ختم ہوجانا چاہیے۔لودھراں میں باب العلوم کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں ہوسکی۔فضل الرحمان نے کہا کہ وفاقی ش...

یکم جنوری 2028سے سود کا نظام ختم ہوجانا چاہیے، فضل الرحمان

گورنر راج اور کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہیں،بلاول بھٹو وجود - هفته 30 نومبر 2024

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ کسی صوبے میں گورنر راج اور سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہیں، گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ سیاست میں نہیں آتا، سیاسی استحکام قائم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اپوزیشن ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 ویں یوم تاسیس ...

گورنر راج اور کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حامی نہیں،بلاول بھٹو

خواجہ آصف نے پختونخواہ کی علیحدگی کا سنگین الزام پی ٹی آئی پر عائد کر دیا وجود - هفته 30 نومبر 2024

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان سے حملہ آور سرحد عبور کرکے پاکستان میں آکر حملے کر رہے ہیں، یہ سب خیبرپختونخوا کو پاکستان سے الگ کرنے کی ملک دشمنوں کی سازش ہے ، سازش کی سیاسی سہولت کارپی ٹی آئی ہے،لشکروں کے ذریعے کسی کو اقتدار نہیں دیا جائے گا،پاراچنار میں فرقہ وارانہ ...

خواجہ آصف نے پختونخواہ کی علیحدگی کا سنگین الزام پی ٹی آئی پر عائد کر دیا

مضامین
کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی وجود منگل 03 دسمبر 2024
کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی

دنیا ہماری انگلیوں پر وجود منگل 03 دسمبر 2024
دنیا ہماری انگلیوں پر

مودانی :ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے وجود پیر 02 دسمبر 2024
مودانی :ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی وجود پیر 02 دسمبر 2024
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی

انا کی موت،زندگی کی حقیقت وجود پیر 02 دسمبر 2024
انا کی موت،زندگی کی حقیقت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر